مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
22 اگست 2019
انسان کی فطرت سلیمہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ جب کسی حقیقت کا اعتراف کرے یا انکار کرے تو سب سے پہلے اس کے ہونے یا نہ ہونے کی دلیل قائم کر لے ، اور دلیل قائم کی جاتی ہے علم ، مشاہدے، تجربے ، آثار اور علامات کی بنیاد پر ۔ لیکن کسی حقیقت کے ادراک اور اس کی معرفت تک پہنچنے کے ان پانچ زینوں میں علم سب سے آخری زینہ ہے۔اور علم سے پہلے انسان کا سابقہ آثار، علامات، تجربات اور مشاہدات سے پڑتا ہے اس کے بعد طالب کو کسی حقیقت کا علم یقینی حاصل ہوتا ہے ۔آثار اور علامات سے تحریک پا کر ایک طالب جب تجربات کا سمند عبور کرتا ہے تب جا کر اس کے سامنے مشاہدات کی دنیا جگمگا رہی ہوتی ہے، اور وہ انہیں مشاہدات پر کسی حقیقت کے ہونے یا نہ ہونے کے علم کی بنیاد رکھتا ہے۔
بالکل یہی طریقہ کار معرفت الٰہی کے باب میں بھی جاری ہوتا ہے ۔ قرآن کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ آسمان کا شامیانہ ، زمین کا فرش ، رات اور دن کی گردش، آسمان کی بارش، آسمان اور زمین کے درمیان بادلوں کا اڑنا، سمندر کی عجیب و غریب مخلوقات ، یہ طرح طرح کے چوپائے ، چرند و پرند، حشرات الارض، انسانوں اور چوپایوں کا جوڑوں میں پیدا کیا جانا، خزاں کے بعد زمین کا دوبارہ سبزہ زار ہو جانا، الغرض اس کائنات کے تمام تر عجائب اس لئے ہیں کہ انسان کو اللہ کی معرفت حاصل ہو۔
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (2:164)
ترجمہ: بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کی گردش میں اور ان جہازوں (اور کشتیوں) میں جو سمندر میں لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیزیں اٹھا کر چلتی ہیں اور اس (بارش) کے پانی میں جسے اﷲ آسمان کی طرف سے اتارتا ہے پھر اس کے ذریعے زمین کو مُردہ ہو جانے کے بعد زندہ کرتا ہے (وہ زمین) جس میں اس نے ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے ہیں اور ہواؤں کے رُخ بدلنے میں اور اس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان (حکمِ الٰہی کا) پابند (ہو کر چلتا) ہے (ان میں) عقلمندوں کے لئے (قدرتِ الٰہی کی بہت سی) نشانیاں ہیں۔ عرفان القرآن
وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَثَّ فِيهِمَا مِن دَابَّةٍ ۚ وَهُوَ عَلَىٰ جَمْعِهِمْ إِذَا يَشَاءُ قَدِيرٌ (42:29)
ترجمہ:اور اُس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش ہے اور اُن چلنے والے (جانداروں) کا (پیدا کرنا) بھی جو اُس نے اِن میں پھیلا دیئے ہیں، اور وہ اِن (سب) کے جمع کرنے پر بھی جب چاہے گا بڑا قادر ہے۔ عرفان القرآن
أَوَلَمْ يَنظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ مِن شَيْءٍ وَأَنْ عَسَىٰ أَن يَكُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُهُمْ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ (7:185)
ترجمہ:کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت میں اور (علاوہ ان کے) جو کوئی چیز بھی اللہ نے پیدا فرمائی ہے (اس میں) نگاہ نہیں ڈالی؟ اور اس میں کہ کیا عجب ہے ان کی مدتِ (موت) قریب آچکی ہو، پھر اس کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے۔ عرفان القرآن
هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (59:24)
ترجمہ:وہی اللہ ہے جو پیدا فرمانے والا ہے، عدم سے وجود میں لانے والا (یعنی ایجاد فرمانے والا) ہے، صورت عطا فرمانے والا ہے۔ (الغرض) سب اچھے نام اسی کے ہیں، اس کے لئے وہ (سب) چیزیں تسبیح کرتی ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، اور وہ بڑی عزت والا ہے بڑی حکمت والا ہے۔ عرفان القرآن
أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنفُسِهِم ۗ مَّا خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ لَكَافِرُونَ (30:8)
ترجمہ:کیا انہوں نے اپنے مَن میں کبھی غور نہیں کیا کہ اﷲ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے پیدا نہیں فرمایا مگر (نظامِ) حق اور مقرّرہ مدت (کے دورانیے) کے ساتھ، اور بیشک بہت سے لوگ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔ عرفان القرآن
یہ وہ آیات قرآنیہ ہیں جن سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات کے ذرے ذرے میں اللہ کی نشانیاں ہیں حتیٰ کہ خود انسان کا وجود بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی ہے۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی نشانیوں کے باوجود کچھ لوگ اللہ کی معرفت اور اس کی بندگی سے محروم کیوں ہیں ؟ جب اسی مادی دنیا میں جگہ جگہ اللہ نے اپنی نشانیاں ظاہر کر رکھیں ہیں تو پھر ہمارے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ مادیت پرستی کا شکار کیوں ہوا ؟ اور کیوں ان واضح نشانیوں سے سبق حاصل کر کے اس کی بارگاہ میں نیاز بندگی نہیں بجا لایا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کائنات کی ہر شئی ایک بنیادی اصول کی پابند ہے اور وہ یہ ہے کہ جو جس چیز کا اہل ہوتا ہے اسے وہی میسر ہوتی ہے اور جو کسی مطلوبہ شئی کے بنیادی تقاضے اور پیشگی شرائط (prerequisite)کو پورا کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے وہ کبھی اپنا مطلوب حاصل نہیں کر سکتا۔ مثال کے طور پر ہدایت کے حوالے سے قرآن کی یہ آیت کریمہ دیکھیں؛
ارشاد ربانی ہے؛
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ (2) الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (3) وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (4) أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (2:5)
ترجمہ: (یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیز گاروں کے لئے ہدایت ہے، جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز کو (تمام حقوق کے ساتھ) قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (ہماری راہ) میں خرچ کرتے ہیں، اور وہ لوگ جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا (سب) پر ایمان لاتے ہیں، اور وہ آخرت پر بھی (کامل) یقین رکھتے ہیں، وہی اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی حقیقی کامیابی پانے والے ہیں۔ عرفان القرآن
ہدایت کی شرط اولین (prerequisite) تقویٰ ہے
ویسے تو قرآن ایک کھلی ہوئی کتاب ہے۔ لوگ اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے اس کا مطالعہ کرتے ہیں اور اپنے مفادات اور نقطہ ہائے نظر کے مطابق اس کی آیتوں سے نتائج اخذ کرتے ہیں ۔لیکن کچھ لوگ استدلال اور ہدایت درمیان فرق کرنا بھول جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان باتوں کو بھی ہدایت تصور کر لیتے ہیں جو ہدایت کی منشا کے بالکل خلاف ہیں۔ کیوں کہ قرآن مقدس سے ہدایت اخذ کرنا موقوف ہے تقویٰ پر ۔ اور قرآن کا یہ پیغام بڑا واضح ہے کہ یہ متقین کے لئے ہی ہدایت کا سامان فراہم کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کی ذات میں تقویٰ کا نور ہوگا قرآن اس کے لئے ہدایت ہی ہدایت ہے اور جو تقویٰ کے نور سے خالی ہے وہ ہدایت کے قریب بھی نہیں ہے اس لئے کہ مذکورہ آیت کریمہ کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ہدایت کی شرط اولین (prerequisite) تقویٰ ہے۔
بالکل اسی طرح اللہ کی نشانیوں سے اللہ کی معرفت حاصل کرنے کا بھی قرآن نے ایک اصول بیان کیا ہے ۔ قرآن نے سورہ آل عمران کی آیت ۱۹۰-۱۹۱ میں واضح طور پر یہ بیان کیا ہے کہ اللہ کی نشانیوں سے اللہ کی معرفت حاصل کرنے کی اہلیت کون لوگ رکھتے ہیں ۔
ارشاد ربانی ہے؛
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ (190) الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (3:191)
ترجمہ: بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردش میں عقلِ سلیم والوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اس کی عظمت اور حُسن کے جلووں) میں فکر کرتے رہتے ہیں، (پھر اس کی معرفت سے لذت آشنا ہو کر پکار اٹھتے ہیں:) اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا، تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔ عرفان القرآن
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism