مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
(قسط :6)
اللہ کے لیے دوستی اور اللہ کے لیے دشمنی
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ:
"قال اللہ تعالیٰ، وجبت محبتی للمتحابین فیَّ والمتجالسین فیّ والمتزاورین فیّ والمتباذلین فیّ"۔
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے (اپنے فضل و احسان سے) اپنی محبت ان لوگوں کے لیے لازم کر دی ہے جو میرے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ،میرے لیے ایک دوسرے کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں، میرے لیے ایک دوسرےسے ملاقات کرتے ہیں اور ملتے جلتے ہیں اور میری محبت میں ایک دوسرے پرخرچ کرتے ہیں ‘‘۔ (مسلم)
فائدہ:
ہم میں سے کچھ ایسے ہیں جو تمام عمر ہر قسم کی نیکیاں کرتے ہیں، نماز ادا کرتے ہیں ، مناسک حج اداکرتے ہیں، صدقات و خیرات سے مستحقین اور غرباء و فقراء کی مدد کرتے ہیں ،دوسروں کے ساتھ بھلائی اور احسان کا معاملہ کرتے ہیں،اللہ کے تمام احکامات و فرامین کی اطاعت و پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور خدا ہی جانے کیا کیا محنتیں اور مشقتیں کرتے ہیں اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ اللہ ہم سے راضی ہو جائے ۔ اور قربان جائیں اللہ کی شان کریمی پرکہ اس نے فرمایاکہ’’اے میرے پیارے بندوں! تم عمر بھر میں نیکی ، عبادت و ریاضت، تقویٰ و پرہیزگاری اور میری راہ میں جد و جہد صرف اس لیے کرتے ہو کہ تمہیں میرا تقرب حاصل ہو جائےاور میں تم سے راضی ہو جاؤں، جبکہ میں نے (اپنے فضل و احسان) سےاس انسان کی محبت اپنے اوپر لازم کرلی ہےجومیرے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ،میرے لیے ایک دوسرے کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں، میرے لیے ایک دوسرےسے ملاقات کرتے ہیں اور ملتے جلتے ہیں اور میری محبت میں ایک دوسرے پرخرچ کرتے ہیں۔
اللہ کے لیے ایک دوسرے سے بے لوث محبت کا اجر
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی کسی دوسری بستی میں اپنے بھائی سے ملاقات کے لئے گھر سے نکلاتو اللہ تعالیٰ نے اس کے راستہ میں ایک فرشتے کو بیٹھا دیا جو اس شخص کا انتظار کرتا تھا، جب وہ شخص اس کے پاس سے گذراتو اس فرشتے نے پوچھا کہ تم کہاں جا رہے ہو؟ اس نے کہااس بستی میں میرا فلاں بھائی رہتا ہے میں اس سے ملاقات کرنے جارہا ہوں اس پر فرشتے نے پوچھا کہ کیا اس کا تم پر کوئی احسان ہے جس کی وجہ سے تم یہ مشقت اٹھا کر اس احسان کا بدلہ چکانے جارہے ہو؟ اس نے کہا نہیں اس کا مجھ پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ میں صرف اس لئے جارہا ہوں کہ میں اس سے اللہ کے لئے محبت کرتا ہوں ۔ یہ سن کر فرشتے نے اس شخص سے کہا کہ میں تیری طرف اللہ کا بھیجا ہو ایک فرشتہ ہوں اور اللہ نے یہ بتانے کے لئے بھیجا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی تجھ سے اسی طرح محبت کرتا ہے جیسے تو اپنے بھائی سے صرف اللہ کے لئے محبت کرتا ہے۔ (مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی بیمار کی عیادت کرے یا محض اللہ کے لئے اپنے بھائی سے ملاقات کرے تو ایک ندا لگانے والا بہ آواز بلند یہ ندا لگاتا ہے کہ تجھے مبارک ہو، اور تیرا چلنا مبارک اور خوشگوار ہو اور تجھے جنت میں ٹھکانہ نصیب ہو‘‘۔
اللہ کے لیے دوستی اور دشمنی
قال رسول اللہ من اَحبّ للہِ، وابغضَ للہِ، واعطی للہِ، ومنعَ للہِ، فقدِ استکمَلَ الایمان۔
جس نے اللہ کے لیے محبت کی اور اللہ کے لیے دشمنی ،اللہ کے لیےکچھ عطا کیا اور اللہ کے لیےعطا نہ کیا تحقیق کہ اس کا ایمان مکمل ہو گیا (ابو داود۔حاکم)
اوثق عری الإیمان،الموالاۃ في اﷲ والمعاداۃ في اﷲ والحب في اﷲ والبغض في اﷲ
ایمان کی بلندییہ ہے کہ دوستی بھی اللہ کے لیے ہو، دشمنی بھی اللہ کے لیے ہو، محبت بھی اللہ کے لیے ہو اور بغض بھی اللہ ہی کے لیے ہو۔ (الطبراني)
خلیفہ دوم أمیر المؤمنین عُمر فارق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ُ کا فرمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ لأُنَاسًا مَا هُمْ بِأَنْبِيَاءَ وَلاَ شُهَدَاءَ يَغْبِطُهُمُ الأَنْبِيَاءُ وَالشُّهَدَاءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِمَكَانِهِمْ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى۔ هُمْ قَوْمٌ تَحَابُّوا بِرُوحِ اللَّهِ عَلَى غَيْرِ أَرْحَامٍ بَيْنَهُمْ وَلاَ أَمْوَالٍ يَتَعَاطَوْنَهَا فَوَاللَّهِ إِنَّ وُجُوهَهُمْ لَنُورٌ وَإِنَّهُمْ عَلَى نُورٍ لاَ يَخَافُونَ إِذَا خَافَ النَّاسُ وَلاَ يَحْزَنُونَ إِذَا حَزِنَ النَّاسُ۔
بے شک اللہ کے بندوں میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے،جو نہ تو انبیاء میں سے ہوں گےاور نہ ہی شہیدوں میں سے ہوں گےلیکن قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں ان کی رتبے اتنے بلند ہوں گے کہ انبیاءاور شہداء بھی اس کی تعریف کریں گے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ہمیں بتائیں کہ وہ لوگ کون ہوں گے ؟ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا وہ(صرف )اللہ کی خاطر محبت کرنے والے لوگ ہوں گے ، کیونکہ ان کے درمیان نہ تو ایمان کے علاوہ کوئی رشتہ داری ہو گی اور نہ ہی کوئی مالی لین دِین کا معاملہ ہوگا، پس اللہ کی قَسم ان کے چہرے نور سے منور ہوں گے اور وہ روشنی کے ٹلوں پر جلوہ گر ہوں گے ، جب قیامت کے دن لوگ خوف و ہراس میں ہوں گے اور غم زدہ ہوں گے تو وہ نہ خوف زدہ ہوں گےاور نہ ہی غم زدہ ہوں گے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِنَّاللَّهَ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَيْنَ الْمُتَحَابُّونَ بِجَلاَلِى الْيَوْمَ أُظِلُّهُمْ فِى ظِلِّى يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلِّى۔
بے شک قیامت کے دن اللہ فرمائے گا کہ میرے جلال کی وجہ ایک دوسرے سے محبت کرنے والےکہاں ہیں ؟ آج جب کہ میرےعرش کےسائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہیں ، میں انہیں اپنے عرش کے سایے میں جگہ دوں گا۔(صحیح مسلم)
نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِى ظِلِّهِ يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّهُ الإِمَامُ الْعَادِلُ ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِى عِبَادَةِ رَبِّهِ ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِى الْمَسَاجِدِ، وَرَجُلاَنِ تَحَابَّا فِى اللَّهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ، وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ إِنِّى أَخَافُ اللَّهَ. وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ أَخْفَى حَتَّى لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ۔
جس دن عرش کےسایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا اس دن اللہ سات لوگوں کو اپنے عرش کےسایے میں جگہ عطا فرمائے گا۔
(1)انصاف کرنےوالا حکمران ،
(2) اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے ہوئے بڑا ہونے والانوجوان،
(3)وہ شخص جس کا دل مسجدوں میں ہی لگا رہے،
(4)ایسےدو شخص جو صرف اللہ کے لیےمحبت کرتے ہیں، وہ اللہ ہی کی محبت میں ملتے ہیں اور اسی کی محبت میں جدا ہوتے ہوں،
(5)وہ شخص جسے کسی رتبے اور حُسن والی عورت نے برائی کے لیےدعوت دی اور وہ شخص اس عورت کی دعوت کو ٹُھکرا دے اور کہے میں اللہ سے ڈرتا ہوں ،
(6)وہ شخص جو اس قدر چھپا کر صدقہ کرتا ہو کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلے کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا صدقہ کیا ہے ،
(7)وہ شخص جِس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
(بخاری و مسلم)
تَرَى الْمُؤْمِنِينَ فِى تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى۔
ایک دوسرے سے محبت کرنے، ایک دوسرے پر صرف ایمان کی وجہ سے رحم کرنےاور ایک دوسرے کی مدد کرنےمیں ایمان والوں کی مثال ایک جسم کی مانند ہے کہ جب اس جسم کے کسی ایک حصے کوتکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم اس تکلیف کی وجہ سے بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہو جاتاہے۔
(بخاری و مسلم)
حِبر الاُمہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک بہت ہی بہترین بات منقول ہے کہ
مَنْ أَحَبَّ فِي اللَّهِ وَأَبْغَضَ فِي اللَّهِ، وَوَالَى فِي اللَّهِ وَعَادَى فِي اللَّهِ، فَإِنَّمَا تُنَالُ وِلَايَةُ اللَّهِ بِذَلِكَ۔
جس نے اللہ کی خاطر محبت کی اور اللہ کی خاطر نفرت کی ، اللہ کی خاطر دوستی کی اور اللہ کی خاطر دشمنی کی، تو یقینا ً وہ شخص ان صفات کے ذریعے اللہ کی ولایت کا درجہ حاصل کر لےگا۔
ایک انتباہ:
یہ تمام ارشادات، فرمودات، ہدایات اور احکامات اسلامی تعلیمات کے وہ قیمتی جواہر ہیں جنہوں نے صحرائے عرب کے غیر مہذب اور ذات پات، حسب و نسب، قبیلہ و خاندان، رنگ و نسل اور دولت و اقتدار کی بنیادوں پر منتشر اور بکھرے ہوئے معاشرے کو باہمی اخوت و محبت، رحمت، ہمدردی، اپنوں کی خبر گیری، بیماروں کی عیادت، ضرورت مندوں کی حاجت روائی اور فریادیوں کی دادرسی جیسے انسانی اقدار سے آشنا کیا۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج بڑے پیمانے پر ایمان کے جھوٹے مدعی اِنہیں پر امن اسلامی تعلیمات کا غلط استعمال معاشرے کے اندر دشمنی، عداوت، بغض، حسد، عناد، اختلاف، انتشار اور فتنہ و فساد کو فروغ دینے کے لیے کر رہے ہیں۔ معاشرے کے ایسے شر پسند عناصر کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جہاں اسلام نے مسلمانوں کے درمیان باہمی اخوت و محبت اور رحمت و ہمدردی کی تعلیم دی ہے وہیں معاشرے میں مختلف طبقات اور مذہب و ملت سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان بھی توازن و ہم آہنگی اور امن و امان کی فضاء قائم رکھنے کے لیے رنگ و نسل اور مذہب و ملت کے دائرے سے بالا تر ہو کر خالص انسانی بنیادوں پر باہمی اخوت و محبت، رحمت و ہمدردی اور عدل و انصاف کا رویہ اختیار کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ قرآن میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے "والفِتنةُ أشدُّ من القتلِ"[سورة البقرة/191]" اور "والفتنةُ أكبرُ من القتلِ"[سورة البقرة/217]"زمین پر فتنہ و فساد مچانا اور شرانگیزی انجام دینا اسلام میں کتنا ناپسندیدہ اور قبیح عمل ہے اس کا اندازہ اللہ کے اس فرمان سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ نے زمین پر فتنہ و فساد، شر انگیزی اور نقض امن کو قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم قرار دیا ہے۔ چونکہ موجودہ حالات کے تناظر میں یہ ایک وسیع ترین اور تفصیل طلب موضوع ہے اسی لیے راقم الحروف اپنی بات کو یہیں ختم کرتا ہے اس امید کے ساتھ کہ جلد ہی اس عنوان پر ایک مفصل اور جامع تحریر قارئین کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔
جاری.............
URL: