مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
18 مارچ 2017
شاید اسی کا نام ہے توہین جستجو
ہو منزل کی تلاش تیرے نقشِ کفِ پا کے بعد
اسلام اپنے دامن میں شکست و ریخت اور غربت و بے بسی کی ایسی داستانیں سمیٹے ہوئے ہے کہ اگر وہ صفحہ قرطاس پر بکھیر دیے جائیں تو ہزاروں صفحات سرخ ہو جائیں پھر بھی امت مسلمہ کی داستانِ الم مکمل نہ ہو۔ چشم فلک گواہ ہے اس المناک دور کا کہ جب امت کے عروج اور باکپن کو اغیار کی نظر لگ جاتی ہےاور ہمارے گھر اجاڑ دئے جاتے ہیں۔ منگولیوں اور تاتاریوں نے جس شدت کے ساتھ مسلمانوں کو مشق ستم بنایا اس پر تو چشم فلک نے بھی آنسو بہائے ہیں۔ ہمارا خون اس قدر بہایا گیا کہ دریائے دجلہ کا پانی بھی سرخ ہو چکا تھا۔ ہمیں وہ دن بھی یاد ہے جب ہمارے سروں کا مینار تعمیر کیا گیا تھا۔
معزز قارئین!یہ تو تھی اسلام کی غربت، مظلومی اور بے بسی کی ایک دل آویز داستان۔ لیکن آپ کو یہ جان کر تعجب ہو گا کہ اللہ نے اسلام کو سیادت، حکومت اور امارت کا بھی ایک انوکھا اور نرالا رنگ عطا کیا ہے۔ اور مسلمانوں نے علم و حکمت اور فکر و فلسفہ میں فتوحات کی وہ داستانیں رقم کی ہیں کہ جن کی مثال ہمیں کہیں نہیں ملتی۔ تاریخ شاہد ہے اس مر پر کہ جب مغرب کی گلیوں میں اندھیرا تھا اس وقت مکہ اور مدینہ وحی کے انوار سے جگمگا رہا تھا۔ جب یوروپ گی گلیاں کیچڑ آلود تھیں اس وقت محمد عربی ﷺ کے در سے جہاں بانی کا ہنر تقسیم ہو رہا تھا۔ جب شارلیمان اور اس کے لارڈ دستخط کرنے کی مشق سے گزر رہے تھے اس وقت ابن حزم کے قلم سے ایک ہزار کتابیں نکل چکی تھیں۔ کوئی اندلس اور قرطبہ کی تاریخ اٹھا کر دیکھے تو اسے چودہ سو ستونوں پر مشتمل ایک وسیع و عریض مسجد اور وہاں پھیلی ہوئی عظیم یونیورسٹیوں اور درسگاہوں کے نقوش نظر آئیں گے جہاں سے مسلمان اس زمانے میں علم و حکمت اور فکر و فلسفہ کے اجالے دنیا کو بانٹ رہے تھے جب اہل مغرب سِواد آشناء بھی نہ تھے۔
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری
تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا
اے گلستان اندلس وہ دن ہیں یاد تجھ کو
تھا تیری ڈالیوں میں جب آشیاں ہمارا
اے موج دجلہ تو بھی پہچانتی ہے ہم کو
اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواں ہمارا (اقبال)
شاید اسی لیے اقبال نے کہا تھا کہ اگر مغرب آگے کی طرف دیکھتا ہے تو وہ دیکھے، اس لیے کہ یہ اس کی مجبوری ہے کہ وہ ہمیشہ آگے کی طرف دیکھے کیوں کہ اس کا ماضی تاریک اور خاک آلود ہے۔ لیکن اسلام کی تاریخ انتہائی روشن اور تابناک ہے۔ جب 11/9 کا وہ انسانیت سوز واقعہ رونما ہوا تھا تب جارج بش نے عالم اسلام کو دھمکی بھرے لہجے میں کہا تھا کہ ہم تمہیں تباہی و بربادی کا وہ مزا چکھائیں گے کہ تمہیں بتھروں کے دور میں پہنچا دیں گے۔ لیکن اقبال نے برسوں پہلے ہمیں سراغ حیات یہ دیا تھا کہ امت مسلمہ کی زندگی اس میں ہے کہ وہ اپنا روحانی رشتہ دوبارہ پتھروں کے اسی دور سے استوار کرے جب محمد عربی ﷺ کھجور کی ٹوٹی ہوئی چٹائی پر بیٹھ کر زندگی کا درس دیا کرتے تھے۔ امت اپنے افکار و خیالات کو اس دور زرین سے آشنا کرے جب آپ ﷺ ابو بکر و عمر، عثمان و علی، بلال حبشی اور مسجد نبوی کے باہر چبوترے پر بیٹھنے والے اصحاب ِصفہ کو زندگی کا سبق دیا کرتے تھے، جب مسجد کی دیواریں کچی تھیں لیکن لوگوں کے ایمان مضبوط تھے اور جس دور میں یتیم بچیوں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھیرا جا رہا تھا۔ اس لیے کہ کسی اور کے لیے وہ دور غیر مانوس ہو سکتا ہے، لیکن ایک مسلمان کے کردار کا سارا حسن اور اس کی زندگی کی ساری بہاریں اسی دورسے وابستہ ہیں۔ مسلمانوں کو آج اِس پر فتن دور پر نظریں ٹکانے اور اس سے زندگی کا سبق سیکھنے کی ضرورت نہیں کہ جب مذہب کے نام پر بھائی بھائی کی شہ رگ کاٹ رہا ہے، انسان کا لہو جانوروں سے بھی ارزاں ہو چکا ہے، مسلم سلاطینِ مملکت اور امراء کی حمیت اور غیرت دم توڑ چکی ہے، لوگ ایک دوسرے کی معاشی اور اقتصادی جڑیں کاٹ رہیں اور ہر طرف بے حیائی اور بدکاری کا طوفان بد تمیزی ہے۔
شاید اسی کا نام ہے توہین جستجو
ہو منزل کی تلاش تیرے نقشِ کفِ پا کے بعد
صحیح بخاری میں حضرت عدی بن حاتم سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ ﷺ کے سامنے اپنی غربت، پسماندگی اور بد حالی کی شکایت کی۔ دریں اثناء ایک اور شخص آیا اور اس نے عرض کیا کہ حضور مجھے فلاں جگہ کا سفر کرنا ہے اور راستہ پر خطر ہے، مجھے رہنمائی فرمائیں کہ میں کیسے اپنا سفر طے کروں۔ جب ان دونوں نے آپ ﷺ کے سامنے اپنے اپنے مسائل رکھ لئے تو حضرت عدی فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے اپنا روئے سخن میری طرف کیا اور مجھ سے فرمانے لگے کہ ‘‘عدی کیا تم نے حیرہ دیکھا ہے ؟’’ انہوں نے عرض کیا حضور میں نے دیکھا تو ں نہیں مگر سنا ضرور ہے، اور حیرہ عراق کا ایک شہر ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ عدی اگر خدا تجھے زندگی کی مہلت دی تو تو ضرور دیکھے گا کہ حیرہ سے ایک خاتون چلے گی اور مکہ تک سفر کر کے آئے گی اور خانہ کعبہ کا طواف کرے گی اور حیرہ سے لیکر مکہ تک کے اس طویل سفر میں اسے اللہ کے علاوہ کسی کا خوف نہ ہو گا۔ حضرت عدی فرماتے ہیں کہ یہ سن کر میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ پورے عرب کے اوپر اپنا رعب و دبدبہ رکھنے والے بنو تے کے ڈاکو کیا مر گئے ہوں گے جو حیرہ سے لیکر مکہ تک اس قدر امن کا ماحول ہو گا۔ (آپ فرماتے ہیں کہ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ آپ ﷺ نے میرے حیرت میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا کہ)، عدی اگر اللہ نے تجھے زندگی کی مہلت دی تو تو ضرور یہ دیکھے گا کہ کسریٰ کے خزانے تیری جھولی میں ہوں گے۔ حضرت عدی نے دریافت کیا کہ ‘‘حضور! کسریٰ بن ہرمس (آپ کہتے ہیں کہ چونکہ وہ اس دور کے سپر پاور تھے اسی لیے میری حیرت کی انتہا نہ رہی)’’، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘ہاں، وہی کسریٰ بن ہرمس’’۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ عدی اگر خدا نے تجھے زندگی کی مہلت دی تو تو دیکھے گا کہ ایک ایسا وقت بھی آئے گا کہ لوگ زکوٰۃ کا مال، سونے اور چاندی کے لیکر گھومیں گے لیکن انہیں کوئی زکوٰۃ کا مال لینے والا نہیں ملے گا۔ حضرت عدی فرماتے ہیں کہ پھر وہ وقت آیا اور میں نے اس کا مشاہدہ کیا کہ ایک عورت حیرہ سے چل کر مکہ حج کے لیے آئی اور پورے خطے میں امن ایسا تھا کہ اسے خدا کے علاوہی کسی اور کا خوف بھی نہیں تھا۔ پھر میری نگاہوں نے وہ لمحے بھی دیکھے کہ جب کسریٰ کے خزانے مسجد نبوی کے باہر پڑے ہوئے تھے۔
جاری......................
URL: https://newageislam.com/urdu-section/muslims-need-reclaim-their-spiritual-3/d/110467
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism