مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
21 دسمبر، 2016
اس قضیہ کو ثابت کرنے کے لیے اب مزید کسی دلیل یا مثال کی ضرورت نہیں کہ وحدۃ الوجود کا قول کرنے والے صوفیاء، علماء اور حکماء نے وحدۃ الوجود کا جو تصور پیش کیا ہے اس کا ٹکراؤ کسی بھی طرح نظام توحید کے ساتھ نہیں ہوتا ہے۔اس لیے کہ ان کا استدلال یہ ہے کہ جب کوئی سالک اور عارف اپنے روحانی سفر کے کمال پر پہنچتا ہے اور اس پر تجلیاتِ انوارِ الٰہیہ کا ظہور ہوتا ہے اور جب اس پر اس کیفیتِ ظہور کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ مشاہدہ انوارِ الٰہیہ میں اتنا مستغرق ہو جاتا ہے کہ ذات وحدہ لاشریک کے علاوہ کائنات کی ہر حقیقت یا کائنات کی ہر شئی اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ یا یہ کہیں کہ جب کسی صوفی یا عارفِ کامل پر ظہورِ تجلیاتِ الٰہیہ کی لذات و کیفیات کا غلبہ ہو جاتا ہے تو پھر اسے کائنات کی ہر شئی میں تجلیات ِذات حق کا مشاہدہ ہوتا ہے اور اسی غلبہ حال کے عالم وہ کائنات کی ہر شئی کا اور ہر وجود کا انکار کر دیتا ہے اور صرف ایک ہی ایسے وجود کا اقرار کرتا ہے جو کہ پوری کائنات کا مبداء ہے اور وہ ذات حق تعالیٰ کا وجود ہے۔
گویا وہ زبان حال سے ناطق ہوتا ہے:
چناں غرقیم در دریائے وحدت
کہ ہوش از گوہر عالم ندارم
چناں مستغرقم اندر خیالت
خبر از عالم و آدم ندارم
ترجمہ: میں بحر وحدت میں ایسا غرق ہوا ہوں کہ اب مجھے اس دنیا و ما فیہا کی کوئی خبر نہیں رہی۔ (اے رب) میں تیرے تصور میں ایسا ڈوبا ہوں کہ اب مجھے نہ اس کائنات رنگ و بو کا کوئی خیال ہے اور نہ ہی اس میں موجود کسی انسان کی مجھے کوئی خبر ہے۔
یہاں میں اس امر کی وضاحت کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ وحدۃ الوجود کے تجربہ سے گزرنے والے صوفیاء، علماء اور حکماء کی رائے جزئیات میں مختلف ہو سکتی ہے لیکن اس کی حمایت کرنے والے کسی بھی صوفی یا کسی بھی عالم نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے وہ سب اللہ رب العزت کی ذات کا عکس ہے یا اسی کی ذات کی مختلف صورتیں ہیں۔ یہ علمائے حق اور صوفیاء کرام پر ایک کھلا ہوا بہتان اور ایک واضح جھوٹ ہے۔ یہ فرقہ باطلہ کی جانب سے پیش کیا جانے والا ایک من گڑھت عقیدہ ہے، جو کہ یقیناً ایک کھلا ہوا شرک ہے اور اس کا قول علمائے حق اور صوفیائے کرام کے کسی بھی طبقہ نے کبھی نہیں کیا ہے اور وہ اس الزام سے کلیۃً بری ہیں۔ جیسا کہ شرک کی فیکٹری چلانے والی ایک جماعت کے ایک عالمی شہرت یافتہ مبلغ شیخ توصیف الرحمٰن نے اپنی ایک تقریر میں دعویٰ کیا ہے اور انہوں نے اسی بنیاد پر تمام صوفیاء کو مشرک کہا ہے۔ذیل میں ایک مرتبہ مزید ان کے بیان کو نقل کیا جاتا ہے تاکہ صورتِ مسئلہ قارئین کے ذہن میں واضح رہے۔
شیخ توصیف الرحمٰن نے انتہائی دریدہ ذہنی کے ساتھ صوفیاء اور تمام غیر سلفی مسلمانوں کو مشرک ثابت کرنے کے لیے علمی خیانت اور بد دیانتی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ:"شرکیہ عقائد کے اندر ایک بہت بڑا عقیدہ وحدۃ الوجود کا ہے۔ جس کو صوفیاء اور قبر پرست پیش کرتے ہیں کہ اس کائنات میں جو کچھ ہے وہ اللہ عز و جل کا سایہ ہے، عکس ہے، مختلف صورتیں ہیں"۔"وحدۃ الوجود کا یہ کفریہ عقیدہ کفار مکہ کے اندر بھی موجود نہیں تھا اور اس کفر کے عقیدہ کو کفار مکہ بھی نہیں مانتے تھے"۔
بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ مزید کہتے ہیں، "اور یہ یاد کر لیجئے کہ یہ عقیدہ وحدۃ الوجود اتنا غلیظ عقیدہ ہے، اتنا کفریہ عقیدہ ہے کہ اس جیسا کفر شاید دنیا میں زمین کے سینے پر موجود نہ ہو"۔ جبکہ وہ یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے وحدۃ الوجود کی تشریح میں یہ عبارت علمائے حق اور صوفیائے کرام کی کس کتاب سے اخذ کی ہے۔ تصورِ وحدۃ الوجود کا دفاع کرنے والے تمام علماء اور صوفیاء کا سب بڑا اعتراض فرقہ اہلحدیث کے متعصب و تنگ نظر نمائندوں اور ترجمانوں پر یہی ہے کہ تصورِ وحدۃ الوجود کی یہ توضیح اور تعبیر انہوں نے اہل تصوف و معرفت کی کس عبارت سے اخذ کی ہے، جس کا جواب پیش کرنے سے وہ اب تک قاصر ہیں اور ان کی یہ خاموشی ان کی علمی بد دیانتی پر دال ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ گمراہ کن تشریح لفظ "وحدۃ الوجود" سے اخذ کیا ہے جس کا معنیٰ تمام موجودات کا ایک ہونا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو ان کی نظر اس امر پر کیوں نہیں جاتی کہ جب بھی وحدۃ الوجود پر گفتگو کی جاتی ہے تو سب سے پہلے اس امر کو واضح کر دیا جاتا ہے کہ نظریہ وحدۃ الوجود مکمل طور پر سالکین اور عرفائے کاملین کے کشف و مشاہدات اور باطنی و روحانی اسرار و کیفیات سے عبارت ہے اور "وحدۃ الوجود" صرف ایک ایسا لفظ ہے جو ایک مکمل نظریہ کی نمائندگی اور ترجمانی کرتا ہے اور جس کے اندر توجیہہ و تعلیل کی گنجائش موجود ہے اور یہ امر مسلم ہے کہ جس قضیہ اور جس جملے کے اندر توجیہہ و تعلیل کی گنجائش موجود ہو اسے بنیاد بنا کر کسی گفت و شنید کے بغیر کفر و شرک کا قول کرنا نہ تو تکنیکی اور منطقی طور پر درست ہے اور نہ ہی اخلاقی طور پر اس کا جواز پیش کیا جا سکتا ہے۔
اب ہم وحدۃ الوجود کے خلاف توحید پرستی کے نام نہاد علمبردار فرقہ سلفیت کے موقف کا ایک علمی محاسبہ کریں گے۔ تصورِ وحدۃ الوجود کے بارے میں بے جا مغالطے اور شکوک و شبہات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ دلائل و شواہد کی روشنی میں ہم اس بات کی تحقیق کریں کہ سلفی مکتبہ فکر کے ترجمان اور مبلغ شیخ توصیف الرحمٰن نے اس کے خلاف جس قدر جارحانہ تیور کا اظہار کیا ہے کیا اس کی مثال تصورِ وحدۃ الوجود کے حوالے سے ماضی کے اکابر علماء میں پائی جاتی ہے؟
اس زاویہ نظر سے جب ہم اکابر علمائے اہل حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم یہ پاتے ہیں کہ تصور وحدۃ الوجود اکابرِ علمائے اہل حدیث کی کتابوں میں بڑی صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ انہیں اکابرین علمائے اہل حدیث میں ایک ممتاز اور نامور شخصیت نواب سید صدیق حسن بھوپالی (ولادت 1248ہجری بمطابق 1832 عیسوی- متوفی 1307 ہجری بمطابق 1890عیسوی)کی ہے۔ فقہ، حدیث، تفسیر اور دیگر اسلامی علوم و فنون میں تقریبا 222 کتب کے مصنف مکتبہ اہل حدیث سے تعلق رکھنے والے ایک جید عالم دین نواب سید صدیق حسن بھوپالی اکابر علمائے اہل حدیث کے درمیان ایک اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ ان کی ایک کتاب "الروضۃ الندیہ" تمام سلفی مدارس میں آج بھی شامل نصاب ہے۔ اس کتاب کو جماعت اہل حدیث کے اکابر علمائے کرام کی نظر میں اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ علامہ ناصر الدین البانی (المتوفی 1999 ہجری) نے کہ جنہیں جماعت اہل حدیث میں ایک بلند پایہ محدث اور جرح و تعدیل کا امام مانا جاتا ہے، اپنی تصانیف میں جگہ جگہ طالبان علوم نبویہ کو نواب سید صدیق حسن بھوپالی کی کتاب (الروضۃ الندیہ) کو مطالعہ میں رکھنے کی تلقین کی ہے۔
نواب سید صدیق حسن بھوپالی کے صاحب زادے جناب سید علی حسن خان صاحب نے اپنے والد کے حالات زندگی پر ایک کتاب لکھی جس کا نام "ماثِرِ صدیقی" ہے۔ اس کتاب کے جلد 4، صفحہ نمبر 38 تا 40 پر نواب سید صدیق حسن بھوپالی کے صاحب زادے جناب سید علی حسن خان صاحب نے وحدۃ الوجود کے حوالے سے اپنے والد کے جن ارشادات کو قلم بند کیا ہے وہ کافی حیرت انگیز ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ :
"بہر حال اس مسئلہ وحدۃ الوجود کا سارا دار و مدار حضرات صوفیہ کے کشف و شہود پر ہے اور علماء اور صوفیہ نے اس کے متعلق بہت ساری کتابیں اور رسائل لکھے ہیں۔ مثلاً طبقات قادریہ میں حضرت شیخ محی الدین ابن عربی۔ شیخ صدر الدین انوی۔ شیخ عبد الکریم جیلی۔ شیخ عبد الرزاق جہجانوی۔ شیخ امان اللہ پانی پتی۔ اور طبقہ کبرویہ میں شیخ جلال الدین رومی۔ شیخ شمس الدین تبریزی۔ طبقہ نہروریہ میں شیخ فرید الدین عطار ۔ طبقہ چشتیہ میں سید محمد گیسو دراز۔ سید جعفر بنکی۔ طبقہ نقشبندیہ میں خواجہ عبد اللہ احرار ۔ ملا نور الدین جامی۔ملا عبد الغفور لاری۔ خواجہ باقی باللہ کابلی۔ شیخ عبد الرزاق کاشی۔ شمس الدین فناری۔ قیصری۔ سعد الدین فرغانی وغیرہ گزرے ہیں"۔
وہ مزید لکھتے ہیں:
"ہم لوگ چونکہ ان اختلافات کے بعد پیدا ہوئے ہیں اس لیے ہم کو طرفین میں سے کسی ایک کی طرف جزاً میلان نہیں ہو سکتا۔ مذہبِ وحدۃ الوجود اور مذہبِ وحدۃ الشہود پر اگر نظر ڈالی جائے تو جس طرح ایک جانب بہت سے دلائل ہیں اسی طرح دوسری طرف بھی بہت سی دلیلیں ہیں۔ ہم پر اعتقاداً لازم ہے کہ ہم کسی جانب بھی ضلالت و گمراہی کا خیال دل میں نہ لائیں اس لیے کہ اس میں بہت سے علمائے کرام اور مشائخ عظام کی تضلیل و تکفیر لازم آتی ہے۔ وحدت الوجود کے اثبات یا ابطال میں لب کشائی نہ کرنی چاہیے۔ اگر خود ذی فہم ہے تو اپنی فہم پر قناعت کرےاور اگر وہ نہیں سمجھتا تو اس کے قائلین پر چھوڑ دے"۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism