مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
11 جولائی 2017
جس دور میں پیغمبر اسلامﷺ کی ولادت ہوتی ہے ور جس عصر میں آپ ﷺ کی بعثت کا اعلان ہوتا ہے اس وقت پوری دنیا کے بالعموم اور عالم عرب کے بالخصوص مخصوص سماجی اور معاشرتی حالات تھے۔ عالمی سطح پر شہنشاہت کا راج تھا، عالم عرب میں قبائلی نظام رائج تھا اور عرب معاشرہ قبائلی گروہ بندی (Tribal Leaderships) کی گرفت میں تھا۔ پوری انسانیت ذلت و رسوائی کی چکی میں پِس رہی تھی، قتل و غارت گری کا رجحان غلبہ پا چکا تھا، لوگوں کی سرشت میں باہمی جنگ و جدال اور عداوت و دشمنی داخل ہو چکی تھی۔ الغرض، پورا انسانی معاشرہ نفرت، عداوت، بغض و عناداور قتل و قتال کی آگ میں جھلس رہا تھا۔ غریب و نادار، خواتین، جنگی قیدی اور غلام کو عزت اور مساوات کا حق دار سمجھا جانا تو بہت بڑی بات تھی، ان کے لئے بنیادی انسانی حقوق اور وسائل تک کو روا نہیں رکھا گیا تھا اور انسان بنیادی انسانی اقدار کے تصور سے بھی واقف نہیں تھے۔
جہالت، تاریکی، ظلم و بربریت اور پتھروں کے اس دور میں کہ جب دیواریں بھی پتھر کی تھیں، لوگوں کے دل بھی پتھر کے تھے اور ہاتھوں میں بھی پتھر تھے، پیغمبر اسلام ﷺ نے لوگوں کے سامنے دین کا ایک ایسا جامع اور انقلابی نظریہ پیش کیا جس کی جڑیں بنیادی طور پر تین اصول پر قائم ہیں۔ اور بقیہ اسلام کی تمام تعلیمات بنیادی طور پر انہیں تین اصولوں میں سے کسی ایک کی توسیع، تشریح اور تفصیل ہیں۔ کل اسلامی تعلیمات، سیرت نبوی اور سنت نبوی کا خلاصہ اور لب لبا وہ تین بنیادی اصول حسب ذیل ہیں:
1. محبت
2. امن
3. علم
مذکورہ بالا ان تینوں امور کو ان کی حقیقی روح کے ساتھ جمع کرنے سے جو شکل تیار ہو اسی کا نام اسلام ہے۔ انشاء اللہ، ہم آئندہ اس پر پوری شرح و بسط کے ساتھ گفتگو کریں گے۔ لہٰذا، جب یہ بات معلوم ہو چکی کہ دین اسلام کی اساس بنیادی طور پر محبت و رحمت، امن و سلامتی اور علم و معرفت کے انہیں تین عناصر پر مبنی ہے، تو عصر حاضر کے تناظر میں اب ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام کے عنصر اول یعنی محبت و رحمت پر سیر حاصل گفتگو کی جائے، اس لئے کہ محبت ایک ایسا بیج ہے کہ جب یہ ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرتا ہے تو اس میں امن و امان کے پھل لگتے ہیں، یعنی امن و ہم آہنگی محبت کا نتیجہ ہے۔ اور آج کی اس ترقی یافتہ دنیا میں کہ جب ہم پتھروں کے دور سے نکل چکے ہیں، سب سے زیادہ اگر کسی انسانی قدر اور معاشرتی ضرورت کو خطرہ لاحق ہے وہ امن و ہم آہنگی اور اخوت و محبت ہے۔ اس لئے کہ آج کی اس کثیر مذہبی اور کثیر ثقافتی دنیا میں مذہبی، نسلی، طبقاتی اور فرقہ وارانہ منافرت کے زہر نے لوگوں کو رحمت و شفقت اور محبت و ہمدردی کے اقدار سے دور کر دیا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ آج پوری دنیا بالعموم اور عالم اسلام اور مسلم معاشرہ بالخصوص باہمی امن و امان، ہم آہنگی، رواداری اور بقائے باہمی جیسے عالم گیر اور آفاقی اقدار سے محروم ہو کر مذہبی، نسلی، طبقاتی اور فرقہ وارانہ کشمکش کا شکار ہو چکا ہے۔
اس کے پش پشت جہاں عالمی سطح پر چند مفاد پرست طبقات کی سازشیں کارفرما ہیں وہیں خود دین اسلام کا دم بھرنے والے کج فہم، کم علم اور فرقہ وارانہ عناد کی آگ میں جھلسنے والے چند عدم روادار گروہوں کی نادانیاں اور غلطیاں بھی شامل حال ہیں۔
المختصر، ہم آج کے اس روشن خیال اور ترقی یافتہ دور میں قیام امن و ہم آہنگی اور بقائے باہمی کے تقاضوں کو، جو کہ اسلام کی روح ہے- اس وقت تک پورا نہیں کر سکتے جب تک ہم خود اسلام کا دم بھرنے والے ایک طبقے کی ان تعلیمات اور اصول و معتقدات کا کھل کر رد نہیں کرتے جن سے مذہبی عدم رواداری، فرقہ وارانہ منافرت اور تعصب و تنگ نظری کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔
مثلاً:
1. کافروں سے مدارت رکھنے والا کافر
2. کافروں کی باتوں پر عمل کرنے والا کافر
3. کافروں کو امرائے اسلام کے پاس لے جانے والا اور ان کو ہم مجلس بنانے والا کافر
4. کافروں سے کسی امر میں مشورہ کرنے والا کافر
5. مسلمانوں کے امور میں سے کسی ایک مسئلۂ امارت (و خلافت) وغیرہ میں کافروں سے کام لینے والا کافر
6. کافروں کے پاس بیٹھنے اور ان کے پاس جانے والا کافر
7. کافروں سے خوش مزاجی کے ساتھ پیش آنے والا کافر
8. کافروں کا اکرام کرنے والا کافر
9. کافروں سے امن طلب کرنے والا کافر
10. کافروں کی خیر خواہی کرنے والا کافر
11. کافروں سے مصاحبت (دوستی کرنے) و معاشرت رکھنے والا کافر
12. کافروں کو سردار کہنے والا کافر
13. علم طب جاننے والے کو ‘‘حکیم’’ کہنے والا کافر
14. کافروں کے ملک میں ان کے ساتھ رہنے والا کافر [1]
خود کو دین اسلام سے منسک کرنے والی نام نہاد توحید پرست جماعت کی جانب سے اشاعت کئے جانے والے مذکورہ بالا اصول و معتقدات اس قدر زہر آلود، عدم روادار، نفرت انگیز اور تشدد آمیز ہیں کہ ان کے زندہ رہتے ہوئے ایک پر امن مذہب کے طور پر اسلام کی ساکھ کو مضبوط کرنے کا خواب ہرگز شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ نیز، اگر داخلی طور پر اسلامی معاشرے کے اندر اور خارجی سطح پر دیگر ادیان و مذاہب اور اقدار و روایات کے ساتھ امن و ہم آہنگی، رواداری اور بقائے باہمی کی روایت قائم کرنا ہمارا ترجیحی موقف ہے تو ہمیں اس حقیقت کا بھی ادراک کرنا ہوگا کہ مذہبی اصول و معتقدات کے نام پر ایسے عدم روادار اور زہر آلود نظریات نہ صرف یہ کہ اقوام عالم کے درمیان دین اسلام کے لئے ذلت و رسوائی کا باعث ہیں بلکہ پیغمبر اسلام ﷺ کے اس انقلابی نظریہ دین کے بھی خلاف ہیں جس نے پتھروں کے دور میں انسانی اقدار اور تہذیب و تمدن کا دروازہ کھولا تھا۔
جاری............
...................
[1] ملخص اردو از مجموعۃ التوحید مطبوعہ ام لقریٰ مکہ معظمہ1322 ہجری، صفحہ 86-87 (بحوالہ تاریخ نجد و حجاز)
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism