New Age Islam
Fri Sep 13 2024, 12:33 AM

Urdu Section ( 20 Dec 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Sufi message from Ghaus-e-Azam’s Life یہ گیارہویں کا موسم کچھ پیغام بھی دیتا ہے

مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام

18 دسمبر 2018

اپنے مذہب ، اپنی نسل ، اپنی روایت ، اپنی زبان و ادب،اپنی ثقافت اور اپنی تہذیب و تمدن کے سرخیل اور زعماء کی یاد منانا ، ان کے لئے کوئی ایک خاص دن مقر کرنا اور اس دن اہتمام کے ساتھ ان کی حیات، خدمات، تعلیمات اور قیمتی کارناموں کو یاد کرنا کسی بھی مہذب معاشرے کی علامت ہے۔ جو قومیں ماضی کے اوراق میں اپنے زعماء اور رہنماؤں کی قیمتی یادوں کو ٹٹولنا بند کر دیتی ہیں اپنی ماضی سے ان کا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے، اور کسی قوم کا اپنے ماضی سے کٹ جانا اس قوم کی تہذیب و تمدن کی فناء کے لئے کافی ہے۔ لہٰذا ، بحیثیت صوفی مسلمان صوفیائے کرام کی حیات، تعلیمات اور قیمتی خدمات ہماری تاریخی اور تہذیبی وراثت کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ اور اس بیش قیمتی وراثت کو زندہ رکھنا اور اسے صحیح شکل میں ائندہ نسلوں تک منتقل کرنا ہم تمام صوفی مسلمانوں کی ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا، آج جب کہ پوری دنیا کے صوفی مسلمان گیارہویں شریف منا رہے ہیں اور جگہ جگہ ان کی یاد میں محفلیں منعقد کر رہے ہیں، ضروری ہے کہ آپ کی حیات مبارکہ کے ایک اہم گوشے پر روشنی ڈالی جائے۔

حضور غوث الاعظم کی تاریخ پیدائش اور نام و نسب

حضرت علی تک آپ کا نسب مبارک اس طرح ہے؛ محی الدین ابو محمد عبد القادربن ابی صالح جنگی دوست بن ابی عبداللہ یحیٰ الزاہدبن محمد بن داؤد بن موسیٰ بن عبد اللہ بن موسیٰ الجون بن عبد اللہ المحضبن حسن المثنیٰ بن امیر المؤمنین علی بن ابی طالب القریشی الہاشمی العلوی الحسنی الجیلی الحنبلی۔ (قلائد الجواہر فی مناقب شیخ عبد القادر)

قطب الدین یونینی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ آپ ۴۷۰ میں پیدا ہوئے، جبکہ صاحب بہجۃ الاسرار نے شیخ ابو الفضل احمد بن شافع کے حوالے سے آپ کا سن ولادت ۴۷۱ ہجری بیان کیا ہے۔ اور مستند روایات کے مطابق آپ کا سن وفات ۵۶۱ ہجری ہے۔

میں اس تحریر میں علم کے حوالے سے قطب عالم، شہنشاہِ ولایت، غوث الثقلین حضرت سیدنا شیخ عبد القادرجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیات و خدمات پر مختصر روشنی ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اس لیے کہ یہ آپ کی حیات مقدسہ کا وہ پہلو ہے جسے ہر دور میں نظر انداز کیا گیا ہے۔اولیاء اور صوفیاء سے محبت کرنے والی جماعت کے زعماء، علماء اور مفکرین کے لیے یہ امر کسی المیہ سے کم نہیں ہے کہ آپ کی زندگی کا یہ قیمتی پہلو ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا اور اولیائے کرام کی حیات کے یہ روشن گوشے کتبِ تواریخ و سیَر کے اوراق میں گم ہو کر رہ گئے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اولیاء اور عرفاء کے مخالفین و معاندین کی دیرینہ خواہش اور اولین کوشش تو یہ ہے ہی کہ انہیں فراموش کر دیا جائے اور اس پر مستزاد یہ کہ ہماری جماعت کے مقررین اور اہل قلم حضرات نے اولیائے کرام اور صوفیائے عظام کی صرف کرامتوں اور شرف و بزرگی کو ہی بیان کرنا اپناشیوا بنائے رکھا اور بہت کم لوگوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ انہیں تصوف، سلوک، ولایت اور طریقت کے اس مقام پر کس چیز نے فائز کیا؟

اسی بنیاد پر راقم الحروف نے اس بات کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی کہ اکابر آئمۂ محدثین اور فقہاء کے حوالے سے سیدنا غوث الاعظم کے علمی مقام کو واضح کر دیا جائے تا کہ لوگوں کی نظر میں سلوک، تصوف اور طریقت کا ایک نیا گوشہ واضح ہو سکے۔اور یہ امر بھی واضح ہو سکے کہ کیا صرف عقیدت مندوں نے ہی آپ کا یہ مقام بنا رکھا ہے یا جلیل القدر آئمہ علم، آئمہ تفسیر اورآئمہ حدیث نے بھی ان کے حوالے سے ان باتوں کو بیان کیا ہے؟ اس لیے کہ شاید ہی کسی نے اس امر پر غور کرنے کی کوشش کی ہوگی کہ مرتبہ قطبیت میں جو اس قدر اعلیٰ مقام آپ کو حاصل ہوا کہ آپ نے اللہ کے اذن سے عالم جذب میں یہ اعلان فرما دیا،’’قدمی ھٰذہ علیٰ رکبۃ کل ولی اللہ‘‘، کہ میرا یہ قدم تمام اولیا کی گردنوں پر ہے، کائنات ولایت میں آپ کے اس مقام و مرتبہ کا طریق کیا ہے؟اور آپ کا لقب’’محی الدین‘‘ یعنی دین کو زندہ کرنے والاکیوں ہوا؟

لہٰذا، اس حوالے سےسیدنا غوث الاعظم کی حیات مقدسہ کا مطالعہ کرنے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ آپ نے اپنی کرامتوں سے نہیں بلکہ اپنی علمی خدمات کے ذریعہ دین کو زندہ کیا ہے، اور آپ کی محیر العقول کرامتیں آپ کے اس مرتبہ علمی کی گرد ہیں، اور آپ صرف ولایت میں ہی غوثیت عظمیٰ کے مقام پر فائز نہیں تھے بلکہ علم میں بھی آپ کی ذات مقدسہ آپ کے تمام ہم عصروں پر یکتا و بے مثال تھی۔ آپ ایک جلیل القدر مفسر اور فقہ کے عظیم امام بھی تھے۔ آپ کے دور کے جلیل القدر آئمہ کی ایک بڑی جماعت نے آپ سے علم الحدیث، علم التفسیر، علم العقیدہ، علم الفقہ، تصوف، معرفت، فنی علوم، فتویٰ اور دیگر علوم حاصل کی۔

مورخین و سوانح نگار لکھتے ہیں کہ 528 ہجری سے لیکر 561 ہجری تک 33 برس ہفتے کے ساتوں دن آپ نے مسلسل تدریسی خدمات انجام دئے اور آپ ہر دن اپنی درس گاہ میں تیرہ علوم و فنون کا درس دیا کرتے تھے اور آپ کی درس و تدریس کا یہ سلسلہ 90 سال کی عمر یعنی زندگی کے آخری ایام تک جاری رہا۔ نیز521 ہجری سے لیکر 561 ہجری تک 40 سال مسلسل آپ نے ہفتے کے میں تین دن خطاب کیے۔ آپ کے خطاب کی ہر مجلس میں 70 ہزارسے لیکر 1 لاکھ تک سامعین موجود ہوتے جن میں سے 4 سو کاتبین ہوتے جو آپ کے خطابات سے علوم و معارف لکھ کر جمع کرنے پر مامور تھے۔امام ابن حجر عسقلانی نے ’مناقب شیخ عبدالقادر جیلانی‘ میں لکھا ہے اور اسے تمام مورخین اور سوانح نگاروں نے تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے کہ 70 ہزار سے لیکر 1 لاکھ تک کے سامعین پر مشتمل آپ کے خطابی اجتماع میں قریب و بعید کے ہر فرد کو آپ کی آواز یکساں سنائی دیتی تھی۔آپ کی ان علمی مجالس میں صاحبِ صفۃ الصفوہ اور اصول حدیث کے مشہور امام ابن جوزی جیسے ہزاروں محدثین، آئمۂ فقہ، متکلم، نحوی، فلسفی، مفسر آپ سے تلمذ اور اکتسابِ فیض کرتے تھے۔ اور درس و تدریس میں آپ کے انہماک اور تسلسل کا یہ عالم تھا کہ بغداد میں موجود آپ کے دارالعلوم سے جو کہ حضرت شیخ حماد سے آپ کو منتقل ہوا تھا ہر سال 3000 طلباء جید عالم اور محدث بن کر فارغ ہوتے تھے۔

ایک طرف جہاں آپ نے علوم دینیہ اور علوم متداولہ کی تحصیل کے لئے حضرت قاضی ابو سعید ابو المبارک المعجزوی جیسےعظیم شیخ اور حضرت ابو ذکریا تبریزی علیہ الرحمہ جیسےیکتائے روزگار عالم دین سے اکتساب فیض کیا وہیں آپ نے ابو الغنائم محمد بن علی میمون الخراسی، ابو البرکات طلحہ العاقولی، ابو عثمان اسماعیل بن محمد الاصبہانی، ابو طاہر محمد عبدالرحمن بن احمد، ابو المنصور عبدالرحمن، ابو النصر محمد بن المختار ہاشمی، شیخ ابو الخطاب محفوظ الکوذانی، ابو الوفا علی بن قیل حنبلی، ابو الحسن محمد بن قاضی، محمد بن الحسین القادری السراج جیسے نامور محدثین اور فقہاء سے بھی اپنی علمی پیاس بجھائی۔علوم حدیث میں آپ کی دقت نظر کا یہ عالم تھاکہ اکثر آپ کے اساتذہ آپ کو سند حدیث دیتے وقت فرمایا کرتے تھے’’اے عبدالقادر! ہم تمہیں الفاظ حدیث کی سند دے رہے ہیں ورنہ حدیث کے معانی میں تو ہم تم سے استفادہ کرتے ہیں کیونکہ بعض احادیث کے مطالب جو تم نے بیان کئے ہیں ان تک ہماری فہم کی رسائی نہیں۔‘‘

چنانچہ خود غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے قصیدہ میں فرماتے ہیں کہ حصول علم کی تڑپ اور لذت نے مجھے مقامِ قطبیت پر فائز کر یا۔

آپ فرماتے ہیں

دَرَسْتُ الْعِلْمَ حَتَّى صِرْتُ قُطْباً             وَنِلْتُ السَّعْدَ مِنْ مَوْلَى الْمَوَالِي

ترجمہ:

میں علم حاصل کرتا رہا یہاں تک کہ مقامِ قطبیت پر فائز ہو گیا، اور میں نے خداوندتعالٰی کی مدد سے دونوں جہاں کی سعادت مندی حاصل کر لی۔

ایک مرتبہ سیدنا غوث الاعظم اپنی ایک مجلس میں قرآن مجید کی کسی آیت کی تفسیر فرمارہے تھےاور اس میں امام ابن جوزی بھی کسی دوسرے محدث کے ہمراہ موجود تھے۔ جب سیدنا غوث الاعظم نے ایک آیت کی پہلی تفسیر کی تو ان کے ساتھ موجود محدث نے پوچھا کہ کیا آپ کو یہ تفسیر معلوم تھی تو امام ابن جوزی نے جواب دیا ہاں! اور اسی طرح مسلسل اسی ایک آیت کی 11 تفاسیر تک آپ یہی فرماتے رہے کہ مجھے یہ تفاسیر معلوم ہیں۔ حتیٰ کہ سیدنا غوث الاعظم نے اس آیت کی مسلسل چالیس مختلف تفسیریں بیان کیں۔ جبکہ امام ابن جوزی گیارہ تفاسیر کے بعد مسلسل چالیس تفسیروں تک یہی کہتے رہے کہ مجھے یہ تفسیر معلوم نہیں۔ اور جب سیدنا غوث الاعظم اس ایک آیت کی چالیس تفسیریں بیان کر چکے تو فرمایا:الآن نرجع من القال إلی الحال۔

ترجمہ: ’’اب ہم قال سےحال کی تفسیروں کی طرف بڑھتے ہیں۔‘‘

یہ سن کر امام ابن جوزی تڑپ اٹھےاور وہ عالم وجد میں ہوش و حواس اورتاب و تواں کھو بیٹھے اور اپنے گریبان چاک کرنے لگے۔ خیال رہے کہ امام ابن جوزی کا شمار صوفیاء میں نہیں ہوتا بلکہ آپ جلیل القدر محدث، اسماء الرجال اور فن اسانیدمیں سند کی حیثیت رکھنے والے امام ہیں۔

شیخ کامل کے لئے بارہ شرائط:

آپ اکثر یہ فرمایا کرتے تھے کہ کسی کے لئے مسند طریقت پر بیٹھنا اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک اس کے اندر یہ بارہ خصلتیں نہ پا لی جائیں؛

دو خصلتیں اللہ عز و جل کی ہوں -عیب پوشی اور رحمدلی۔ دو خصلتیں حضور رحمت عالم احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات مقدسہ سے لے-شفقت اور رفاقت۔ دو خصلتیں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سیکھے-راست بازی اور راست گوئی۔ دوخصلتیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سیکھے-نیکی کی تعلیم دینا اور بری باتوں سے روکنا۔ دوخصلتیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے سیکھے-بھوکوں کو کھانا کھلانا اور رات کی تنہائی میں عبادت کرنا۔ دوخصلتیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سیکھے-علم حاصل کرنا اور شجاعت و جوانمردی کا پیکر ہونا۔

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-sufi-message-ghaus-e/d/117205


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..