مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
13 دسمبر 2018
صبر ایک ایسا ڈھال ہے جو انسانوں کو ہلاکت سے محفوظ رکھتا ہے۔ صبر بندہ مؤمن کے ایمان و عمل کی حفاظت تو کرتا ہی ہے ساتھ ہی ساتھ اسے جنت کا بھی مستحق بناتا ہے۔ سکھ دکھ ، نیکی بدی ، کشادگی و تنگدستی اور مصیبت و فرحت یہ ایسی چیزیں ہیں جن سے انسان کو اس دنیا کے اندر کوئی چھٹکارا نہیں، لیکن کامیابی و کامرانی صرف انہیں کا مقدر ہے جو زندگی کے تمام نشیب و فراز میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔ اس لئے کہ جب تک بندہ صبر کا دامن تھامے رہتا ہے ، ہر حالت میں اللہ کا شکر بجا لاتا ہے ، اور جونہی اس کے ہاتھ سے صبرکا دامن چھوٹتا ہے اپنی حالت زار پر اللہ کی ناشکری شروع کر دیتا ہے ، اور اس کی یہ ناشکری جاری رہتی ہے حتیٰ کہ اس کے قدم کفران نعمت تک جا پہنچتے ہیں۔ اور اس میں کسی کو تردد نہیں ہونا چاہئے کہ جس کے دل میں کفران نعمت داخل ہوئی اس کے دل سے ایمان نکل گیا۔ اگر ہم اس لطیف نکتے پر ذرا بھی غور کریںتو صبر اور شکر و احسان کی اہمیت ہماری نظروں میں واضح ہو جائے گی ۔ جو صبر کرنے والا ہے اس کے بارے میں بلا تردد یہ رائے قائم کی جا سکتی ہے کہ اللہ اس کے ساتھ ہے۔ اس لئے کہ قرآن کا اعلان بڑا واضح ہے: ان اللہ مع الصابرین یعنی اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔
صبر کرنے والے پر قیامت میں اللہ کی بے حد و حساب رحمتیں:
قال فقیہ: عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ ﷺ ‘‘اِذا اراد اللہ بعبدہ خیرا، او اراد ان یصافیہ صب علیہ البلاء صباً، و ثجہ علیہ ثجاً، و اذا دعاہ قالت الملائکۃ: یا رب صوت معروف۔ فاذا دعاہ الثانیۃ فقال: یا رب۔ قال اللہ تعالیٰ: لبیک عبدی و سعدیک، لا تسألنی شیئاً الا اعطیتک او دفعتُ عنک ماھو شر و ادخرت عندی لک ما ھو افضل منہ۔ فاذا کان یوم القیامۃ جیءَ باھل الاعمال فوفوا اعمالھم بالمیزان، اھل الصلاۃ و الصیام و الصدقۃ و الحج۔
ثم یوتی باھل البلاء، فلا ینصب لھم المیزان، و لا ینشر لھم الدیوان، و یصب لھم الاجر صباً، فیود اھل العافیۃ فی الدنیا لو انھم کانت تقرض اجسامھم بالمقاریض؛ لما یرون مما یذھب بہ اھل البلاء من الثواب، فذالک قولہ تعالیٰ ‘‘انما یوفی الصابرون اجرھم بغیر حساب’’ [الزمر:۱۰] (فقیہ ابو الیث فی التنبیہ الغافلین)
فقیہ ابو الیث سمرقندی (متوفی ۳۷۳ھ) اپنی کتاب تنبیہ الغافلین میں انس بن مالک سے مرسلا ایک حدیث روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ‘‘جب اللہ اپنے کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے یا اسے گناہوں کی آلائشوں سے صاف ستھرا کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو اس پر طرح طرح کی سخت مصیبتیں نازل فرماتا ہے۔ اور وہ بندہ (مصیبت میں) جب اللہ کو پکارتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں کہ ائے ہمارے رب! یہ تو جانی پہچانی آواز ہے۔ پھر وہ بندہ (مصیبتوں میں) روبارہ اللہ کو پکارتا ہے اور یہ کہتا ہے ائے میرے رب! (یہ سنتے ہی) اللہ فرماتا ہے: لبیک عبدی و سعدیک (اے میرے نیک بندے میں نے تیری دعا سن لی اور خوش بختی تیرا مقدر کر دیا)، تو مجھ سے جو بھی طلب کرے گا میں تیرا رب وہ عطاء کر دوں گا، یا تجھ سے کوئی شر دفع کر دوں گا یا تیرے حق میں آخرت کے لئے میں کوئی ایسی شئی ممحفوظ کر دوں گا جو تیرے لئے اس سے بھی بہتر ہو گی۔ لہٰذا جب قیامت کا دن ہو گا، نیک اعمال والے اللہ کی عدالت میں پیش کئے جائیں اور ان کے اعمال میزان عمل میں تولے جائیں گے اورلوگوں کو ان کے عمل کے مطابق پورا پورا اجر دیا جائے گا۔ نماز والوں کو ان کی نمازوں کا، روزہ والوں کو ان کے روزوں کا، صدقہ و خیرات کرنے والوں کو انفاق فی سبیل اللہ کااور حاجیوں کو ان کے حج کا اجر عطا کیا جائے گا۔
پھر ان مصیبت زدوں کو بلایا جائے گا (جنہوں نے دنیا میں صرف اللہ کی رضا کے لئے صبر کیا تھا)، ان کے سامنے نہ میزان عمل نصب کیا جائے گا اور نہ ہی ان کے اعمال نامے کھولے جائیں گے، بلکہ ان کے اوپر اس دن بلا حساب و کتاب یونہی ثواب کی بارش کی جائے گی جیسے دنیا میں ان پر مصیبتیں برسی تھیں (یہ دیکھ کر) دنیا میں امن و عافیت کے ساتھ زندگی گزارنے والے یہ خواہش کریں گے کہ کاش دنیا میں ہمارے جسم قینچیوں سے کتر دئے جاتے۔ لہٰذا، یہی مطلب ہے اللہ کے اس فرمان کا ‘‘انما یوفی الصابرون اجرھم بغیر حساب’’ [الزمر:۱۰] ترجمہ؛ ‘‘صابروں ہی کو ان کا ثواب بھرپور دیا جائے گا بے گنتی’’، کنز الایمان۔
عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ ﷺ ‘‘یا غلام او یا غلیم الااعلمک کلمات ینفعک اللہ بھن’’
قلت: بلی یا رسول اللہ، قال ﷺ: ‘‘احفظ اللہ یحفظک، احفظ اللہ تجدہ امامک، تعرف الی اللہ الرخاء یعرفک فی الشدۃ، اذ سالت فاسال اللہ، و اذا استعنت فاستعن باللہ، و قد جف القلم بما ھو کائن۔ فلو ان الخلق کلھم ارادوا ان ان ینفعوک بشئی لم یقدرہ اللہ لک، لم یقدروا علیہ۔ و ان ارادوا ان یضروک بشئی لم یکتبہ اللہ علیک، لم یقدروا علیہ۔ اعمل اللہ بالشکر و الیقین، و اعلم ان فی الصبر علی ما تکرہ خیراً کثیراً، و ان النصر مع الصبر، و ان الفرج مع الکرب، و ان مع العسر یسراً۔ (مسند احمد ، ترمذی و ابن ابی عاصم فی السنۃ۔ بحوالہ تنبیہ الغافلین)
ترجمہ: حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘‘اے بچے کیا میں تجھے ایسی باتوں کی نصیحت نہ کروں جن سے اللہ تجھے متمتع و فیض یاب فرمائے؟ میں نے کہا ہاں! یا رسول اللہ، آپ ﷺ نے فرمایا ‘‘ہر حال میں اللہ کے ذکر پر اپنا دل جمائے رکھ وہ تیری حفاظت فرمائے گا، تو اللہ کے حدود (اومر و نواہی) کی حفاظت کر اس کی مدد و نصرت ہمیشہ تیرے ساتھ ہوگی۔ تو خوشی اور کشادگی کے حال میں اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری بجا لا وہ تنگی اور عسرت کی حالت میں تجھے اپنی بھلائیوں سے نوازے گا۔ جب بھی تجھے کوئی حاجت درکار ہو صرف اللہ کی بارگاہ میں دست سوال دراز کر اور جب بھی تجھے مدد و نصرت کی ضرورت ہو تو اس کا سوال بھی تو اللہ سے ہی کر، اور اس کائنات میں جو کچھ بھی پیش آنے والا ہے قضائے الٰہی کا قلم اسے لکھ کر خشک ہو چکا ہے۔ لہٰذا اگر پوری کائنات تجھے اس نفع سے ہم کنار کرنا چاہے جو اللہ نے تیرے مقدر میں نہیں لکھا ہے تو وہ ایسا کرنے سے عاجز ہی رہے گی۔ اور اگر تمام لوگ مل کر تجھے وہ ضرر پہنچانا چاہیں جو اللہ نے تیرا مقدر ہی نہیں کیا تو وہ ایسا ہرگز نہیں کر سکتے۔ اللہ کے شکر و احسان اور یقین و اذعان کے ساتھ نیکی کے راستے پر چلتے رہو اور یہ جان رکھو کہ ناگوار اور ناپسندیدہ حالات پر صبر کرنے میں بے حساب بھلائیاں ہیں، صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ کی مدد و نصرت ہے، کشادگی اور راحت مصیبت اور تنگدستی کے ساتھ ہے اور دشواری کے بعد آسانی ہی آسانی ہے۔
قال امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ: الا الدلکم علی الفقیہ کل الفقیہ؟ قالوا: بلی یا امیر المؤمنین۔ قال: من لم یویس الناس من رَوح اللہ، ومن لم یقنط الناس من رحمۃ اللہ تعالیٰ، ومن لم یؤمن الناس من مکر اللہ، و من لم یزین للناس معاصی اللہ۔ و لا ینزل العارفین الموحدین الجنۃ، و لا ینزل العاصین المذنبین النار حتی یکون الرب ھو الذی یقضی بینھم، و لا یامنن خیر ھذہ الامۃ من عذاب اللہ، واللہ سبحانہ و تعالی یقول: ‘‘فلا یامنُ مکرَ اللہ الا القوم الخاسرون [الاعراف: ۹۹] ولا ییاس شر ھذہ المۃ من روح اللہ، اللہ عز و جل یقول: ‘‘انہ لا ییاس من روح اللہ الا القوم الکافرون’’ [یوسف:۸۷] (فقیہ ابو الیث سمرقندی (متوفی ۳۷۳ھ) تنبیہ الغافلین)
حضرت علی نے فرمایا: لوگو! کیا میں تمہیں ایک کامل فقیہ کا پتہ نہ بتا دوں؟ لوگوں نے عرض کیا: ہاں! امیر المؤمنین ہمیں ضرور اس کی رہنمائی فرمائیں۔ تو آپ نے فرمایا: ‘‘کامل فقیہ وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی نعمتوں اور راحتوں سے مایوس نہ ہونے دے اور لوگوں کو اللہ کی رحمتوں سے ناامید نہ ہونے دے، اور لوگوں کو اللہ کی اچھی تدبیر اور مخفی گرفت سے بے خوف اور بے پراواہ نہ ہونے دے، اور لوگوں کی نگاہوں میں اللہ کی نافرمانیوں کو بھلی نہ ظاہر ہونے دے۔ اور نہ اہل توحید عارفین کاملین کو جنتی بتائے اور نہ ہی خاطی و گنہگار مسلمان بندوں کو جہنمی تبائے حتیٰ کہ خود کو خدا تصور کر بیٹھے جو لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہے۔ (بلکہ) اس امت کے صالح اور نیکوکار بندوں کو بھی عذاب الٰہی کی گرفت سے ڈرائے۔ اس لئے کہ قرآن میں اللہ کا فرمان ہے: ُُفلا یامنُ مکرَ اللہ الا القوم الخاسرون [الاعراف: ۹۹]’’ ترجمہ؛ ‘‘تو اللہ کی خفی تدبیر سے نڈر نہیں ہوتے مگر تباہی والے’’، کنز الایمان ۔ اور اس امت کے انتہائی بدکار اور فاجر و فاسق شخص کو بھی اللہ کی امید سے مایوس نہ ہونے دے، اس لئے کہ اللہ کا فرمان ہے: انہ لا ییاس من روح اللہ الا القوم الکافرون’’ [یوسف:۸۷]، ترجمہ؛ ‘‘بیشک اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتے مگر کافر لوگ’’۔ کنز الایمان
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism