مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
12/01/2017
اللہ نے جب انسان کو پیدا کرنے کا فیصلہ کیا تو فرشتوں کو اپنی بارگاہ میں طلب کیا اور ان سے فرمایا "انی جاعل فی الارض خلیفہ" میں زمین پر اپنا خلیفہ اور نائب پیدا کرنے والا ہوں اور پھر اللہ نے حضرت آدم علی نبینا علیہ الصلوۃ و التسلیم کا جسد خاکی تیار کر کے اس میں اپنی روح پھونکی اور جب حضرت آدم علیہ السلام میں زندگی کی بہار دوڑنے لگی تو اللہ نے ان کو تاج کرامت سے نوازا اور فرشتوں کو ان کے سامنے سجدہ تعظیمی کا حکم دیا جو کہ آدمیت کی سب سے پہلی معراج تھی۔ اور اس کے بعد اللہ نے آدم علیہ السلام کو جنت میں رہائش عطا کی۔ پھر مشیت الٰہی کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر ایک محدود مدت کے لیے اتارا گیا۔
معزز قارئین!تخلیقِ انسانیت کی اس مختصر روداد کو بیان کرنے کا مقصد چند بُھولی بِسری یادوں کو آپ کے ذہن میں پھر سے تازہ کرنا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اس دنیا کے اندر ایک بچے کی شکل میں ہماری پیدائش ہماری حیات کا آغاز نہیں ہے، اور نہ ہی ماں کی ممتا بھری گرم گود ہماری پہلی تربیت گاہ ہے۔ بلکہ اس دنیا میں پیدائش سے کڑوروں برس پہلے ہماری زندگی کا آغاز ہو چکا ہے جہاں ہم موجود تھے، کلام کرتے تھے، ایک دوسرے کو پہچانتے تھے، سوالوں کے جواب دیتے تھےاور عہد بھی کرتے تھے۔ اور جب اس زندگی کی شام ہو جائے گی، ہماری سانسوں کی گنتیاں ختم ہو جائیں گیں، موت کا فرشتہ ہمارے اوپر اپنا شکنجہ کس لے گا اور جب ہمارے وہی اعزاء و اقرباء جو ہماری محبت کا دم بھرتے ہیں اور ہماری وہی اولادیں جن کی زندگیوں کو پرتعیش بنانے میں اور جنہیں ہر قسم کی سہولیات اور تمام طرح کی نعمتوں سے آراستہ کرنے کی دھن میں ہم وہ سب کر گزرتے ہیں جو ہمیں نہیں کرنا چاہیے، آبادی کےباہر ایک شہر خموشاں میں لے جا کر ہمیشہ کے لیے آباد کر دیں گی۔
اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہاں بھی ہمارا خاتمہ نہیں ہو گا بلکہ ہم پہلی زندگی کی ہی طرح دیکھیں گے، سنیں گے، سوالوں کے جواب دیں گے اور ایک دوسرے سے ملاقات بھی کریں گے۔اور ہمارییہ دنیاوی زندگی جو ہم عالم ارواح اور عالم برزخ کے درمیان گزار رہے ہیں ہمارے سفر کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ اگر ہمارے اوپر عالم ارواح اور عالم برزخ کی حقیقت عیاں کر دی جائے تو ہمیںیہ معلوم ہو گا کہ اس دنیا میں ہماری زندگی ایک انتہائی محدو نقطے کی مانند ہے۔ لیکن انسان کتنا غافل ہو چکا ہے کہ چند دنوں کی اس ناپائدار زندگی کی رنگینیوں میں گم ہو کر رہ گیا ہے اور اس بات کو فراموش کر چکا ہے کہ جیسے جیسے اس کی عمر کی گنتیاں بڑھ رہی ہیں ویسے ویسے وہ موت کے قریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔
قرآن میں اللہ کا فرمان بڑا وضح ہے: "الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیاةَ لِیبْلُوَکُمْ أَیکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا" جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا اور اس کی آسائشیں ہمارے لیے آزمائش کا سامان ہیں اور ہم سب ایک امتحان گاہ میں موجود ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ نے ہمیں اس امتحان گاہ میں بغیر کسی تیاری کے تہی دامن بھیج دیا ہے۔ بلکہ اس کی شان کریمی ہے کہ اس نے ہمیں اس امتحان میں کامیابی کامرانی سے ہمکنار کرنے کے لیے قرآن کی شکل میں رشد و ہدایت کا روشن سرچشمہ بھی عطا کیا ہے۔ جو یہ صدائیں بلند کر رہا ہے کہ:
"يَا قَوْمِ إِنَّمَا هَٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ"
قرآن کی زبان میں اللہ جل شانہ کی یہ صدائیں بلند ہو رہی ہیں کہ ائے کارو بارِ دنیا میں سکون تلاش کرنے والوں، بے چین طبعیتوں کو قرار فراہم کرنے کے لیے پوری دنیا میں مار مارے پھرنے والوں، مضطرب روحوں اور تڑپتی ہوئی طبعیتوں کے سکون کے لیے جنگلوں، صحراؤں اور بیابانوں میں سکون اور قرار تلاش کرنے والوں میں نے اس دنیا کو قرار کی جگہ ہی نہیں بنایا تمہیں قرار کہاں سے نصیب ہو، میں نے اس دنیا میں راحت ہی نہیں رکھی تمہیں سکون کہاں سے ملے یہ دنیا حقیقی اطمینان کی جگہ ہی نہیں تمہارا اضطراب ختم کیوں کر ہو۔ اگر قرار چاہتے ہو تو اس دنیا کی حرص و ہوس اور زیب و زینت کو ترک کرو اور مکمل طور پر قلب و باطن کے ساتھ اپنی لَو میری طرف لگاؤ اس لیے کہ قرار کا چشمہ آخرت ہے۔ تم آخرت کی فکر کرو تمہیں سکون نصیب ہو گا۔ پھر تمہیں اس دنیا میں سکون کی نیند آئے گی اور تمہاری مضطرب روحوں کو اطمینان بھی ملے گا۔
ایک لطیف نکتہ
جب بات دنیا کی چل پڑی ہے تو میں ایک نکتے کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔ کیا آپ نے کبھی لفظ "دنیا" پر غور کیا ہے؟ لفظ "دنیا" ایک عربی لفظ ہے۔ اس کا مادہ (Root word) دنی ہے، جس کا معنیٰ ہے گھٹیا ہونا۔ جب کسی کے بارے میں کہنا ہو کہ یہ شخص کمینہ ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ بڑا "دَنی" انسان ہے، اور عربی زبان میں کمینگی کو دناءۃ کہا جاتاہے۔ اور کمینی اور گھٹیا شئی کو "دُنیا" کہا جاتا ہے۔ لہٰذا، اب اندازہ لگائیں کہ جب یہ دنیا خود کمینی اور گھٹیا شئی ہے تو جو اس کا طالب ہو گا اس کا کیا حال ہوگا؟
اگر ہم اس توضیح پر ذرا بھی غور کریں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ ہم نے عزت و ذلت اور راحت وسکون کے پیمانے بدل ڈالے ہیں۔ ہم نے رب قدیر کی باتوں پر یقین کرنا چھوڑ دیا ہے۔ جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی شکل میں ایک انقلاب آفریں نظام حیات پیش کیا تو کفار و مشرکینِ عرب نے کہا تھا کہ یہ رسول تمہیں قرآن اور وحی کی شکل میں جو تعلیم دیتا ہے اس کی باتیں نہ سنو اس لیے کہ یہ محض قصے اور کہانیاں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ زبان سے کہہ دیا کرتے تھے اور ہم زبان سے نہیں کہتے لیکن ان تعلیمات کو سمجھتے قصے اور کہانیاں ہی ہیں۔ کیوں کہ اگر اللہ و رسول کی ان تعلیمات پر ہمارا ایمان ہوتا تو ہمارے احوال بدل گئے ہوتے اور ہمارے دل کی کیفیتیں بدل گئی ہوتیں۔
آقا علیہ السلام نے صحابہ کرام کی جماعت سے فرمایا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں انہیں اگر تم جان جاؤ تو اس ذات وحدہ لا شریک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! تم روتے چلاتے اور کپڑے پھاڑتے ہوئے جنگلوں کی طرف بھاگ جاؤ۔ تمہاتے چہروں سے مسکراہٹیں چھن جائیں اور تمہاری راتوں کی نیند غائب ہو جائے اور تمہاری پوری زندگی رونے میں گزرے۔ چونکہ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ مرنے کے بعد کیا ہونے والا ہے اسی لیے ہم بے پرواہ ہیں۔ ہم نے فکر آخرت سے خود کو غافل رکھا ہے اسی لیے دنیا نے ہمیں بے ایمان کر دیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں لوگ پُر سکون نیند اس لیے سوتے ہیں کیوں کہ ان کی آنکھیں ابھی بند ہیں، جب مریں گے تو ان کی آنکھیں کھل جائیں گی۔ اس لیے کہ ہم میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو اس دنیا کی مال و دولت کی خاطراور صرف چار دن کی دنیا سنوارنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں، بد دیانتی کرتے ہیں، چوری کرتے ہیں، استحصال کرتے ہیں، ملاوٹ کرتے ہیں، اپنی قبر کو دوزخ کی آگ سے بھرتے ہیں اور اپنی آخرت برباد کرتے ہیں۔
اللہ نے فرمایا:
"اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ"
(جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا ہے اور ظاہری آرائش ہے اور آپس میں فخر اور خود ستائی ہے اور ایک دوسرے پر مال و اولاد میں زیادتی کی طلب ہے۔)
سورہ الحدید میں اللہ رب العزت نے واضح طور پر یہ بیان کر دیا کہ دنیا پانچ چیزوں کا نام ہے۔ اور اس سے بہتر دنیا کی تعریف کوئی نہیں کر سکتا۔ اللہ نے فرمایا کہ دنیا پانچ چیزوں سے عبارت ہے: 1) "لعب" دنیا کھیل ہے۔ 2) "لھو" دنیا ایک تماشاہے۔ 3) "و زینۃ" دنیا ایک سجاوٹ اور آرائش ہے جو دلوں کو لبھاتی ہے اور حقیقت کو چھپاتی ہے۔ 4) "و تفاخر بینکم" دنیا ایک دوسرے پر بڑائی ظاہر کرنے اور فخر، تکبر، گھمنڈ اور مباہات کا نام ہے۔ 5) "وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ" دنیا مال و دولت اور اولاد کی کثرت کا نام ہے کہ میرا خاندان اور حسب و نسب اتنا اعلیٰ ہے اور میں اتنی دولت و جائداد کا مالک ہوں۔
پھر اللہ نے ایک اور مقام پر فرمایا:
"أَلْهَاكُمُ الَّكَاثُرُ۔ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ"۔
(تمہیں کثرتِ مال کی ہوس اور فخر نے (آخرت سے) غافل کر دیا۔ یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے۔)
اللہ نے فرمایا کہ لوگوں! مال و دولت کا انبار جمع کرنے کی لالچ نے تمہیں ہلاک کر دیا اور اسی ہلاکت کے عالم میں تم اپنی قبروں تک جا پہونچے۔ آج ہم دین سے دور ہو کر دنیا داری کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ ابھی تو ہمارے پاس بہت وقت ہے۔ ہمارے نوجوان دوست یہ کہتے ہیں کہ ابھی تو بہت مہلت ہے، آخری عمر آئے گی تو میں سنبھل جاؤں گا اور اپنے گناہوں سے توبہ کر کے عبادتوں میں لگ جاؤں گا۔ مہلت اور وقت کے فریب میں آخری عمر کا انتظار کرنے والوں کو اللہ نے جواب دیا اور فرمایا کہ تمہیں کیاخبر تمہارے پاس مہلت ہے یا نہیں تم اسی فریب میں مبتلاء رہو گے یہاں تک کہ قبر کی شام آ پہونچے گی اور موت کا نقارہ بج جائے گا۔ بلکہ ہمارا تو حال یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ کل کا دن میری زندگی میں یقینی ہے یا آنے والا پورا سال میری زندگی میں یقینی ہے۔ ہمیں تو ایک پل کی بھی خبر نہیں۔ اگر کسی کو یہ معلوم ہو جائے اور اس بات کا یقین ہو جائے کہ میرے پیچھے ایک شیر ہے جو اب مجھ پر حملہ کرنے والا ہے تو وہ ہر گز اپنی موت سے غافل نہیں رہ سکتا اور اسے ہرگز آرام کی نیند نہیں آ سکتی۔ کیا اب ہمارا موت پر اتنا بھی یقین نہ رہا کہ ہم گناہوں کے راستے سے ہٹ جاتے اور اللہ و رسول کی نا فرمانیوں سے باز آ جاتے؟
"اقتربۃ اساعۃ" آقا علیہ السلام نے چودہ سو سال پہلے اپنی حیات مبارکہ میں ہی یہ اعلان فرما دیا تھا کہ لوگو قیامت آ گئی اور ہمیں اس کی کوئی فکر ہی نہیں اور ہم بدستور حرض و ہوسِ دنیا میں اسی طرح پڑے ہوئے ہیں۔ کہیں ہم ان لوگوں کی صفوں میں تو شامل نہیں ہو گئے کہ جن کے باری میں اللہ کا فرمان ہے :"ان الذین لا یرجون لقاءنا"۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہم سے ملاقات کی خواہش نہیں رکھتے۔ "و رضو بالحیاۃ الدنیا" ۔ وہ ہم سے ملاقات کی خواہش اس لیے نہیں رکھتے کیوں کہ وہ دنیا کی زندگی سے راضی ہو گئے ہیں۔
حضرت ابو سعید خذری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "لوگوں میں صرف ایک ہی بات کا خوف ہے کہ میرے بعد میری امت کا کیا ہوگا۔ آپ نے فرمایا "میری امت پر اس دنیا کی زیب و زینت اور آرائش و زیبائش کھول دی جائے گی اور میری امت دنیا کی اس فریب کا شکار ہو جائے گی۔ اور پھر آپ نے فرمایا"اتقوا الدنیا"، اے میری امت کے لوگوں! اس دنیا کی رنگینیوں سے اپنے دامن کو بچا کر رکھنا۔ اس دنیا کی محبت سے اپنے دلوں کو محفوظ رکھنا۔ اور اپنے دلوں کو اس دنیا کی حرض و ہوس سے پاک رکھنا۔
معزز قارئین! کیا آج ہمارے حالات وہ نہیں ہیں جن سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچنے کی تاکید کی تھی؟ ہمارا تو حال یہ ہے کہ ہم نے اپنے دلوں کو بت کدہ بنا رکھا ہے۔ میری باتیں کچھ تلخ ہیں لیکن حقیقت پر مبنی ہیں۔ اس لیے کہ اگر ہم اپنے دلوں کے احوال پر نظر ڈالیں تو ہمیں اس بات کا احساس ہو گا کہ ہمارے دل طرح طرح کے بتوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ اس میں غرور و تکبر کا بت ہے، حرص و ہوسِ دنیا کا بت ہے، جھوٹی شان و شوکت کا بت ہے، جھوٹے جاہ و حشمت کا بت ہے، منافت اور ریاکاری کا بت ہے، اور ان سب کے اوپر سب سے بڑا بت "انا" کا ہے جو دل کو اللہ کی طرف متوجہ ہونے نہیں دیتا۔ اگر وقت رہتے ہم نے اپنے اندر موجود ان بتوں کو پاش پاش نہ کیا تو ہمیں عذاب الٰہی کا انتظار کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ اگر ہمارے حالات یہی رہے تو آخرت میں ہمارا انجام ذلت و رسوائی کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا۔
معزز قارئین! ہماری ان تمام باتوں کا ما حصل صرف یہ ہے کہ ہمارے احوال درست ہو جائیں۔ اس لیے کہ اگر ہمارے احوال بدل گئے، اگر ہم نے اپنی زندگیوں کی ترجیحات بدل دئے، اگر ہم نے اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں سے نجات حاصل کر لی تو ہمارے اصلاحِ احوال کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عزت و کامیابی پھر سے ہمارے قدم چومے گی اور دنیا و آخرت کی سرخروئی اور سربلندی پھر سے ہمارا مقدر بن جائے گی۔
کیا ہوا اگر ہمارے گناہوں کی کوئی انتہا نہیں۔ کیا ہوا اگر ہمارے اعمال کے دفتر گناہوں سے بھرے پڑے ہیں۔ اسلام میں مایوسی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہمارا نبی مایوسیوں کا نہیں بلکہ امیدوں کا چراغ لے کر اس دنیا میں آیا ہے۔ اور اسی نبی نے ہم گنہگاروں کو یہ خوش خبری دی ہے کہ "التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ (گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے گویا کہ اس نے کناہ کیا ہی نہ ہو)"۔ اگر تمہاری پوری زندگی گناہوں میں ڈوبی ہو اور تمہیں زندگی رہتے اس بات کا احساس ہو جائے تو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، بلکہ تو اللہ کی بارگاہ میں جھک جا اور صدق دل سے اس کی بارگاہ میں توبہ کر لے، تیرے سارے گناہ مٹا دیے جائیں گے اور تو اس طرح پاک کر دیا جائے جیسے تو نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/obedience-almighty-god-leads-salvation/d/109713
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism
,