مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
19 مارچ 2017
زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرار حیات
یہ کبھی گوہر ، کبھی شبنم ، کبھی آنسو ہوا (اقبال)
حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور میں عراق کے گورنر نے حضرت عمر بن عبد العزیز کو یہ پیغام بھیجا کہ یہاں زکوٰۃ کی رقم اتنی زیادہ جمع ہو چکی ہے کہ ہمیں یہ فیصلہ کرنے میں دشواری آ رہی ہے کہ اس رقم کا کیا جائے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے اسے جواب دیا کہ وہ رقم لے کر یہاں نہ آنا، بلکہ اس رقم کو عراق میں ہی مستحقین زکوٰۃ کے درمیان تقسیم کر دو۔ اس کے جواب میں گورنر نے لکھا کہ تمام مستحقین زکوٰۃ کو رقم دیدی گئی ہے اور اب یہاں کوئی مستحق زکوٰۃ نہیں بچا، تو آپ نے جواب دیا کہ جو مقروض ہیں اس رقم سے ان کا قرض ادا کر دو، تو گورنر نے لکھا کہ قرض بھی ادا کر دیا گیا ہے پھر بھی رقم بچ رہی ہے اب کیا کیا جائے؟ اس پر حضرت عمر بن عبد العزیز نے جواب دیا کہ جو لوگ شادی کرنے والے ہیں اس رقم سے ان کا حق مہر ادا کر دو، گورنر نے جواب دیا کہ شادی کرنے والوں کا حق مہر بھی ادا کر دیا گیا ہے لیکن پھر بھی رقم بچتی ہے اب اس کا کیا کیا جائے؟ تو حضرت عمر بن عبد العزیز نے جواب میں لکھا کہ جن غیر مسلموں نے ٹیکس دئے ہیں انہیں موصول رقم سے دوگنی رقم قرض کے طور پر کاروبار کرنے کے لئے دیدو اور انہیں یہ بھی کہہ دو کہ ہماری جانب سے کوئی قید نہیں ہے جب تمہارے پاس ہو تب رقم واپس کر دینا۔
الغرض! اسلام نے دولت و ثروت اور مالی خوشحالی کا یہ دور بھی دیکھا ہے۔ جب مسلمانوں کو بدن ڈھکنے کے لئے پھٹے پرانے کپڑے اور پیٹ کی بھوک مٹانے کے لئے روٹی کے لقمے بمشکل ہی میسر ہوتے تھے اس وقت بھی مسلمان سرخرو تھا اور جب گلیوں میں ریشم کے ٹکڑے پڑے ہوتے تھے اور کوئی اسے اٹھانے والا نہیں تھا، اس دور میں بھی مسلمان سرخرو اور سربلند تھا۔ معلوم ہوا کہ مسلمان کا سرخرو اور سربلند ہونا یا ذلیل و رسوا ہونا غربت و تنگ دستی یا مال و اسباب کی فراونی اور کثرت پر موقوف نہیں ہے۔ اسی لئے اقبال نے کہا تھا کہ ‘‘زوال بندہ مؤمن کا بے زری سے نہیں’’۔ لہٰذا، ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ امت مسلمہ کے زوال کے دواعی اور اسباب و علل کیا ہیں؟ آج ہم اس دنیا میں ذلیل کیوں ہوئے؟ آج ہم زمانے میں تماشا بن کر کیوں رہ گئے؟ اور ہمارے اوپر وہ ایام کیوں مسلط کئے گئے کہ ہمارے قوم کی بیٹیوں اور ماؤں پر سرِبازار بھوکے کتے چھوڑے گئے؟
اقبال کہتا ہے:
کعبہ پہلو میں ہے اور سودائی بت خانہ ہے
کس قدر شوریدہ سر ہے شوق بے پروا ترا
قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں
تنگ ہے صحرا ترا ، محمل ہے بے لیلا ترا
اے در تابندہ ، اے پروردۂ آغوش موج!
لذت طوفاں سے ہے نا آشنا دریا ترا
اب نوا پیرا ہے کیا ، گلشن ہوا برہم ترا
بے محل تیرا ترنم ، نغمہ بے موسم ترا
انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اٹھ گئے
ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا
شمع محفل ہو کے تو جب سوز سے خالی رہا
تیرے پروانے بھی اس لذت سے بیگانے رہے
رشتۂ الفت میں جب ان کو پرو سکتا تھا تو
پھر پریشاں کیوں تری تسبیح کے دانے رہے
شوق بے پروا گیا ، فکر فلک پیما گیا
تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے
آج ہیں خاموش وہ دشت جنوں پرور جہاں
رقص میں لیلی رہی ، لیلی کے دیوانے رہے
جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی
شہر ان کے مٹ گئے آبادیاں بن ہو گئیں
خود تجلی کو تمنا جن کے نظاروں کی تھی
وہ نگاہیں نا امید نور ایمن ہوگئیں
مژدہ اے پیمانہ بردار خمستان حجاز!
بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش
نغمہ پیرا ہو کہ یہ ہنگام خاموشی نہیں
ہے سحر کا آسماں خورشید سے مینا بدوش
خیر ، تو ساقی سہی لیکن پلائے گا کسے
اب نہ وہ مے کش رہے باقی نہ مے خانے رہے
رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے
کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے
آج ہیں خاموش وہ دشت جنوں پرور جہاں
رقص میں لیلی رہی ، لیلی کے دیوانے رہے
وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔ (اقبال)
لیکن ساتھ ہی ساتھ امت مسلمہ کو اقبال کا یہ پیغام بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ہماری غفلتوں، غلطیوں اور کوتاہیوں کا انجام ہے، ہمارا خاتمہ نہیں۔ اور ہمیں اپنے اوپر مسلط کی گئی ذلت و رسوئی اور بے کسی و بے بسی کی اس طویل ترین تر پر آشوب چار کے باوجود مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہاتف غیبی کی یہ صدائیں اب بھی بلند ہو رہی ہیں:
سینہ ہے تیرا امیں اس کے پیام ناز کا
جو نظام دہر میں پیدا بھی ہے ، پنہاں بھی ہے
ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ
تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے
اب تلک شاہد ہے جس پر کوہ فاراں کا سکوت
اے تغافل پیشہ! تجھ کو یاد وہ پیماں بھی ہے ؟
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے
خیمہ زن ہو وادی سینا میں مانند کلیم
شعلۂ تحقیق کو غارت گر کاشانہ کر
شمع کو بھی ہو ذرا معلوم انجام ستم
صرف تعمیر سحر خاکستر پروانہ کر
کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہیں
ہے جنوں تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر
خاک میں تجھ کو مقدر نے ملایا ہے اگر
تو عصا افتاد سے پیدا مثال دانہ کر
ہاں ، اسی شاخ کہن پر پھر بنا لے آشیاں
اہل گلشن کو شہید نغمۂ مستانہ کر
اس چمن میں پیرو بلبل ہو یا تلمیذ گل
دانہ تو ، کھیتی بھی تو ، باراں بھی تو ، حاصل بھی تو
آہ ، کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو ، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو ، منزل بھی تو
کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا
ناخدا تو ، بحر تو ، کشتی بھی تو ، ساحل بھی تو
دیکھ آ کر کوچۂ چاک گریباں میں کبھی
قیس تو، لیلی بھی تو ، صحرا بھی تو، محمل بھی تو
وائے نادانی کہ تو محتاج ساقی ہو گیا
مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو
خوف باطل کیا کہ ہے غارت گر باطل بھی تو
بے خبر! تو جوہر آئینۂ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے۔ (اقبال)
جاری........
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/muslims-need-reclaim-their-spiritual-4/d/110494
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism