New Age Islam
Mon Mar 17 2025, 07:26 AM

Urdu Section ( 26 Oct 2016, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Negative Effects of bad Company بری صحبت کے برے اثرات اور غلط نتائج

مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام

(قسط :5)

اچھی بری صحبت

صحبت کا اثر انسان کی شخصیت پر ہوتا ہے۔ جس بچے کی پرورش اچھے ماحول اور اچھے گھرانے میں ہوتی ہےوہ بڑا ہو کر نیک، مہذب اور خوش اخلاق بنتا ہے۔ اور جو برے لوگوں کی سنگت کا شکارہو جائے وہ اپنی زندگی کے لیے غلط راستہ اختیار کر لیتا ہے۔ اور دھیرے دھیرے ہر قسم کی برائیاں اور بد کاریاں اس کی فطرت میں شامل ہوتی چلی جاتی ہیں۔ جو شرابیوں کی صحبت اختیار کرتا ہے وہ نشے کا عادی ہو جاتا ہے اور دھیرے دھیرے نشہ کرنے کی اس کی یہ عادت اس کی ضرورت بن جاتی ہے اور وہ اپنی اس ضرورت کو پوری کرنے میں اپنی ساری کمائی اور ساری دولت لٹا دیتا ہے۔ ہم صبح و شام دیکھتے ہیں کہ جس گھر میں کوئی ایک بھی شرابی ہے اس گھر کا حال کیا ہوتا، اس گھر سے اللہ کی رحمت روٹھ کر چلی جاتی ہے، آپسی لڑائی، جھگڑے، نا اتفاقی اور بد کلامی اس گھر میں داخل ہو جاتی ہے، بچے غیر تعلیم یافتہ رہ جاتے ہیں، اس گھر کے افراد، بچے اور عورتیں زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہو جاتی ہیں، یہاں تک اگر ضروریات اور بڑھ جائیں تو گھر کے چھوٹے بچے اور پردہ نشین خواتین محنت و مزدوری کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں، اور مرد شراب کے نشے میں ڈوبے ہوئے کسی چوراہے یا گھر کے کسی کونے میں پڑے رہتے ہیں۔ اور اس طرح رفتہ رفتہ پورا گھر اور خاندان تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔

لہٰذا، معلوم ہو کہ انسان جیسی صحبت اور سنگت اختیار کرتا ہے اسی کی زندگی اس رخ پر چل پڑتی ہے۔ اگر صحبت نیکوں کی ہو تو انسان کی زندگی نیکی اور بھلائی میں گزرتی ہے اور بدقسمتی سے کسی نے اگر برے اور بدکار لوگوں کی صحبت اختیار کر لی تو اس کی پوری زندگی ایک غلط راستے پر چل پڑتی ہے۔ اسی لیے مذہب اسلام نے اچھے اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے اور برے اور بدکار لوگوں کی صحبت سے دور رہنے کا حکم تاکید کے ساتھ دیا ہے۔ لہٰذا ، والدین کے لیے ضروری اور لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کی پرورش اچھے ماحول میں کریں اور اپنے بچوں کو بری صحبت سے دور رکھنے کی پوری کوشش کریں۔

اب ہم اس سلسلے میں قرآن مقدس اور احادیث کریمہ کا مطالعہ کرتے ہیں تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ نیکوں کی صحبت اختیار کرنے اور برے لوگوں کی صحبت سے دور رہنے کی کتنی اہمیت اور ضرورت ہے۔

قرآن میں اﷲ رب العزت کا فرمان ہے:

              (18:28)

ترجمہ:

اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں۔

              ۔

ترجمہ:

 یعنی اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو، اور راست بازوں کی معیت اختیار کرو ۔ (9:119)

              ﴿5:57 ﴾

ترجمہ:

اے ایمان والو! ایسے لوگوں مںإ سے جنہں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی، ان کو جو تمہارے دین کو ہنسی اور کھلم بنائے ہوئے ہںا اور کافروں کو دوست مت بناؤ، اور اﷲ سے ڈرتے رہو بشرطکہا تم (واقعی) صاحبِ ایمان ہو ۔

              ۔ (58:22)

ترجمہ:

آپ اُن لوگوں کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہںَ کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائں گے جو اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علہو وآلہ وسلم) سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بٹے (اور پوتے) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قرییی رشتہ دار ہوں۔

              ۔ (60:1)

ترجمہ:

اے ایمان والو! تم مر ے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ ۔

              ﴿5:55 ﴾

ترجمہ:

بیشک تمہارا (مددگار) دوست تو اﷲ اور اس کا رسول (صلی اللہ علہ) وآلہ وسلم) ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم رکھتے ہںی اور زکوٰۃ ادا کرتے ہںْ اور وہ (اﷲ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہںص۔

              ۔ (43:67)

ترجمہ:

سارے دوست و احباب اُس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے پرہزِگاروں کے (انہی کی دوستی اور ولایت کام آئے گی۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

ابوموسی رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھے اور برے ساتھی کی مثال اس شخص کی سی ہے جو مشک لئے ہوئے ہے اور بھٹی دھونکنے والا ہے، مشک والا یا تو تمہیں کچھ دیدے گا یا تم اس سے خرید لوگے یا اس کی خوشبو تم سونگھ لوگے(یعنی ہر صورت فائدہ ہی فائدہ ہے ) اور بھٹی والا یا تو تمہارے کپڑے جلادے گا یا تمہیں اس کی بدبو پہنچے گی [یعنی ہر صورت میں نقصان ہی نقصان ہے ]۔ (صحیح بخاری ، صحیح مسلم )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا:اعمال میں جلدی کرلو اندھیری رات کی طرح فتنوں کے آنے سے پہلے پہلے ،آدمی صبح کو مومن ہوگا اور شام کو کافر ،اور شام کو مومن ہوگا اور صبح کوکافر ، آدمی اپنے دین کو دنیا کے فائدے کے بدلے بیچ دے گا ۔ (صحیح مسلم ، ترمذی ،مسند احمد ، المعجم الاوسط ، صحیح ابن حبان ،مسند ابی یعلی )

اسی طرح ایک نیک مومن انسان کی صحبت کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی قابل غور ہے:

لَا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا، وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوائے مومن آدمی کے کسی کی صحبت مت اختیار کر، اور تیرا کھانا سوائے پرہیزگار کے کوئی نہ کھائے۔(سنن ابوداؤد ، ترمذی )

الرجل علیٰ دین خلیلہ فلینظر احدکم من یخالل۔

یعنی آدمی اپنے دوست کے دین اور اس کی روش پر ہوتا ہے،پس تم میں سے ہر ایک شخص کو یہ ضرور دیکھنا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔ (ابو داؤد)

حضرت ابو رزین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: کیا میں تمہیں اس دین کی اساس اور اس کی روح سے واقف نہ کرا دوں کہ جس کے ذریعے تم دنیا و آخرت کی بھلائی حاصل کر سکو؟ ذکر الٰہی میں مشغول رہنے والوں کی مجلس اختیارکرو اور جب خلوت میسر ہو تو جتنا ہو سکے ذکر الٰہی سے اپنی زبان کو تر رکھو،اور صرف اللہ ہی کے لئے کسی سے محبت کرو اور اللہ ہی کے لئے کسی سے بغض بھی رکھو۔

امام غز الی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ برے دوست کی سنگت اور صحبت انسان کیلئے سانپ اور شیطان سے زیادہ نقصان دہ ہے اس لئے کہ شیطان صرف انسان کے اندر وسوسے ڈالتا ہے اور بہکانے کی کوشش کرتا ہے لیکن ایک بدکار دوست انسان کو برائی کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ صرف ہماری صحبت اور اٹھنا بیٹھنا برے لوگوں کے ساتھ لیکن میں برا نہیں ہوں اور ان کے اندر جو اخلاقی برائیاں اور خرابیاں ہیں میں ان سے پاک و صاف ہوں ، یہ کہہ وہ خوش ہوتے ہیں اور عافیت کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ایسے لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس میں بھی کوئی عافیت نہیں ہے بلکہ اس میں بھی نقصان اپنا ہی ہے۔

ایک حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں:

ایک صحابی مالک بن دخشن رضی اللہ عنہ کو بعض صحابہ منافق سمجھتے تھے اور پھر خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گواہی دی کہ یہ منافق نہیں بلکہ سچے صحابی ہیں ۔(صحیح بخاری ،صحیح مسلم )

شارحین حدیث نے اس کی وضاحت کی ہے کہ مالک بن دخشن رضی اللہ عنہ کو صحابہ کرام منافق کیوں سمجھےہ تھے، شارحین لکھتےہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض منافقین کے ساتھ اس کی ملاقات کا سلسلہ تھا اسی وجہ سے بعض صحابہ انہیں منافق سمجھنے لگے تھے۔

اب ذرا اندازہ لگائیں کہ اگر منافقین کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور ملنے جلنے کی وجہ سے مالک بن دخشن رضی اللہ عنہ جیسے ایک ایسے بدری صحابیٔ رسول کی بھی شخصیت بعض صحابہ کی نگاہ میں مشکوک ہو سکتی ہے جن کے ایمان میں ذرا برابر بھی شک ہمارے ایمان کے لئے نقصان دہ ہے ۔ تو بھی ہماری کیا حیثیت ہے۔ غلظ لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی وجہ سے لوگ ہماری شخصیت کو کیوں داغدار نہیں کر سکتے۔ اس واقعے سے آج ایسے نادانوں کو سبق حاصل کرنا چاہئے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم جن کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں وہ غلط ہیں اور ہم بالکل ٹھیک ہیں۔

اسی لئے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا ہے انسان اپنے دوست اور اپنے ہم نشین کی روش پر ہوتا ہے لہذا، تم میں سے ہر ایک کو یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی کررہا ہے ۔ ( ابوداؤد ، ترمذی) ۔

حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کثرت کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرنے والوں کی صحبت اختیار کرو اس لئے کہ ان کے دل بہت نرم ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب تم ان کی صحبت اختیار کرو گے تو ان کی صحبت کی برکت سے تمہارے دل بھی نرم ہوجائیں گے ۔

اسی لئے کہا گیا ہے کہ …

صحبت صالح ترا صالح کند ، صحبت طالح تراطالح کند …

URL: https://newageislam.com/urdu-section/negative-effects-bad-company-/d/108918

New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Womens in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Womens In Arab, Islamphobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism,

 

Loading..

Loading..