مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
27 نومبر 2018
علمائے اسلام کا اجماعی عقیدہ اور فقہ اسلامی کا قطعی اصول یہ ہے کہ جس طرح اسلام کے عقائد اور احکام و مسائل کے باب میں قرآن حجت قطعی ہے اسی طرح اسلامی معتقدات و معمولات کے باب میں احادیث اور سنت رسول ﷺ دونوں حجت قطعی کا درجہ رکھتے ہیں ۔ اور یہ بات بھی اسلامی عقیدے کا ایک جزو الاینفک ہے کہ جس طرح قرآن کا ہر ایک حکم مومنوں کے لئے واجب الاتباع ہے اسی طرح اسلام میں سنت اور احادیث رسول ﷺ سے یک موئے سر انحراف کی کوئی گنجائش نہیں ، اور صرف یہی ایک صورت ہے کہ جس سے اسلام کا حسن اور اسکی سالمیت محفوظ رہ سکتی ہے ، ورنہ اگر احادیث نبویہ اور سنت رسول سے انحراف کا راستہ کھول دیا جائے تو خود قرآنی احکامات میں طرح طرح کے فتنے راہ پا جائیں گے ۔
اس حقیقت کے باوجود اہل علم و دانش کا ایک طبقہ ایسا ہے جو احادیث اور سنت رسول ﷺ کی حجیت (Authoritativeness) سے انکار کرتا ہے اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو احادیث اور سنت کی معتبریت (Authenticity) کو ہی تسلیم نہیں کرتا ۔ اور تیسرا طبقہ وہ ہے جو سرے سے ہی سنت رسول اور احادیث نبوی سے برأت اور بیزاری کا اظہار کرتا ہے ۔
پہلا طبقہ اور اسکی دلیل :
جو طبقہ احادیث اور سنت رسول ﷺ کی حجیت (Authoritativeness) کا انکار کرتا ہے اس کی دلیل حضرت سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ روایت ہے جو امام مسلم نے اپنی صحیح کی كتاب الزهد والرقائق میں التثبت فی الحدیث و حکم کتابۃ العلم کے عنوان کے تحت ذکر کیا ہے،
ان رسول اللہ ﷺ قال لا تکتبوا عنی و من کتب عنی غیر القرآن فلیمحہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میری طرف سے کچھ مت لکھو اور جس نے میری طرف سے قرآن کے علاوہ جو کچھ بھی لکھ رکھا ہے وہ مٹا دے ۔
صحیح مسلم ، كتاب الزهد والرقائق ، باب ‘‘التثبت فی الحدیث و حکم کتابۃ العلم ’’، حدیث نمبر 3004
دوسرا طبقہ اور اس کی دلیل ؛
جو طبقہ احادیث اور سنت کی معتبریت (Authenticity) کو ہی تسلیم نہیں کرتا اس کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ احادیث کی باضابطہ تدوین دوسری اور تیسری صدی ہجری میں عمل میں آئی اسی لئے اسے معتبر (Authentic) اسلامی لٹریچر نہیں مانان جا سکتا ۔
تیسرا طبقہ اور اس کی دلیل؛
تیسرا طبقہ جو سرے سے ہی سنت اور احادیث رسول ﷺ کی ضرورت کا انکار کرتا ہے اس کے نزدیک سنت اور احادیث رسول ﷺ کی حجیت (Authoritativeness) اور اس کی معتبریت (Authenticity) کوئی مسئلہ ہی نہیں کیوں کہ اس طبقہ کا ماننا یہ ہے کہ ہماری رہنمائی کے لئے صرف قرآن ہی کافی ہے اور اسلام پر چلنے کے لئے ہمیں کسی اور کتاب یا سنت اور حدیث کی قطعی کوئی حاجت نہیں اس کے بر عکس احادیث اور سنت رسول ﷺ کی پیروی دین میں گمراہی اور فسق و فجور کا باعث ہے ۔
احادیث اور سنت رسول ﷺ کی حجیت (Authoritativeness) کا انکار اور اس کا جواب
جو لوگ احادیث اور سنت رسول ﷺ کی حجیت (Authoritativeness) کا انکار کرتے ہیں اور اس کی دلیل میں حضرت سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کرتے ہیں ان کی دلیل قابل قبول نہیں ، کیوں کہ احادیث اور سنت رسول ﷺ کی حجیت (Authoritativeness) کی نفی پر وہ جس حدیث کو اپنا مستدل بناتے ہیں اسی حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ احادیث کریمہ بیان کرنا اور اس پر عمل کرنا عین منشائے رسول ﷺ کے مطابق ہے اور جو شئی منشائے رسول کے مطابق ہو منشائے ایزدی بھی اسی میں پوشیدہ ہے کیوں کہ اس امر پر نص قرآنی وارد ہے کہ رسول ﷺ کبھی کوئی بات اپنی مرضی سے نہیں فرماتے خواہ ان کا فرمانا قرآن ہو یا غیر قرآن ، اللہ فرماتا ہے ؛
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ - إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ- عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ (5-53:3)
ترجمہ : اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے، وہ تو نہیں مگر وحی جو انہیں کی جاتی ہے ، انہیں سکھایا سخت قوتوں والے طاقتور نے۔ (کنز الایمان)
پوری حدیث اس طرح ہے :
ان رسول اللہ ﷺ قال لا تکتبوا عنی و من کتب عنی غیر القرآن فلیمحہ و حدثوا عنی ولا حرج و من کذب علی متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میری طرف سے کچھ مت لکھو اور جس نے میری طرف سے قرآن کے علاوہ جو کچھ بھی لکھ رکھا ہے وہ مٹا دے ۔ ہاں! میری حدیثیں بیان کیا کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اور جو شخص قصداََ مجھ پر جھوٹ باندھے ، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھے۔ (صحیح مسلم ، كتاب الزهد والرقائق ، باب ‘‘التثبت فی الحدیث و حکم کتابۃ العلم ’’، حدیث نمبر 3004)
مذکورہ بالا حدیث کم از کم یہ ثابت کرنے کے تو کافی ہے اور اس سے انکار کی کوئی مجال بھی نہیں کہ فی نفسہ حدیث رسول ﷺ کوئی ایسی چیز نہیں جسے بیان کرنے سے پرہیز کیا جائے یا کسی کو بیان کرنے سے روکا جائے یا احادیث پر عمل کرنے والوں کو لعن طعن کیا جائے اس لئے کہ مذکورہ روایت میں خود پیغمبر اسلام ﷺ نے اپنی حدیث بیان کرنے کی حوصلہ افزائی فرمائی اور بیان کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ لوگوں کو اس کی تعلیم دی جائے اور اس پر عمل کی تلقین کی جائے۔
لیکن ان سب کے باوجود اس مقام پر یہ سوال ضرور پید ا ہوتا ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ کی منشاء احادیث کی ترویج و اشاعت کرنا اور مسلمانوں کو اس پر عمل کی تلقین کرنا تھی تو پھر آپ ﷺ نے اس کی کتابت سے کیوں منع فرمایا ؟ تو اس اعتراض کا جواب خود اسی حدیث کے سیاق و سباق سے واضح ہے ، حدیث کا متن یہ بتاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صرف کتابت حدیث سے منع فرمایا تھا اور اس کی وجہ محدثین یہ بیان فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ ابتدائے اسلام کا ہے اور اس زمانہ میں کتابت حدیث سے رسول اللہ ﷺ کا منع فرمانا ان چند امور میں سے ایک ہے جس سے اسلام کے ابتدائی ادوار میں رسول اللہ ﷺ نے مصلحۃً منع فرمایا تھا اور پھر بعد میں جب مصلحت ختم ہو گئی تو پھر آپ ﷺ نے نہ صرف اس کی اجازت دی بلکہ خود اپنی موجودگی میں اس کی کتابت بھی کروئی ۔ اور منع کتابت کی وجہ علماء و محدثین یہ بیان فرماتے ہیں کہ چونکہ وہ نزول قرآن کا ابتدائی دور تھا اور اس وقت مکے کے اندر لکھنے والوں کی تعداد کافی محدود تھی اور کتابت قرآن کا سلسلہ جاری تھا اور اس بات کے امکانات تھے کہ لوگوں کو کہیں اشتباہ نہ ہو جائے اور لوگ قرآن اور حدیث میں خلط ملط نہ کر بیٹھیں ، لیکن کچھ عرصے کے بعد جب صحابہ کرام قرآن اور حدیث میں امتیاز کرنے کے عادی ہو گئے اور اپنی اپنی نمازوں میں قرآن کی تلاوت کرنے لگے اور قرآن اور حدیث کے درمیان اشتباہ کا اندیشہ جاتا رہا تو آپ ﷺ نے نہ صرف یہ کہ کتابت حدیث کی اجازت دی بلکہ خود اپنی موجودگی میں اس کی کتابت بھی کروائی اور بعد کے زمانے میں صحابہ کرام اور تابعین نے اس کی کتابت اور روایت و درایت کا اہتمام بھی کیا جیسا کہ ابھی آگے آئے گا۔
حجیت حدیث کی نفی پر مذکورہ حدیث سے استدلال کرنے والوں پر علمائے فن نے ایک اعتراض یہ بھی کیا ہے کہ حجیت حدیث کی نفی کرنے والوں کا اپنے موقف کی تائید میں حضرت سعید خدری کی روایت سے استدلال کرنا درست نہیں کیوں کہ ان کے مطابق اگر حدیث رسول حجت (Authority) ہی نہیں تو وہ اپنے دعوے کی دلیل کسی حدیث کو کیسے بنا سکتے ہیں ؟ اس کے لئے انہیں کسی ایسی نص قطعی کی ضرورت ہوگی جو حدیث کے علاوہ ہو اور خود حدیث پر حجت بننے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
احادیث رسول ﷺ کی معتبریت (Authenticity) کا انکار اور اس کا جواب
جو طبقہ احادیث اور سنت کی معتبریت (Authenticity) کو ہی تسلیم نہیں کرتا اور اس کی دلیل یہ پیش کرتا ہے کہ چونکہ احادیث کی باضابطہ تدوین دوسری اور تیسری صدی ہجری میں عمل میں آئی اسی لئے اسے معتبر (Authentic) اسلامی لٹریچر نہیں مانان جا سکتا ان کے لئے عہد حاضر کے مشہور محدث اور فقیہ حضرت مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کی تصنیف ‘‘نزھۃ القاری شرح صحیح بخاری’’ کے مقدمہ سے درج ذیل اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں اس پر غور کریں:
عہد رسالت میں کتابت حدیث:
(۱) حضرت عبداللہ بن عمر بن عاصی رضی اللہ عنہ نے سیکڑوں احادیث لکھیں ان کے مجموعے کا نام صادقہ تھا۔ (بخاری ۔اصابہ ۔طبقات ابن سعد)
(۲) احادیث کا ایک مجموعہ حضرت انس نے لکھا تھا۔ ( بخاری ۔تدریب الراوی)
(۳) حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے بھی احادیث لکھوائی تھیں۔ یہ ذخیرہ ان کے صا حب زادے کے پاس تھا ( جامع بیان العلم)
(۴) حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے ایک کتاب میں احادیث کو جمع فرمایا تھا جس کا نام ہی کتاب سعد بن عبادہ تھا ۔ یہ کئی پشتوں تک ان کے خاندان میں رہا۔ ( مسند امام احمد)
(۵) سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے بھی ایک مجموعہ مرتب فرمایا تھا۔
(۶) حضرت ابوہریرہ نے بھی دفتر کے دفتر احادیث لکھی یا لکھوائی تھیں۔(فتح الباری)
ہمام ابن منبہ کا صحیفہ جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے انہیں دفتروں سے نقل ہوا تھا اب چھپ بھی گیا ہے جس کی اکثر احادیث بخاری مسلم مسند امام احمد میں بعینہ بلفظ موجود ہیں۔
(۷) سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے بھی ایک مجموعہ تیار کیا تھا۔
اس سے ظاہر ہوا کہ عام طور پر کچھ صحابہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد لکھا کرتے تھے ابن عباس اور ابن عمرکے صحائف کا ذکر ملتا ہے۔
الجامع لاخلاق الراوی و آداب السامع ۱۰۰ پر ہے۔
ترجمہ: حضرت ابن عباس کے چند صحیفے تھے طائف کے کچھ لوگ حضرت ابن عباس کی خدمت میں ان کے چند صحیفے لیکر حاضر ہوئے تاکہ وہ ان لوگوں کو ان میں تحریر کردہ احادیث سنا دیں اس وقت حضرت ابن عباس کی بینائی کمزور ہو چکی تھی وہ پڑھ نہ سکے فرمایا تم لوگ مجھے پڑھ کر سناؤ تمارا سنانااور میرا پڑھنابرابر ہے۔(طحاوی۳۸۴۔ج۲ ترمذی ۲۳۸ ج ۲)
ظاہر یہ ہے کہ یہ وہی صحیفے تھے جو انہوں نے عہد نبوی میں لکھاتھا ۔ اگر مان لیا جائے کہ وصال اقدس کے بعد کے لکھے ہوئے ہیں تویہ اس کی دلیل ہوگا کہ عہد صحابہ میں احادیث لکھی گئیں اور منکرین تو مطلقاً عہد صحابہ میں بھی کتابت حدیث کے منکر ہیں ۔
نحن نکتب سے اشارہ ملتاہے کہ اس خدمت کو ایک جماعت انجام دیتی تھی ۔ او راس کی تائید دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے۔
ا س کے علاوہ جستہ جستہ بہت سے احکام ومسائل کے بارے میں یہ ثبوت موجود ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائے۔
(۱) ۸ء میں جب مکہ فتح ہوا تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی حقوق او رمکہ کی حرمت کے مسائل بیان فرمائے اس پر ایک یمن کے باشندے نے خواہش ظاہر کی یہ احکام لکھوا کر عنایت فرمائیں آپ نے فرمایا ۔اکتبوہ لابی شاہ‘‘ یہ احکامابوشاہ کیلئے لکھ دو ۔ بخاری ابوداؤد۔
(۲) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت (خونبہا ) کے مسائل لکھوا کر بھجوائے۔ مسلم شریف ۴۹۵۔
(۳) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ جہینہ کے پاس مردہ جانوروں کے احکام لکھوا کر بھجوائے ۔مشکوۃ ابوداؤد۔
(۴) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کے متعلق مسائل کو ایک جگہ لکھوایا تھا جس کانام کتاب الصدقہ تھا مگر عمال و حکام تک اسے روزانہ نہ فرماسکے اور وصال ہوگیا۔ حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے عہد میں اسی کے مطابق زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم جاری کیا اور اسی کے مطابق وصول ہوتی تھی ۔ ابوداؤد۔
(۵) اسی کتاب الصدقہ کا مضمون وہ ہے ۔ جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضرت انس کو دیا تھا جس وقت انہیں بحرین کا عامل بنا کر بھیجا تھا ۔ اس میں اونٹوں ،بکریوں، اور سونے چاندی کو زکوٰۃ کے نصاب کی تفصیل تھی ۔بخاری ۱۹۴
(۶) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حیات مبارکہ کے اخیر ایام میں کثیر احادیث کا ایک صحیفہ لکھوا کر عمر بن حز م رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بدست یمن بھجوایا تھا۔ موطا امام مالک ۲۳۱ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کے پاس ایک مکتوب عمر وبن حزم کے ہاتھ بھیجا تھا جس میں فرائض سنن اور دیات لکھے تھے۔
(۷) زکوٰۃ کے احکام پر مشتمل ایک صحیفہ ابوبکر بن حزم والیٔ بحرین کو لکھوا یا تھا۔ یہ صحیفہ دیگر امر اء کو بھی بھیجا گیا تھا۔ یہ مکتوب حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے ابن حزم سے لے لیا تھا ۔ دارقطنی ، مسند امام احمد۔
(۸) زکوٰۃ وصول کرنے والے عاملین کے پاس کتاب الصدقہ کے علاوہ او ربھی تحریریں تھیں۔ دارقطنی۔
(۹) عمر وبن حزم کو یمن کا حاکم بناتے وقت فرائض ،صدقات ،دیات ، طلاق، عتاق ، نماز ، مصحف شریف چھونے سے متعلق احکام پر مشتمل ایک تحریر لکھائی تھی ۔ مسندامام احمد مستدرک ، کنزالعمال۔
(۱۰) مختلف فرامین و احکام جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے قبائل کو بھیجے ۔
(۱۱) معاہدات کی تحریریں مثلاً صلح حدیبیہ وغیرہ ۔ابن ماجہ ،طبقات ابن سعد۔
(۱۲) وہ دالانامے جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے سلاطین و امراء کے پاس بھیجے ۔
(۱۳) عبداللہ بن حکم صحابی کے پاس حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تحریر تھی جس میں مردہ جانوروں کے احکام مذکور تھے ۔ معجم صغیر ، طبرانی
(۱۴) نماز، روزہ، سود ،شراب وغیرہ کے مسائل وائل جن حجر کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائے تھے ۔
(۱۵) اشیم نامی مقتول کی بیوی کو اپنے مقتول شوہر کی دیت دلانے کا فرمان آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا تھا ۔یہ فرمان ضحاک بن سفیان صحابی کے پاس تھا۔ ابوداؤد ،دارقطنی۔
(۱۶) ترکاریوں ،سبزیوں پر زکوٰۃ نہیں ۔ یہ حکم نامہ لکھوا کر حضرت معاذبن جبل کے پاس یمن بھیجوا یا تھا۔ دارقطنی۔
(۱۷) رافع بن خدیج صحابی کے پاس ایک مکتوب گرامی تھا جس میں یہ مندرج تھا کہ مدینہ بھی مثل مکہ حرم ہے ۔ مسند امام احمد
(۱۸) حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کچھ احکام لکھوا کر دیئے تھے جو ان کے پاس تھا۔بخاری ۲۱۔ج۱۔
(۱۹) حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھا تم نے جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سنا ہے وہ لکھ کر بھیج دو ۔ چنانچہ انہوں نے کچھ احادیث لکھوا کر بھیجیں ۔ بخاری ۱۰۸۳۔ج۲
ایک شبہے کا ازالہ: کچھ لوگوں کو حضرت ابوسعید خذری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث سے شبہہ ہوتا ہے کہ حضور نے ارشاد فرمایا لاتکتبواعنی من کتب عنی غیر القرآن فلیمحہ، مسلم ۔ جلد ثانی ۴۱۴،قرآن کے علاوہ میری کوئی حدیث نہ لکھو ۔اگر لکھا ہو تو اسے مٹادو۔
اولاً علما ء کو اس حدیث کی صحت میں کلام ہے۔ امام بخاری وغیرہ نے فرمایا یہ درحقیقت حضرت ابوسعید پر موقوف ہے۔ یعنی ارشاد رسول نہیں انہیں کا قول ہے۔
ثانیاً بر تقدیر صحت علامہ ابن حجر وغیرہ نے اس کے مختلف جوابات دیئے ہیں۔
(۱) یہ ممانعت نزول قرآن کے وقت ساتھ خاص ہے یعنی جب قرآن نازل ہورہا ہو ، یا جب قرآن لکھوارہا ہوں تواس وقت صرف قرآن ہی لکھو۔
(۲) حدیث و قرآن کو ایک ہی چیز پر مت لکھو۔ ان دونوں صورتوں میں قرآن کا حدیث کے ساتھ اختلاط کا اندیشہ قوی تھا۔
(۳) ممانعت کا حکم مقدم ہے یعنی بالکل ابتدائی دور میں تھا ۔ بعد میں جب قرآن کے ساتھ احادیث کے التباس کا خطرہ نہ رہا احادیث لکھنے کی اجازت دیدی ۔
(۴) اس کے بارے میں یہ اندیشہ تھا کہ اگر یہ لکھ لیں گے تو زبانی یاد نہ رکھیں گے ۔ صرف کتاب کے بھروسہ پہ رہ جائیں گے انہیں احادیث لکھنے سے منع فرمایا۔اور جن کے بارے میں یہ اندیشہ نہ تھا ۔بلکہ اطمینان تھا کہ وہ لکھیں گے تو بھی زبانی یاد رکھیں گے انہیں لکھنے کی اجازت دیدی ۔ فتح الباری ۱۸۳ ج
عہد صحابہ میں کتابت حدیث:
لیکن اب تک جو بھی ہوا ۔ انفرادی طور پر اپنے شوق و ذوق کے مطابق ہوا۔ پھر ان صحائف میں کوئی ترتیب نہ تھی ۔جن بزرگ نے جن سے جو حدیث جب سنی لکھ لی۔ یہاں تک کہ اس اہم و بنیادی کام پر سب سے پہلے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز کو توجہ ہوئی ۔ او رانہوں نے باقاعدہ تدوین احادیث کے لئے وقت کے ممتاز افراد کو مقرر فرمایا۔ مثلاً ابوبکر بن عمر و بن حزم قاضی بن محمد بن ابی مسلم بن عبیداللہ بن عبداللہ بن شہاب زہری سعد بن ابراہیم وغیرہ۔ نیز اسی دور میں ربیع بن فصیح اور سعد بن عروبہ اور شعبی نے بھی احادیث کی تدوین شروع کردی تھی۔
دارمی میں ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے قاضی مدینہ ابوبکر بن حزم کو لکھا کہ احادیث رسول و احادیث عمر اور موطا میں اتنا زائد ہے اور ان کے مثل دیگر صحابہ کے آثار جمع کر کے لکھو کیونکہ مجھے علم کے ضائع ہونے اور علماء کے چلے جانے کا اندیشہ ہے۔ بخاری کتاب العلم میں یہ زائد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے علاوہ او رکچھ نہ قبول کیا جائے ۔ او رعلم کو خوب پھیلاؤ ۔ او ربیٹھو تاکہ جو نہیں جانتا ہے وہ سیکھے ۔ اس لئے کہ علم اس وقت تک ضائع نہ ہوگا جب تک اسے راز نہ بنا لیا جائے ۔ بخاری ۲۰ج۱
اس خادم کا خیال ہے کہ اتنا حصہ رسول اللہ کی احادیث کے علاوہ او رکچھ نہ قبول کیا جائے۔ حضرت امام بخاری یا کسی راوی کا اضافہ ہے۔ امام بخاری نے تعلیقاً ذکر کیا ہے۔ اور دارمی او رموطا میں مسندا ہے۔ اس لئے خود امام بخاری کے طور پر دارمی او رموطا کی روایت مقدم ہوگی ۔ خود امام بخاری نے سند کے ساتھ جوذکر کیا ہے۔ وہ صرف ذہاب العلماء تک ہے۔
جب یہ فرمان ابوبکر بن حزم کے پاس پہنچا توانہوں نے احادیث کے کئی مجموعے تیار کرائے ۔ ان کا ارادہ تھا کہ وہ انہیں بارگاہ خلافت میں بھیجیں لیکن ابھی بھیجنے نہیں پائے تھے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا ۱۰۱ھ میں وصال ہوگیا۔ یہ اپنے وقت کے بہت بڑے محدّث اور امام زہری کے استاذ تھے۔
احادیث میں ام المومنین حضرت عائشہ کی مردیات کوبہت بڑی اہمیت ہے۔ اس لئے کہ ان سے فقہ و عقائد کے بنیادی مسائل ماثورہیں اس لئے حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ان کی احادیث جمع کرنے کا زیادہ اہتمام کیا تھا۔ عمر ہ بنت عبدالرحمن کو حضرت عائشہ نے خاص اپنی آغوش کرم میں پالا تھا ۔ یہ بہت ذہین عالمہ فاضلہ تھیں ۔ تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے۔ کہ احادیث عائشہ کی یہ سب سے بڑی حافظہ تھیں ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ، قاضی ابوبکر بن عمر ابن حزم کو خاص ہدایت کی کہ عمرہ کے مسائل ،اور روایات کو قلم بند کر کے بھیجا جائے۔
ابوبکر محمد بن مسلم بن عبیداللہ بن عبداللہ بن شہاب زہری المتوفی ۱۲۴ھ جو امام زہری کے نام سے متعارف ہیں اور ان کو ابن شہاب بھی کہا جاتا تھا ۔ ان کی عادت یہ تھی کہ محدثین کی حدیثیں سنتے جاتے تو اپنے ساتھ تختیاں او رکاغذ لئے رہتے جتنا سنتے لکھتے جاتے ۔ تذکرۃ الحفاظ ۱۰۶ج۱
صالح بن کیسان کہتے ہیں کہ میر اور زہری کا زمانہ طالب علمی میں ساتھ تھا ۔ زہری نے مجھ سے کہا آؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں لکھیں۔ چنانچہ ہم دونوں نے حدیثیں لکھیں ۔ کنز العمال ۲۳۸،۵
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے مختلف دیار اور امصار سے احادیث کے لکھے ہوئے دفتر کے دفتر جمع کئے اور انہیں امام زہری کے حوالہ کیا کہ انہیں سلیقے سے مرتب کریں۔ تدریب الراوی۔
معمر کا کہنا ہے کہ امام زہری کی لکھی ہوئی احادیث کے ذخیرے کئی اونٹوں پر لادے گئے ۔ امام زہری اس وقت کے اعلم علماء تھے ۔ حدیث وفقہ میں ان کا کوئی مثل نہ تھا ۔ تمام اجلّۂ محدثین اصحاب ستہ حتی امام بخاری کے بھی شیخ الشیوخ ہیں ۔ انہوں نے احادیث اس لگن و محنت سے جمع کیں کہ مدینہ طیبہ کے ایک ایک انصاری کے گھر جا جا کر مرد، عورت، بچے ، بوڑھے جو مل جاتا اس سے حتی کہ پر دہ نشیں عورتوں سے بھی پوچھ پوچھ کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال و اقوال سنتے او رلکھتے۔
ان کی تصنیفات کا اتنابڑا ذخیرہ تھا کہ جب ولید بن یزید کے قتل کے بعد روایات و احادیث کے صحائف ولید کے کتب خانے سے منتقل کئے گئے تو صرف امام زہری کی مردیات و تصانیف گھوڑوں گدھوں پر لاد کر لائی گئیں ۔
امام زہری نے احادیث کے جمع کرنے کے ساتھ ان کو سند کے ساتھ بیان کرنے کا طریقہ ایجاد کیا اسی واسطے ان کو علم اسناد کا واضع کہا جاتا ہے ۔
ابن شہاب زہری نے احادیث کی جمع و ترتیب و تہذیب کا جو کام شروع کیا اسے ان کے لائق تلامذہ ہمیشہ ترقی دیتے گئے یہاں تک کہ انہیں کے مشہور تلمیذ جلیل امام مالک بن انس متوفی ۱۷۹ھ نے موطا لکھی ۔ جن میں احادیث کو فقہہی ابواب کے مطابق ترتیب وار جمع کیا۔
سعد بن ابراہیم بھی بہت بڑے عالم اور محدث تھے ۔ مدینہ کے قاضی عمربن عبدالعزیز نے ان سے بھی احادیث کے دفتر کے دفتر لکھوائے اور تمام بلا د اسلامیہ میں بھیجوائے۔
ہشام بن الفار کا بیان ہے کہ عطا بن رباح تابعی (متوفی ۱۱۴ھ) سے لوگ حدیث پوچھ پوچھ کر انہیں کے سامنے لکھتے جاتے تھے ۔ دارمی ۶۹
سلمان بن موسیٰ کہتے ہیں میں نے نافع (متوفی ۱۱۷ھ) کو دیکھا کہ وہ حدیثیں بیان کرتے او ران کے تلامذہ ان کے سامنے لکھتے جاتے ۔دارمی۔
ایک شخص حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ (متوفی ۱۱۰ھ ) کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اور عرض کیا میرے پاس آپ کی بیان فرمودہ کچھ حدیثیں لکھی ہوئی ہیں۔ کیا میں ان کی آپ سے روایت کرسکتا ہوں۔ انہوں نے اجازت دے دی ۔ ترمذی ۲۳۹ج۲
حمید الطویل نے بھی حضرت حسن بصری کی کتابیں نقل کی تھیں ۔تہذیب التہذیب ۳۹ج ۳
ابوقلابہ (متوفی ۱۰۴ھ )نے وفات کے وقت اپنی کتابیں ایوب سختیانی کو دینے کی وصیت کی تھی ۔اس وصیت کے مطابق یہ کتابیں شام سے اونٹ پر لاد کر لائیں گئیں ۔ ایوب نے بتایا کہ اس کا کرایہ بارہ چودہ درہم دیئے تھے ۔تذکرۃ الحفاظ ۸۸ج۱
ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ سالم بن ابی الجوزا ،( متوفی ۱۰۱ھ) حدیثیں لکھا کرتے تھے ۔سالم نے بعض صحابہ کرام سے بھی حدیثیں سنی ہیں ۔ ترمذی ۲۳۸ج۲، دارمی (بحوالہ ؛نزھۃ القاری شرح صحیح بخاری ، مصنفہ مفتی شریف الحق امجدی صفحہ ۱۲ تا ۱۹ ، ناشر دائرۃ البرکات گھوسی)
تیسرا طبقہ جو سرے سے ہی سنت اور احادیث رسول ﷺ کی ضرورت کا انکار کرتا ہے اور یہ مانتا ہے کہ ہماری رہنمائی کے لئے صرف قرآن ہی کافی ہے اور اسلام پر چلنے کے لئے ہمیں کسی اور کتاب یا سنت اور حدیث کی قطعی کوئی حاجت نہیں بلکہ احادیث اور سنت رسول ﷺ کی پیروی دین میں گمراہی اور فسق و فجور کا باعث ہے انہیں قرآن کی ان چوپیس آیتوں پر غور کرنا چاہئے جن میں اللہ نے اپنی اطاعت اور اپنے رسول ﷺ کی اطاعت کو ایک ساتھ بیان کیا ہے ، اور انہیں تقریباً ان بیس آیتوں کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے جن میں اللہ نے صرف تنہاء اطاعت رسول کا ذکر کیا ہے اور اطاعت رسول سے روگردانی کو کہیں کفر ،کہیں نفاق اور کہیں فسق و فجور قرار دیا گیا ہے ۔ وہ آیات قرآنیہ حسب ذیل ہیں :
1. كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولا مِنْكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ ( 2:151 )
ترجمہ: جیسا کہ ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول تم میں سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا۔ (کنز الایمان)
2. رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ( 2:129 )
ترجمہ: اے رب ہمارے اور بھیج ان میں ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرمادے بیشک تو ہی ہے غالب حکمت والا-(کنز الایمان)
3. لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ (3:164 )
ترجمہ: بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔(کنز الایمان)
4. فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (3:50)
ترجمہ: تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ (کنز الایمان)
5. رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ (3:53 )
ترجمہ: اے رب ہمارے! ہم اس پر ایمان لائے جو تو نے اتارا اور رسول کے تابع ہوئے تو ہمیں حق پر گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔(کنز الایمان)
6. قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ (3:31)
ترجمہ: اے محبوب! تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے۔ (کنز الایمان)
7. فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ( 4:65 )
ترجمہ: تو اے محبوب! تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائئیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں۔(کنز الایمان)
8. وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّه ( 4:64 )
ترجمہ: اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے ۔(کنز الایمان)
9. مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ .(4:80)
ترجمہ: جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا ۔(کنز الایمان)
10. رُسُلا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ (4:165)
ترجمہ: رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے کہ رسولوں کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں کو کوئی عذر نہ رہے ۔ (کنز الایمان)
11. أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُبِينًا (4:174)
ترجمہ: اے لوگو! بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلیل آئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور اتارا ۔ (کنز الایمان)
12. إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا - أُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا (151-4:150)
ترجمہ: وہ جو اللہ اور اس کے رسولوں کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اللہ سے اس کے رسولوں کو جدا کردیں اور کہتے ہیں ہم کسی پر ایمان لائے اور کسی کے منکر ہوئے اور چاہتے ہیں کہ ایمان و کفر کے بیچ میں کوئی راہ نکال لیں ۔ یہی ہیں ٹھیک ٹھیک کافر اور ہم نے کافروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ (کنز الایمان)
13. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ (49:2)
ترجمہ: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اَکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو ۔(کنز الایمان)
14. إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ وَلا تَكُنْ لِلْخَائِنِينَ خَصِيمًا (4:105)
ترجمہ: اے محبوب! بیشک ہم نے تمہاری طرف سچی کتاب اتاری کہ تم لوگوں میں فیصلہ کرو جس طرح تمہیں اللہ دکھائے اور دغا والوں کی طرف سے نہ جھگڑو۔(کنز الایمان)
15. فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللہِ وَالرَّسُولِ ( 4:59 )
ترجمہ: ........... پھر اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اٹھے تو اسے اللہ اور رسول کے حضور رجوع کرو۔ (کنز الایمان)
16. هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأمِّيِّينَ رَسُولا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ( 62:2 )
ترجمہ: وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں اور انہیں پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کا علم عطا فرماتے ہیں اور بیشک وہ اس سے پہلے ضرور کھلی گمراہی میں تھے۔(کنز الایمان)
17. وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلا وَحْيٌ يُوحَى ( 53:3،4 )
ترجمہ: اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے، وہ تو نہیں مگر وحی جو انہیں کی جاتی ہے۔(کنز الایمان)
18. فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى ( 53:10 )
ترجمہ: اب وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی فرمائی۔ (کنز الایمان)
19. لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ( 33:21 )
ترجمہ: بیشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے۔ (کنز الایمان)
20. وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا (24:54)
ترجمہ: اور اگر رسول کی فرمانبرداری کرو گے راہ پاؤ گے۔ (کنز الایمان)
21. فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي (20:90)
ترجمہ: تو میری پیروی کرو اور میرا حکم مانو ۔(کنز الایمان)
22. وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ( 33:33 )
ترجمہ: اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو ا۔(کنز الایمان)
23. وَإِن تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (49:14)
ترجمہ: اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو گے تو تمہارے کسی عمل کا تمہیں نقصان نہ دے گا بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(کنز الایمان)
24. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ ( 8:24 )
ترجمہ: اللہ اور اس کے رسول کے بلانے پر حاضر ہو۔(کنز الایمان)
25. الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ ( 7:157 )
ترجمہ: وہ جو غلامی کریں گے اس رسول بے پڑھے غیب کی خبریں دینے والے کی۔ (کنز الایمان)
26. فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ( 7:157 )
ترجمہ: تو وہ جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اترا وہی بامراد ہوئے۔ (کنز الایمان)
27. وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ ( 21:107 )
ترجمہ: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے ۔(کنز الایمان)
28. وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ ( 34:28 )
ترجمہ: اور اے محبوب! ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر ایسی رسالت سے جو تمام آدمیوں کو گھیرنے والی ہے خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا لیکن بہت لوگ نہیں جانتے ۔ (کنز الایمان)
29. مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ (33:40)
ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ (کنز الایمان)
30. وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الأمِينُ عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ (195 -26:192)
ترجمہ: اور بیشک یہ قرآن رب العالمین کا اتارا ہوا ہے، اسے روح الا مین لے کر اترا ، تمہارے دل پر کہ تم ڈر سناؤ ، روشن عربی زبان میں۔(کنز الایمان)
31. يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا (46 -33:45)
ترجمہ: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا ، اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا او ر چمکادینے دینے والا ا ٓ فتاب ۔(کنز الایمان)
32. وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالا مُبِينًا (33:36)
ترجمہ: اور نہ کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ و رسول کچھ حکم فرمادیں تو انہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے اور جو حکم نہ مانے اللہ اور اس کے رسول کا وہ بیشک صر یح گمراہی بہکا ۔ (کنز الایمان)
33. وَاَنزَلْنَاۤ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ (16:44)
ترجمہ: روشن دلیلیں اور کتابیں لے کر اور اے محبوب ہم نے تمہاری ہی طرف یہ یاد گار اتاری کہ تم لوگوں سے بیان کردو جو ان کی طرف اترا اور کہیں وہ دھیان کریں ۔ (کنز الایمان)
34. فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُواْ رَبَّنَاۤ آخرنَاۤ اِلٰيۤ اَجَلٍ قَرِيبٍ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ (14:44)
ترجمہ: تو ظالم کہیں گے اے ہمارے رب! تھوڑی دیر ہمیں مہلت دے کہ ہم تیرا بلانا مانیں اور رسولوں کی غلامی کریں ۔ (کنز الایمان)
35. فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (24:63)
ترجمہ: کسی چیز کی آڑ لے کر تو ڈریں وہ جو رسول کے حکم کے خلاف کرتے ہیں کہ انہیں کوئی فتنہ پہنچے یا ان پر دردناک عذاب پڑے ۔ (کنز الایمان)
36. وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلا (25:27)
ترجمہ: اور جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبا چبا لے گا کہ ہائے کسی طرح سے میں نے رسول کے ساتھ راہ لی ہوتی ۔(کنز الایمان)
37. َوْمَئِذٍ يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَعَصَوُا الرَّسُولَ لَوْ تُسَوَّى بِهِمُ الأرْضُ (4:42)
ترجمہ: اور اگر یہ تمہاری تکذیب کرتے ہیں تو بیشک ان سے پہلے جھٹلا چکی ہے نوح کی قوم اور عاد اور ثمود ۔ (کنز الایمان)
38. َوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولا (33:66)
ترجمہ: جس دن ان کے منہ الٹ الٹ کر آگ میں تلے جائیں گے کہتے ہوں گے ہائے کسی طرح ہم نے اللہ کا حکم مانا ہوتا اور رسول کا حکم مانا ۔(کنز الایمان)
39. قَاتِلُوا الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلا بِالْيَوْمِ الآخر وَلا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ (9:29)
ترجمہ: لڑو ان سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور قیامت پر اور حرام نہیں مانتے اس چیز کو جس کو حرام کیا اللہ اور اس کے رسول نے ۔(کنز الایمان)
40. يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (7:157)
ترجمہ: وہ انہیں بھلائی کا حکم دے گا اور برائی سے منع کرے گا اور ستھری چیزیں ان کے لیے حلال فرمائے گا اور گندی چیزیں ان پر حرام کرے گا اور ان پر سے وہ بوجھ اور گلے کے پھندے جو ان پر تھے اتا رے گا، تو وہ جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اترا وہی بامراد ہوئے۔ (کنز الایمان)
41. فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ(7:158)
ترجمہ: تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول بے پڑھے غیب بتانے والے پر کہ اللہ اور اس کی باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی غلامی کرو کہ تم راہ پاؤ ۔ (کنز الایمان)
42. وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوا مَا آتَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ سَيُؤْتِينَا اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللَّهِ رَاغِبُونَ (9:59)
ترجمہ: اور کیا اچھا ہوتا اگر وہ اس پر راضی ہوتے جو اللہ و رسول نے ان کو دیا اور کہتے ہمیں اللہ کافی ہے اب دیتا ہے ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اللہ کا رسول، ہمیں اللہ ہی کی طرف رغبت ہے ۔(کنز الایمان)
43. وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (59:7)
ترجمہ: اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو، اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے ۔ (کنز الایمان)
دین کا کوئی اصول یا اسلام کا کوئی عقیدہ ثابت کرنے کے لئے قرآن کی ایک آیت ہی کافی ہے۔
و اللہ اعلم بالصواب
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism