New Age Islam
Mon Mar 27 2023, 01:00 PM

Urdu Section ( 10 Apr 2019, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Taqwa- What Does it Mean?-Part-1 تقوی- اسلامی تعلیمات کا ایک وسیع ترین پہلو


مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام

6 اپریل 2019

اس امر میں کسی اہل ایمان کو شک نہیں کہ بنی نوع انسانی کی ہدایت کا عظیم ترین سرچشمہ قرآن مقدس ہے ۔ یہ وہی زندہ و تابندہ کتاب ہے جس کے ذمہ اللہ نے قیامت تک کے لئے انسانوں کی رشد و ہدایت کا کام سونپا ہے ۔ جیسے جیسے انسانی عقل بالیدگی کی طرف بڑھتی جائے گی انسان اس کتاب ہدایت کو حیرت و استعجاب کی نظروں سے دیکھتا جائے گا ۔  جوں جوں انسان سائنس اور ٹکنالوجی کی دنیا میں ترقی کے مراحل طے کرتا جائے گا قرآن کی معجزانہ خوبیوں کے سامنے خود کو کوتاہ قد پائے گا۔  یہ تو قرآن کی ایک ایسی ذاتی خوبی ہے جس کا مشاہدہ انسان چودہ سو سالوں سے کرتا آ رہا ہے لیکن ہمارا موضوع یہ ہے کہ قرآن کا اصل عنوان کیا ہے؟

 اگر چہ اس میں نکاح ، طلاق ، بیع و شراء ، نماز، روزہ، حج و زکاۃ، قربانی ، سود  وتجارت، ہوا و فضا ، شمس و قمر ، ستارے اور کہکشاں ، برگ و ثمر ، شجر  وحجر، رعد و برق، آسمان و زمین ، فلک و سیارگان، لیل و نہاراور معاشرتی ، سماجی، سیاسی اور اقتصادی مسائل سے متعلق اصول و قوانین بھی بیان کئے گئے لیکن اسے قانون کی کتاب کہنا درست نہیں۔ اگر چہ اس میں کتاب مبین میں کہیں اجمال تو کہیں تفصیل کے ساتھ گزشتہ انبیائے کرام کے حالات و خدمات اور ان کی امتوں کے عبرت آمیز انجاموں کا بھی ذکر ہے لیکن اسے محض قصے کہانیوں کی کتاب قرار دینادرست نہیں ۔  اور اسی طرح اگر چہ اس کتاب میں حشر و نشر ، بعث بعد  الموت، قیامت ، جنت و دوزخ، عذاب و ثواب ، جن و ملائک اور بے شمار مغیبات کی خبریں واضح طور پر بیان کی گئی ہیں لیکن اسے                  محض غیب کی خبریں بتانے والی کتاب قرار دینا بھی درست نہیں ہے۔ کیوں کہ اس کتاب مقدس کا بنیادی مقصد کفر و ظلمت کی تیرگی میں جینے والے انسانوں کو رشد و ہدایت کی روشنی عطا کرنا ہے ۔

ہدایت کن کے لئے ہے؟

ویسے تو قرآن ایک کھلی ہوئی کتاب ہے۔ لوگ اپنے اپنے  زاویہ نگاہ سے  اس کا مطالعہ کرتے ہیں اور اپنے مفادات اور نقطہ ہائے نظر کے مطابق اس کی آیتوں سے نتائج اخذ کرتے ہیں ۔لیکن کچھ لوگ استدلال اور ہدایت درمیان فرق کرنا بھول جاتے ہیں  جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان باتوں کو بھی ہدایت تصور کر لیتے ہیں جو ہدایت کی منشا کے بالکل خلاف ہیں۔ کیوں کہ قرآن مقدس سے ہدایت اخذ کرنا موقوف ہے تقویٰ پر ۔ اور قرآن کا یہ پیغام بڑا واضح ہے کہ یہ متقین کے لئے ہی ہدایت کا سامان فراہم کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کی ذات میں تقویٰ کا نور ہوگا قرآن اس کے لئے ہدایت ہی ہدایت ہےاور جس کی انکھوں پر جہالت اور تعصب و تنگ نظری کا پردہ پڑا ہوا ہو وہ مکمل قرآن پڑھ کر بھی ہدایت سے دور ہے۔

اللہ کا فرمان ہے:

ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ (2) الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (3) وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (4) أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (2:5)

ترجمہ: وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن) کوئی شک کی جگہ نہیں، اس میں ہدایت ہے ڈر والوں کو - وہ جو بے دیکھے ایمان لائیں اور نماز قائم رکھیں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں - اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترا اور آخرت پر یقین رکھیں - وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے۔ کنز الایمان

دعوت فکر

کیا ہم نے کبھی اس امر پر غور کیا ہے کہ قرآن نے ہدایت کے لئے تقویٰ کو اولین شرط کے طور پر پیش کیا ہے ۔ اور ایمان بالغیب، نماز، انفاق فی سبیل اللہ، قرآن ، سابقہ کتب سماویہ اور آخرت پر ایمانا  کو تقویٰ کی بنیاد قرار دیا ہے!

اب تک تو ہم یہ جان چکے کہ قرآن محض علم و عقل والوں کے لئے نہیں بلکہ تقویٰ والوں کے لئے ہدایت ہے،  اور ایمان بالغیب، نماز، انفاق فی سبیل اللہ، قرآن ، سابقہ کتب سماویہ اور آخرت پر ایمانا تقویٰ کے بنیادی عناصر میں سے ہیں ۔ جو ان بنیادی باتوں سے محروم ہے وہ ہدایت اور تقویٰ دونوں کے نور سے محروم ہے۔

تقویٰ کا وسیع ترین تصور

تقویٰ کے بنیادی عناصر تو مذکورہ بالا امور  ہیں ہی لیکن قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ تقویٰ ایک وسیع ترین تصور ہے اور اس کا انحصار محض چند باتوں میں نہیں کیا جا سکتا۔

مثلاً  اللہ نے نقد یا ادھار پر لین دین یا تجارت کرنے کی صورت میں اپنے احکام و ہدایت کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا اور اس میں تقویٰ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا، ملاحظہ ہو:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ ۚ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَن يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ ۚ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا ۚ فَإِن كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ ۚ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ ۚ وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا ۚ وَلَا تَسْأَمُوا أَن تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَىٰ أَجَلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْتَابُوا ۖ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا ۗ وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ ۚ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ ۚ وَإِن تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (2:282)

ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم ایک مقرر مدت تک کسی دین کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو اور چاہئے کہ تمہارے درمیان کوئی لکھنے والا ٹھیک ٹھیک لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اللہ نے سکھایا ہے تو اسے لکھ دینا چاہئے اور جس بات پر حق آتا ہے وہ لکھا تا جائے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور حق میں سے کچھ رکھ نہ چھوڑے پھر جس پر حق آتا ہے اگر بے عقل یا ناتواں ہو یا لکھا نہ سکے تو اس کا ولی انصاف سے لکھائے، اور دو گواہ کرلو اپنے مردوں میں سے پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ایسے گواہ جن کو پسند کرو کہ کہیں ان میں ایک عورت بھولے تو اس کو دوسری یاد دلادے، اور گواہ جب بلائے جائیں تو آنے سے انکار نہ کریں اور اسے بھاری نہ جانو کہ دین چھوٹا ہو یا بڑا اس کی میعاد تک لکھت کرلو یہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف کی بات ہے اس میں گواہی خوب ٹھیک رہے گی اور یہ اس سے قریب ہے کہ تمہیں شبہ نہ پڑے مگر یہ کہ کوئی سردست کا سودا دست بدست ہو تو اس کے نہ لکھنے کا تم پر گناہ نہیں اور جب خرید و فروخت کرو تو گواہ کرلو اور نہ کسی لکھنے والے کو ضَرر دیا جائے، نہ گواہ کو (یا، نہ لکھنے والا ضَرر دے نہ گواہ) اور جو تم ایسا کرو تو یہ تمہارا فسق ہوگا، اور اللہ سے ڈرو اور اللہ تمہیں سکھاتا ہے، اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ کنز االایمان

(جاری)

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/taqwa-mean-part-1-/d/118287


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism



Loading..

Loading..