مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
(بہار ادب، قسط:10)
"خد مت خلق" ایک ایسا تصور ہے جسے آج دنیا کے ادیان و مذاہب، تہذیب و تمدن اور ثقافت و روایات میں بڑی تیزی کے ساتھ مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ دنیا کے مختلف گوشوں میں اور مختلف مذاہب اور تہذیب و ثقافت میں اس کے محرکات اور دواعی بھی مختلف ہیں جو کہ مختلف اہمیت و افادیت کے حامل ہیں۔ لیکن اسلام کی اصطلا ح میں خدمت خلق کا مفہوم حسب ذیل ہے :
"رضا ئے الٰہی حاصل کر نے کے مقصد سے تمام مخلوقات اور خاص طور پر انسانوں کے سا تھ جائز معاملات میں تعاون کرنا" ۔
مذہب اسلام ایک اچھے، نیک اور صالح انسان کے لیے معاشرتی زندگی کے جن پہلوؤں کو لازم قرار دیتا ہے ان میں سے ایک اہم پہلو خدمت خلق کا ہے، اور یہ ایک ایسا پہلو ہے جس کے بغیر کسی صحت مند اور مثالی معاشرے کا تصور ممکن نہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے خدمت خلق اسلام کے نظام عبادت کا ہی ایک حصہ ہے، اور اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔
خدمت خلق میں نہ صرف یہ کہ دلوں کو جیتنے کا راز پنہا ہے بلکہ یہ تقرب الی اللہ حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ بھی ہے۔ جب کوئی بندہ مومن صرف رضائے الٰہی کی خاطر بے لوث خدمت خلق کے لیے اپنی زندگی کو وقف کر دیتا ہے اور اسی راہ پر چلتے چلتے خدا کا تقرب حاصل کر لیتا ہے تو اللہ رب العزت اسے خادم کے درجے سے اٹھا کر مخدومیت کے مقام پر فائز کر دیتا ہے۔
شیخ سعدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
"ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد "
"جس نے بے لوث خدمت خلق میں اپنی زندگی کے ایام کو صرف کیا ایک وقت ایسا آیا کہ اللہ نے اسے مخدوم بنا دیا۔
خدمت خلق کا قرآنی تصور:
قرآنی نقطہ نظر سے خدمت خلق ایک ایسا تصور عبادت ہے جو زندگی کے بے شمار گوشوں اور پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے، اس میں جہاں مفلوک الحال لوگوں کی مالی امدادواعانت کرنا، کسی گم گشتہ راہ کی رہنمائی کرنا،کسی یتیم و نادار کو اپنی کفالت میں لینا، کسی کے لیے تعلیم کا انتظام کرنا، ذریعہ معاش پیدا کرنے کے لیے کسی کو کوئی ہنر سکھانا، مشورہ طلب کرنے والوں کو اچھا اور مفید مشورہ دینا، عبادت گاہ اور تعلیمی ادارے قائم کرنا شامل ہے وہیں اس میں برے کاموں میں کسی کی مدد کرنے سے انکار کرنا بھی شامل۔
خدمت خلق کے وسیع ترین قرآنی تصور میں بدی، شر و ضرر اور فتنہ و فساد کے کاموں میں اعانت سے ہاتھ کھینچنا اور اس کے محرکات اور دواعی کا سدد باب کرنا بھی شامل ہے۔ اس لیے کہ دنیا کا کوئی مفکر اور دنیا کا کوئی بھی اہل علم طبقہ، خواہ وہ کسی بھی مذہب کا پیروکار ہو، خواہ اس کا تعلق دنیا کی کسی بھی تہذیب و ثقافت سے ہو، خواہ وہ سرے سے مذہب اور تہذیب و ثقافت کا انکاری ہی کیوں نہ ہو-اس حقیت سے انکار نہیں کر سکتا کہ صرف اچھائی کو فروغ دینے اور عوامی فلاٖح و بہبود کے کاموں میں تعاون کرنے سے کبھی کوئی پر امن اور مثالی معاشرہ پرورش نہیں پا سکتا جب تک کہ اس معاشرے میں اچھائیوں کے فروغ کے ساتھ ساتھ بدی، شر و ضرر اور فتنہ و فساد کے دواعی اور محرکات کے سد باب کا بھی انتظام نہ کیا جائے۔
قرآن مجید میں اﷲ رب العزت کا فرمان ہے:
وَتَعَاوَنُوا عَلَی البِرِّ وَالتَّقویٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الاِثمِ وَالعُدوَانَ۔ (سورةالمائدہ:آیت۲)
ترجمہ:
"اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو"۔
قرآن کریم کی آیت کے اس چھوٹے سے ٹکرے پر دنیا کے جس مفکر اور جس اہل علم نے بھی غور کیا ہے وہ اس بات کا بے ساختہ اقرار کرنے پر مجبور ہوا ہے کہ اللہ نے آیت کے اس چھوٹے سے حصے میں حکمتوں کا سمندر انڈیل کر رکھ دیا ہے۔
اب خدمت خلق کے تعلق سے چند احادیث مقدسہ کا مطالعہ فائدہ مند اور علم میں اضافہ کا سبب ہو گا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
خَیرُ النَّاسِ مَن یَّنفَعُ النَّاسَ۔ (جامع ترمذی)
ترجمہ: "لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کو نفع اور فائدہ پہنچائے"۔
"راستے سے تکلف دہ چیز کو ہٹانا بھی صدقہ ہے"۔ (صحیح مسلم)
"خلق خدا پر رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم فرماتا ہے، تم اہل زمین پر رحم کرو، عرش والا تم پر رحم فرمائے گا"۔(صحیح مسلم)
ایک بار حبشہ سے نجاشی بادشاہ کے چند مہمان مدینہ طیبہ آئے۔ صحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ ہماری خواہش ہے کہ حبشہ کے ان مہمانوں کی مہمان نوازی ہم کریں گے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا "ان لوگوں نے میرے اصحاب (حبشہ کے مہاجرین)کی خدمت کی ہے اس لئے میں خودان کی خدمت کروں گا۔ اور آپ ﷺ نے خود اپنے دست مبارک سے ان کی خدمت اور خاطر مدارت فرمائی۔ (مسند امام احمد، شعب الایمان)
اصحاب صفہ غریب لوگ تھے۔ ایک دن حضور اکرم ﷺ نے اعلان فرمایا کہ "جس کے گھر دو آدمو ں کا کھانا ہو تو وہ اصحابِ صفہ میں سے تیسرے آدمی کو لے جائے (یعنی انہیں بھی اپنا کھانا کھلائے) اور جس کے گھر میں چار آدمیو ں کا کھانا ہو وہ پانچویں اور چھٹے آدمی کو لے جائے (اور انہیں اپنا کھانا کھلائے)۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ تین آدمیوں کو گھر لے گئے اور خود نبی اکرم ﷺ اپنے ساتھ دس لوگوں کو گھر لے کر گئے "۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عادت یہ تھی کہ جب بھی کسی مسلمان کو کفار کے پاس غلامی یا قدنی کی حالت میں پاتے تو اسے خرید کر آزاد کردیتے تھے اور بالعموم یہ قیدی اور غلام کمزور اور ضعیف ہوتے تھے۔ ایک دن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے والد حضرت ابو قحافہ نے آپ سے کہا کہ : "جب تم غلاموں کو خرید کر آزاد کرتے ہی ہو تو طاقتور اوربہادر غلا موں کو خرید کر آزاد کرو تاکہ کل وہ تمہارے دشمنوں کا مقابلہ کریں اور ان سے تمہاری حفاظت کریں"۔ یہ سن کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:
"میں ان غلاموں کو فائدہ اٹھانے کے مقصد سے آزاد نہیں کرتا بلکہ اس سے میرا مقصد صرف اللہ ٰ کی رضا جوئی ہے"۔(تاریخ الخلفاء)
پیغمبر اسلام ﷺ نے فرما یا کہ:
"اﷲ رب العزت اپنے چند مخصوص بندوں کو اپنی خاص نعمتوں سے نوازتا ہے (یعنی انہیں کثرت کے ساتھ مال و دولت عطاء کرتا ہے) تا کہ اللہ کے وہ منتخب بندے اپنی اس مال و دولت سے اس کے مستحقین کو نفع پہنچایں، لہٰذا، جب تک وہ اللہ کی عطاء کردہ مال و دولت اور نعمتوں سے اللہ کی مخلوق کو نفع پہنچاتے رہتے ہیں اللہ انہیں اپنی بے بہاء نعمتوں سے مزید نواز تا رہتا ہے اور جب وہ خدا کے بندوں کو ان نعمتوں سے محروم کر دیتے ہیں تب اﷲ بھی ان سے اپنی نعمتیں چھین لیتا ہے اور ان کی جگہ دوسرے بندوں کو ان نعمتوں کا امین و قسیم بنا دیتا ہے۔(مشکوٰة )
شفقت و محبت، رحم و کرم، خوش اخلاقی، غم خواری و غم گساری، خیر و بھلائی، ہمدردی، عفو و درگزر، حسن سلوک، امداد و اعانت اور خدمت خلق کا جذبہ رکھنا،کسی انسان کے دکھ درد میں شامل ہونا، کسی زخمی دل کو محبت و شفقت بھرا مژدہ جانفزا سنانا، کسی مقروض کے ساتھ تعاون کرناکہ قرض کا بار اس کے کندھوں سے اتر جائے، کسی بیمار کی عیادت کے لیے جانا کہ اس کے دل کی مرجھائی ہوئی کلیاں کھل اٹھیں اسلام کی روح ہے اور ایمان کا تقاضا بھی ہے۔ اور مسلمانوں کا یہی وہ کھویا ہوا سرمایہ حیات ہے جس کے ساتھ اس قوم کی عظمت رفتہ کی بنیادیں وابستہ ہیں۔ اور امت مسلمہ اب مزید اس حقیقت کو فراموش کرنے کی متحمل نہیں ہے کہ اگر اسے دوبارہ سربلندی اور سرخروئی کی تلاش ہے تو اس عظمت رفتہ کی بازیافت اس امت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
علامہ اقبال نے کہا تھا:
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں، ہیں یہی مردوں کی شمشیریں
جاری...............
URL: