مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
25 مارچ 2017
واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذان روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
معزز قارئین! یہ کسے معلوم نہیں کہ آج امت پر ابتلاء و آزمائش کے مہیب سائے دراز ہوتے چلے جا رہے ہیں، کبھی ہمارا کردار لوگوں کو نشان حیات فراہم کرتا تھا اور آج ہمارا کردار دیکھ کر غیر تو غیر خود سادہ لوح مسلمان بھی دین سے بد ظن ہوتے جا رہے ہیں۔
شاید اسی حالت زار سے باخبر کرنے کے لئے اقبال نے کہا تھا:
بوئے گل لے گئی بيرون چمن راز چمن
کيا قيامت ہے کہ خود پھول ہيں غماز چمن
عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گيا ساز چمن
اڑ گئے ڈاليوں سے زمزمہ پرواز چمن
اور اس کی وجہ اقبال نے یہ متعین کی کہ:
وادی نجد ميں وہ شور سلاسل نہ رہا
قيس ديوانہ نظارہ محمل نہ رہا
حوصلے وہ نہ رہے ، ہم نہ رہے ، دل نہ رہا
گھر يہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا
عشق کو ، عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا
رسم سلمان و اويس قرنی کو چھوڑا
سوامی لکشمن پرشاد جب پیغمبر اسلام کی سیرت پر ایک شاندار شاہکار ‘‘عرب کا چاند’’ نامی ایک کتاب لکھ کر فارغ ہوا تو اس سے کسی نے پوچھا کہ تونے پیغمبر اسلام کی حیات پر ایک شاندار کتاب تصنیف کی ہے، اور جس انداز میں تو نے اپنی اس کتاب میں مسلمانوں کے پیغمبر کی شان میں اپنی عقیدتوں کی بساط بچھائی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تیرے دل میں مسلمانوں کے پیغمبر کے لیے بے انتہاء محبت ہے، لہٰذا، تو کلمہ توحید پڑھ کر مسلمان کیوں نہیں ہو جاتا؟ لہٰذا، اس کے جواب میں لکشمن پرشاد نے جو کہا وہ ہمارے منہ پر ایک ایسا زناٹے دار طمانچہ ہے کہ اگر ضمیر زندہ ہو تو صدیوں تک اس کی کسک دل سے نہ مٹے۔ اس نے برجستہ کہا کہ میں جب پیغمبر اسلام کی سیرت لکھنے بیٹھا تو اس کے لیے میں نے تاریخ و سیر میں امہات الکتب کا مطالعہ بھی کیا، اور جب میں نے ان کتابوں میں آپ ﷺ کی زندگی کے روشن باب اور آپ کے اخلاق و کردار کے چمکتے ہوئے گوشے دیکھے تو میرے دل میں بھی یہ جذبہ موجزن ہوا کہ اب بلا تاخیر مجھے بھی ان کے شیدائیوں میں شامل ہو جانا چاہیے لیکن جب میں نے اس حوالے سے مسلمانوں کے کردار کو دیکھا تو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہو گیا کہ میں ہندو ہی ٹھیک ہوں۔
اسی لیے اقبال نے کہا کہ:
بت صنم خانوں ميں کہتے ہيں ، مسلمان گئے
ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
منزل دہر سے اونٹوں کے حدی خوان گئے
اپنی بغلوں ميں دبائے ہوئے قرآن گئے
خندہ زن کفر ہے ، احساس تجھے ہے کہ نہیں
اپنی توحيد کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں
آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ اگر عالم اسلام میں یا دنیا کے دیگر گوشوں میں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم کی داستانیں رقم کی جاتی ہیں تو ہمارے علماء اور ائمہ مسجدوں کے ممبر پر اور ہم گلیوں اور چوراہوں پر پوری قوت کے ساتھ اسلام کی عظمت رفتہ کی قسمیں کھاتے ہیں، اپنے اسلاف کی جرأت و بہادری اور جوانمردی کی داستانیں بیان کرتے ہیں ، دنیا کے مختلف حصوں میں بے قصور انسانوں کو مشق ستم بنانے والے عالمی رہنماؤں اور ان کی پالسیوں کی جم کر مذمت کرتے ہیں، اور شعلہ بیان اور ولولہ انگیز تقریروں کا ایک ایسا سماں باندھ دیتے ہیں کہ گویا ابھی اٹھیں گے اور مسلمانوں پر مختلف حیلوں اور بہانوں سے ظلم کے پہاڑ ڈھانے والی حکومتوں اور ان کے رہنماؤں کو خاک میں ملا دیں گے۔
میں اس کے خلاف نہیں ہوں کہ ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کی جائے اور نہ ہی میں اس کی حمایت کرتا ہوں کہ ہمیں اپنے اسلاف کی جرأت و بہادری اور جوانمردی کی داستانیں فراموش کر دینی چاہیے، بلکہ میں صرف اس بات کی طرف امت کے زعماء اور مذہبی قائدین کی توجہات ملتفط کرنا چاہتا ہوں کہ ہم خوش فہمی کا بازار گرم کرنے کے بجائے خود احتسابی کو اپنا شعار زندگی کیوں نہیں بناتے ؟ جب ایک خدا، ایک نبی، ایک قرآن اور ایک کعبہ کو ماننے ولی قوم کے اندر اختلاف و انتشار کا عالم یہ ہو کہ فقہی اور مسلکی بنیاد پر اختلاف کی تو بات ہی چھوڑ دی جائے، متعدد خانوادوں اور پیرانِ عظام سے عقیدت و محبت کے نام پر اس قدر بٹی ہوئی ہے کہ ایک دوسرے کو سلام کرنے کے لیے بھی روادار نہیں ہے ، بلکہ ہماری آپسی نفرتوں کاعالم یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو مسلمان بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور جب ایک دوسرے کے خلاف ہماری زبان کھلتی ہے تو گمراہیت اور کفر و الحاد کی حد تک چلی جاتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف دنیا کھلی آنکھوں سے یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ کس طرح مسلمان فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہیں۔
منفعت ایک ہے اِس قوم کی ، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی ، اللہ بھی ، قُرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مُسلمان بھی ایک؟
فرقہ بندی ہے کہیں ، اور کہیں ذاتیں ہیں!
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟ (اقبال)
آج پوری دنیا میں مسلمانوں کے پاس کوئی ایسی قیادت نہیں ہے جس کی آواز پر مسلمان متحد ہو اور نہ ہی پوری دنیا کے مسلمان کوئی ایک بھی ایسا نقطہ اتحاد تسلیم کرنے کی پوزیشن میں ہیں جس پر ایک کلمہ اور ایک کعبہ کے نام پر انہیں جمع کیا جا سکے۔ اور ہماری اخلاقی پستی کا عالم یہ ہے ہماری مسجدوں کے باہر لگے واٹر کولر (water cooler) کے گلاس اور بیت الخلاء (toilet) کے لوٹے زنجیروں سے بندھے ہوتے ہیں کہ کوئی لیکر فرار نہ ہو جائے۔ جس قوم کے اندر نفرت اور اختلاف کے جذبات اس قدر جوان ہو چکے ہوں اور اخلاقی طور پر جو قوم اتنی گر چکی ہو وہ کس بنیاد پر آج ان سے ٹکرانے کا دعوہ کرتی ہے جن کا شمار آج دنیا کے سپر پاور (super power) اور ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے اور جو اخلاقی طور پر بھی ہم سے بہت بلند ہیں؟
اقبال نے کہا تھا:
تھا جو مسجودِ ملائک یہ وہی آدم ہے ؟
عالمِ کف ہے دانائے رموزِکم ہے
لطف مرنے ميں ہے باقی ، نہ مزا جينے ميں
کچھ مزا ہے تو يہی خون جگر پينے ميں
اس گلستاں ميں مگر ديکھنے والے ہی نہيں
داغ جو سينے ميں رکھتے ہوں ، وہ لالے ہی نہيں
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟
قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمّد کا تمہیں پاس نہیں
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/muslims-need-reclaim-their-spiritual-7/d/110538
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism