مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
30 ستمبر 2019
گزشتہ حصے میں ہم نے اسلام میں عورتوں کے حق مہر کے متعلق اسلامی آئیڈیالوجی اور اس کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی ۔ اب ہم اس کے چند انتہائی ضروری اور بنیادی پہلوؤں پر نظر ڈالیں گے ۔ تاکہ ہم اپنی زندگیوں میں زیادہ بہتر طریقے سے اس پر عمل کر سکیں اور اس دینی فریضے کو کما حقہ ادا کر سکیں ۔
اس ضمن میں سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مہر کی کتنی قسمیں ہیں اور اس کی ادائیگی کی صورتیں کیا کیا ہیں؟ یعنی کیا نکاح کے وقت ہی مہر ادا کرنا ضروری ہوتا ہے کہ اس کے بغیر نکاح ہی منعقد نہ ہو یا اسے ادا کرنے کی شریعت اسلامیہ میں اور بھی کچھ صورتیں ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں شریعت اسلامیہ میں مہر ادا کرنے کی مختلف صورتیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
مہر معجل
مہر مؤجل
مہر مطلق
مہر معجل وہ مہر ہے جسے نکاح کے وقت خلوت سے قبل ہی ادا کر دینا طے کر دیا گیا ہو ۔
مہر مؤجل وہ مہر ہے جسے خلوت سے قبل نہیں بلکہ زندگی میں کبھی بھی کسی ایک خاص وقت میں ادا کرنا طے کیا گیا ہو ۔ مثلاً شادی کے دو ہفتے بعد یا دو مہینے بعد یا دو سال بعد ۔
اور مہر مطلق وہ مہر ہے جسے ادا کرنے کا کوئی وقت ہی مقرر نہ کیا گیا ہو ۔
اور اس کے علاوہ مہر کی ایک اور صورت ہے کہ مہر کی مقررہ رقم میں سے کچھ معجل ہو یعنی کل رقم میں سے ایک متعین مقدار میں کچھ حصہ خلوت سے قبل ادا کرنا طے کر دیا گیا ہو اور کچھ حصہ مؤجل ہو یا مطلق ہو یعنی اس کی ادائیگی کے لئے شادی کے بعد یا تو ایک مدت متعین کر دی گئی ہو یا کوئی مدت بھی متعین نہ کی گئی ہو ۔ لہٰذا، اگر مہر معجل ہو تو دونوں صورتوں یعنی خواہ کل معجل ہو یا بعض معجل ہو اور بعض مؤجل یا مطلق ، ان دونوں صورتوں میں شریعت نے عورتوں کو یہ اختیار عطا کیا ہے کہ وہ نکاح کے بعد بھی شوہر کو جب چاہے اپنے پاس آنے سے روک دے حتی کہ شوہر اسے اس کی مہر ادا کر دے اور شوہر بیوی کو خلوت اور بوس و کنار کے لئے مجبور نہیں کر سکتا ، اگر چہ اس سے قبل محض عورت کی رضا مندی سے خلوت اور بوس و کنار ہو چکی ہو ۔ اسی طرح اس صورت میں اگر مرد اپنی بیوی کو مہر ادا کرنے سے قبل سفر پر کہیں لے جانا چاہے تو عورت مہر معجل حاصل کرنے کے لئے سفر پر جانے سے انکار بھی کر سکتی ہے ۔
فقہ حنفی کی مشہور کتاب بہار شریعت میں ہے:
’’مہرمعجل وصول کرنے کے لیے عورت اپنے کو شوہر سے روک سکتی ہے یعنییہ اختیار ہے کہ وطی و مقدمات وطی سے باز رکھے، خواہ کل معجل ہو یا بعض اور شوہر کو حلال نہیں کہ عورت کو مجبور کرے، اگرچہ اس کے پیشترعورت کیرضامندی سے وطیو خلوت ہو چکیہو یعنییہ حق عورت کو ہمیشہ حاصل ہے، جب تک وصول نہ کر لے۔ یوہیںاگر شوہر سفر میںلے جانا چاہتا ہے تو مہرِ معجل وصول کرنے کے لیے جانے سے انکار کرسکتی ہے‘‘۔ (بہار شریعت۔ مصنفہ امجد علی اعظمی، جلد ۲۔ حصہ ۷۔ صفحہ ۷۵۔ مطبوعہ مجلس المدینۃالعلمیۃ)
اسی طرح اگر زوجہ بالغ نہ ہو تو اس کے باپ یا دادا چاہیں تو مہر معجل وصول ہو جانے تک زوجہ کو رخصت نہ کریں ۔ نیز مہر معجل حاصل کرنے سے قبل نابالغہ زوجہ کو رخصت کرنے کا حق صرف اس کے باپ یا دادا کو ہی حاصل ہے اس کے علاوہ یہ اختیار کسی کو بھی حاصل نہیں ۔
بہار شریعت میں ہے:
’’زوجہ نابالغہ ہے تو اس کے باپ یا دادا کو اختیار ہے کہ مہرِ معجل لینے کے لیے رخصت نہ کریںاور زوجہ خود اپنے کو شوہر کے قبضہ میں نہیںدے سکتی اور نابالغہ کا مہرِ معجل لینے سے پہلے صرف باپ یا دادا رخصت کر سکتے ہیں، ان کے سوا اور کسی ولی کو اختیار نہیںکہ رخصت کر دے۔‘‘(بہار شریعت۔ مصنفہ امجد علی اعظمی، جلد ۲۔ حصہ ۷۔ صفحہ ۷۵۔ مطبوعہ مجلس المدینۃالعلمیۃ)
کون سی چیز مہر بننے کی صلاحیت رکھتی ہے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو چیز مال مُتقوِم ہو وہی مہر بننے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اور مال متقوم شریعت کی اصطلاح میں اس مال کو کہتے ہیں جسے جمع کیا جا سکتا ہو اور اس سے نفع اٹھانا مباح ہو ۔ لہذا نکاح میں اگر مہر یہ طے ہوا کہ آزاد شوہر ایک سال یا دو سال تک اپنی بیوی کی خدمت کرے گا یا اسے کوئی ہنر سکھائے گا ، یا اسے کوئی علم سکھاے گا یا حج و عمرہ کراے گا یا اس جیسی اور دیگر مالی یا بدنی خدمات انجام دیگا تو اس صورت میں نکاح تو ہو جائے گا لیکن شوہر کے ذمے مہر مثل واجب ہوگا ۔ بہار شریعت میں ہے:
’’جو چیز مال متقوم نہیں وہ مَہرنہیں ہو سکتی اور مہر مثل واجب ہوگا، مثلاً مہر یہ ٹھہرا کہ آزاد شوہر عورت کیسال بھر تک خدمت کرے گا یایہ کہ اسے قران مجیدیاعلم دین پڑھا دے گا یا حج و عمرہ کرا دے گا یا مسلمان مرد کا نکاح مسلمان عورت سے ہوا اور مہر میںخونیا شراب یا خنزیر کا ذکر آیایایہ کہ شوہر اپنی پہلی بیبی کو طلاق دے دے تو ان سب صورتوںمیں مہرِ مثل واجب ہوگا۔‘‘ (بہار شریعت۔ مصنفہ امجد علی اعظمی، جلد ۲۔ حصہ ۷۔ صفحہ ۶۵۔ مطبوعہ مجلس المدینۃالعلمیۃ)
مہر مثل کیا ہے؟
مہر مثل وہ مہر ہے جس کا تعین عورت کے خاندان سے اس جیسی عورتوں کے مہر کا اعتبار کر کے کیا جائے ، مثلاً اس کی سگی یا چچا زاد بہنیں یا پھوپھی وغیرہ ۔
بہار شریعت میں ہے:
’’عورت کے خاندان کیاس جیسی عورت کا جو مہر ہو، وہ اس کے لیے مہرِ مثل ہے، مثلاً اس کیبہن، پھوپی، چچا کیبیٹی وغیرہا کا مہر۔ اس کیماںکا مہر اس کے لیے مہر مثل نہیںجبکہ وہ دوسرے گھرانے کیہو اور اگر اس کیماںاسی خاندان کیہو، مثلاً اس کے باپ کیچچا زاد بہن ہے تو اس کا مہر اس کے لیے مہر مثل ہے ۔‘‘(بہار شریعت۔ مصنفہ امجد علی اعظمی، جلد ۲۔ حصہ ۷۔ صفحہ ۷۱۔ مطبوعہ مجلس المدینۃالعلمیۃ)
URL for Part-1: https://www.newageislam.com/urdu-section/obligatory-dower-its-significance-islamic-part-1/d/119787
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism