مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
13 دسمبر، 2016
وحدۃ الوجود ایک ایسی حقیقت ہے جس کا برملا اعتراف سالکِ راہِ حق اس وقت کرتا ہے جب وہ سلوک، حقیقت اور معرفت کی منزلوں کو طئے کرتا ہوا مادی علائق اور کثافتوں کے تمام تر منازل کو عبور کے جلوہ حق کے مشاہدے میں گم ہو جاتا ہے ۔ہم آئندہ تحریروں میں اس امر کو پوری وضاحت کے ساتھ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ سلوک و معرفت کے اس مقام پر فائز ہو جانے کے بعد سالک اور عارف کا وحدۃ الوجود کی گواہی دینا عینِ تقاضائے فطرت ہے۔
لیکن یہ بڑی عجیب بات ہے کہ وحدۃ الوجود کا تصور اپنے دامن میں جہاں علوم معارف کے انمول جواہر سمیٹے ہوئے ہے، کہ جس نے مذہب و ثقافت سے پرے دنیا کے بے شمار عرفاء ، علماء، سالکین اور مفکرین کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور جو آج بھی طالبین، سالکین اور عرفاء کو خامہ فرسائی کی دعوت دے رہا ہے، وہیں وحدۃ الوجود کا یہ تصور مختلف اسلامی مکاتب فکر کے درمیان سب سے زیادہ متنازع فیہ مسائل میں سے ایک ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وحدۃ الوجود کا تصور جہاں ایک جماعت کے لیے علم و معرفت اور سلوک و کمال کی ایک روشن دلیل ہے وہیں دوسرے گروہ کے نزدیک عین شرک ہے۔
اب بات چونکہ وحدۃ الوجود کے تصور کو شرک کہنے اور اس کے قائلین کو مشرک کہنے والوں کی چل پڑی ہے تو تھوڑی گفتگو اس پہلو پر بھی قارئین کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں ہو گی۔ فی الوقت سعودیہ عربیہ میں اپنی دینی خدمات دینے والے پاکستان کے ایک سلفی عالم و مفتی شیخ توصیف الرحمٰن راشدی نے وحدۃ الوجود کو تصوف اور قبر پرستی سے منسوب کرتے ہو کہا کہ "شرکیہ عقائد کے اندر ایک بہت بڑا عقیدہ وحدۃ الوجود کا ہے۔ جس کو صوفیاء اور قبر پرست پیش کرتے ہیں کہ اس کائنات میں جو کچھ ہے وہ اللہ عز و جل کا سایا ہے، عکس ہے، مختلف صورتیں ہیں"۔
انہوں نے وحدۃ الوجود کے سب بڑے حامی اور علمبردار شیخ محی الدین ابن عربی کو اپنی شرک کی تلوار کی زد میں لیتے ہوئے کہا کہ "وحدۃ الوجود کا یہ کفریہ عقیدہ کفار مکہ کے اندر بھی موجود نہیں تھا اور اس کفر کے عقیدہ کو کفار مکہ بھی نہیں مانتے تھے"۔ مولانا موصوف کے اس استدلال کا کچھ فائدہ ہوا ہو یا نہ لیکن اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ پتھروں کے اس دور کے وہ کفار اپنے کفر میں کتنے ایماندار اور مخلص تھے کہ جب زمین بھی پتھر کی تھی، دیواریں بھی پتھر کی تھیں، پہاڑ بھی پتھر تھے، دل بھی پتھر کے تھے، لوگوں کے ہاتھوں میں بھی پتھر تھے، انسان بھی پتھر کے تھے اور معبود بھی پتھر کے تھے۔
بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ مزید کہتے ہیں، "اور یہ یاد کر لیجئے یہ عقیدہ وحدۃ الوجود اتنا غلیظ عقیدہ ہے، اتنا کفریہ عقیدہ ہے کہ اس جیسا کفر شاید دنیا میں زمین کے سینے پر موجود نہ ہو"۔ قارئین کی مزید معلومات اور دلچسپی کے لیے ذیل میں مولانا موصوف کی تقریر کی ویڈیو کلپ کو بھی شامل کر لیا گیا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
شیخ توصیف الرحمٰن راشدی صاحب نے وحدۃ الوجود کے قائلین پر یہ تہمت عائد کیا ہے کہ وحدۃ الوجود کا نظریہ پیش کرنے والے اور اس کی حمایت کرنے والے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ، "ہر چیز ایک ہی وجود ہے، ہر چیز اسی اللہ کا وجود ہے، شکلیں مختلف ہیں لیکن حقیقت میں اندر وہی (اللہ) ہے"۔ قارئین سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ شیخ صاحب کے اس بیان کو بار بار پڑھیں اور یہ محسوس کرنے کی کوشش کریں کہ انہوں نے کس شاطر دماغی کے ساتھ علمی دیانت داری کا جنازہ نکالا ہے، اس لیے کہ انہوں نے وحدۃ الوجود کے قائلین سے منسوب کرتے ہوئے یہ عقیدہ تو بیان کر دیا لیکن انہوں نے اس بات کا تعین کرنا ضروری نہیں سمجھا کہ اس نظریہ کا بانی کون ہےاور کس نے اس غلیظ اور شرکیہ عقیدے کا قول کیا ہے؟
در اصل امر واقعہ یہ ہے کہ وحدۃ الوجود مکمل طور پر انسان کے روحانی سفر اور باطنی کیفیات و مشاہدات اور تجربات سے عبارت ہے۔ اور وحدۃ الوجود ایک تصور اور نظریہ کی شکل میں ہمارے سامنے اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب کوئی کامل عارف یا سالکِ حق اپنے روحانی سفر میں پیش آنے والے باطنی کیفیات و مشاہدات کو تحریر یا تقریر کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔
وحدۃ الوجود کے مسئلہ کو سمجھنے اور اس کی توضیح و تفہیم میں غلط فہمیوں سے بچنے کے لیے سب سے پہلے اس بات کو سمجھنا ضروری ہےکہ وجود کا معنیٰ و مفہوم کیا ہے؟ وجود کا معنیٰ کسی چیز کا "ہونا" ہے۔ اور یہ بڑی واضح اور عام بات ہے کہ کسی بھی شئی کا وجود یعنی کسی بھی شئی کا "ہونا" دو طریقوں سے ہوتا ہے: کسی بھی شئی کا وجود یا تو خارج میں ہوتا ہے یعنی ہم اس وجود کا مشاہدہ اپنی ننگی آنکھوں سے کرتے ہیں، یا پھر اس کا وجود باطن میں ہوتا ہے یعنی اس کا وجود ہمارے ذہن و دماغ میں تو ہوتا ہے لیکن خارج میں ہم اپنی کھلی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ نہیں کر تے۔ جب اتنی بات سمجھ میں آگئی تو یہ سمجھنا بھی قارئین کے لیے آسان ہو گا کہ وجود کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک وجود تو وہ ہوتا ہے کہ جس میں کوئی اخفاء اور کوئی پوشیدگی نہیں ہوتی اور جسے ثابت کرنے کے لیے ہمیں کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی اور اسی کو حکماء بدیہی وجود کہتے ہیں۔ جبکہ دوسرا وجود وہ ہوتا ہے جسے ثابت کرنے کے لیے ہمیں دلیل ضرورت ہوتی ہے اور حکماء اسے وجود نظری قرار دیتے ہیں۔
ابن عربی جنہیں تصورِ وحدۃ الوجود کا بانی تصور کیا جاتا ہے انہوں نے وجود سے مراد بدیہی وجود مراد لیا ہے جسے ثابت کرنے کےلیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی، یا اگر اس میں کوئی پوشیدگی ہو تب بھی وہ اپنے ظہور کے لیے بے تاب ہو۔ اور حکماء کے نزدیک ایسا وجود جو پنہاں بھی ہو اور اپنے ظہور کے لیے بے تاب بھی ہو وہ واحد اور متعین ہے۔ وہ کسی اور نہیں بلکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا وجود ہے۔ اللہ کا وجود سر الاسرا اور غیب الغیوب ہے۔ اس کائنات کا سب سے بڑا راز اللہ کا وجود ہے اور اس عالم و رنگ و بو کا حقیقی غیب اور سِر صرف خدائے وحدہ لا شریک کی ذات پاک ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات ہر لحظہ اور لمحہ ایک نئی آن و شان کے ساتھ اپنی آشکارائی اور ظہور پذیری کے لیے بے تاب و بے قرار رہتی ہے۔
اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہاتھا:
گفت وجود آنکہ می خواہد نمود
آشکارائی تقاضائے وجود
ترجمہ: اس نے کہا موجود وہی ہے جو ظہور اور آشکارائی چاہے۔ (اس لیے کہ) وجود کا تقاضا ظہور اور آشکارائی ہے۔
جاری.................................
URL: https://newageislam.com/urdu-section/understanding-concept-wahdaul-wajud-(part-1/d/109369
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism