New Age Islam
Sat Feb 08 2025, 11:40 AM

Urdu Section ( 1 Dec 2016, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Modesty And Softness –Ornaments of Human Personality حیاء اور نرمی مزاج انسانی شخصیت کے لیے زیور ہیں

مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام

(بہار ادب: قسط 14 )

جس کے اندر حیاء نہیں اس کا ایمان کامل نہیں۔ حیاء میں صرف خیر ہی خیر ہے۔ حیاء مذہب اسلام کا وصف خاص ہے۔ اللہ بھی حیاء فرماتا ہے۔ اللہ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے حیاء کی جائے۔ حیاءحسن اخلاق کا وہ حصہ ہے جو اسلام اور ایمان کے ساتھ خاص ہے۔ حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے۔ فحش گوئی اور لاحاصل بکو اس نفاق کی دو شاخیں ہیں ۔ جس کے اندر سے حیاء نکل گئی وہ ایمان سے بھی محروم ہو گیا۔ بے حیائی انسان کو نیکیوں سے بیزار کر دیتی ہے۔ حیاء کرنا انبیاء علیہم السلام کا خاصہ ہے۔ تنہائی میں فرشتوں کا حیاء کرو۔ خوش کلامی اور نرم گوئی بھی حا ء کا تقاضہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی صفتِ حیاء سب سے اعلیٰ ہے۔ اللہ اپنی بارگاہ میں اٹھے ہوئے ہاتھوں کا حیاء فرماتا ہے۔ با حیاء جنتی ہے اور بے حیاء جہنمی ہے۔

حیا اور نرمی مزاج کیا ہے؟

"حیاء" دل و دماغ کی اس کیفیت کا نام ہے جو کسی معیوب، غیر اخلاقی اور غیر فطری عمل یا کسی گناہ سے انسان کو روکے یا ان کے ارتکاب کے بعد خوف و ندامت کی صورت مٰیں انسان کے اوپر طاری ہو۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ سب اچھی حیاء وہ ہے جو انسان کو ان امور میں مبتلا ہونے سے روکے جس سے شریعت منع کیا ہے۔

حیاءحسن اخلاق کا وہ حصہ ہے جو اسلام اور ایمان کے ساتھ خاص ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ صرف طبعی خاصیتوں اور اخلاقی خصلتوں میں سب سے اعلی درجہ حیاء کا ہے بلکہ یہ وہ جوہر ہے جس سے انسانی اخلاق و کردار کی تکمیل بھی ہوتی ہے۔ جب ہم اس تناظر میں دیگر ادیان و مذاہب کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر دین اور ہر مذہب کے متبعین کو کسی خاص خوبی اور کسی خاص وصف کے ساتھ متصف کیا گیا ہے، اور امت مسلمہ کو جس خاص طبعی اور اخلاقی وصف کے ساتھ متصف کیا گیا ہے وہ حیاء ہے اس لیے کہ نبی اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ "بعثت لاتمم مکارم الاخلاق" (میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لئے دنیا میں مبعوث گیا ہوں) حدیث کا بظاہر مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ حیا صرف اہل اسلام کے ساتھ ہی خاص ہے، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ اخلاقی خوبی دنیا کے تمام اقوام و ملل کے درمیان مشترک ہے لیکن خاص طور پر اہل اسلام پر حیاء کو غلبہ عطا کیا گیا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ نے پورے قرآن میں خیر امت کا تاج زریں کسی اور قوم کے سر پر نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کے سر پر رکھا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے حیا کرنے کا حق:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اسْتَحْيُوا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ " قَالَ : قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّا لَنَسْتَحْيِي وَالْحَمْدُ لِلَّهِ ، قَالَ : " لَيْسَ ذَاكَ وَلَكِنَّ الِاسْتِحْيَاءَ مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ أَنْ تَحْفَظَ الرَّأْسَ وَمَا وَعَى ، وَتَحْفَظَ الْبَطْنَ وَمَا حَوَى ، وَتَتَذَكَّرَ الْمَوْتَ وَالْبِلَى ، وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ تَرَكَ زِينَةَ الدُّنْيَا ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدِ اسْتَحْيَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبَانَ بْنِ إِسْحَاق ، عَنِ الصَّبَّاحِ بْنِ مُحَمَّدٍ .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے اتنی حیاء کرو جتنا اس کا حق ہے، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ کا شکر ہے کہ ہم اس سے حیاء کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے، لیکن اس کا حق یہ ہے کہ تم اپنے سر اور جو کچھ اس میں ہے اس کی حفاظت کرو پھر پیٹ اور اس میں جو کچھ جمع ہے اس کی حفاظت کرو اور پھر موت اور ہڈیوں کے گل سڑ جانے کو یاد کیا کرو اور جو آخرت کی کامیابی چاہے گا وہ دنیا کی زینت کو ترک کر دے گا اور جس نے ایسا کیا اس نے اللہ سے حیاء کرنے کا حق ادا کر دیا۔[ ترمذي، حاكم، بيهقى]

اس حدیث پاک کی روشنی میں اللہ سے حیاء کا حق یہ ہے کہ انسان اپنے سر کو کہ جسے اللہ نے انسانی عظمتوں کی بلندی عطا کی ہےمعبودان باطل کے آگے جھکا کر ذلیل نہ کرے، نام و نمود اور ریاکاری میں انسان اپنا سر اللہ کی بارگاہ میں نہ جھکائے۔ اور سر کو بے جا فخر و مباہات اور غرور و تکبر میں بلند نہ کرے۔

زبان، آنکھ، اور کان کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ ان اعضاء جسمانی کو گناہوں میں ملوث ہونے سے بچایا جائے، مثلاً زبان کو غیبت اور جھوٹ سے، آنکھ سے نامحرم اور فحش چیزیں دیکھنے سے اور کان کو کسی کی غیبت اور جھوٹ وغیرہ سننے سے محفوظ رکھا جائے۔

"پیٹ کی حفاظت" کا معنیٰ یہ ہے کہ حرام اور ناجائز چیزوں کے کھانے سے پرہیز کیا جائے۔

"پیٹ کے ساتھ" کی چیزوں سے ستر عورت، ہاتھ، پاؤں اور دل وغیرہ جیسے جسم کے وہ اعضاء مراد ہیں جو پیٹ سے متصل ہیں اور ان کی حفاظت کا مطلب ان اعضاء کو بھی گناہوں سے محفوظ رکھنا ہے۔

اللہ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے حیاء کی جائے

حدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَا : حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ : قُلْتُ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ ، عَوْرَاتُنَا مَا نَأْتِي مِنْهَا وَمَا نَذَرُ ؟ قَالَ : " احْفَظْ عَوْرَتَكَ إِلَّا مِنْ زَوْجَتِكَ أَوْ مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ " ، قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِذَا كَانَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ ؟ قَالَ : " إِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ لَا يَرَاهَا أَحَدٌ فَلَا يَرَاهَا " ، قَالَ : قُلْتُ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ ، إِذَا كَانَ أَحَدُنَا خَالِيًا ؟ قَالَ : " فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ يُسْتَحْيَا مِنْهُ مِنَ النَّاسِ " ، قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)

حضرت بہز بن حکیم اپنے والد حضرت حکیم سے اور وہ بہز کے دادا (حضرت معاویہ ابن حیدہ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنا ستر چھپائے رکھو علاوہ اپنی بیوی یا اپنی لونڈی کے (کہ ان کے سامنے اپنا ستر چھپانا ضروری نہیں ہے) حضرت معاویہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے بتائیے کہ آدمی جب خلوت تنہائی میں ہو تو کیا وہاں بھی اپنا ستر چھپائے رکھے؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ لائق تر ہے کہ اس سے شرم کی جائے ۔

اللہ بھی حیاء فرماتا ہے۔

أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يَغْتَسِلُ بِالْبَرَازِ بِلَا إِزَارٍ ، فَصَعَدَ الْمِنْبَرَ ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ، ثُمَّ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَيِيٌّ سِتِّيرٌ يُحِبُّ الْحَيَاءَ وَالسَّتْرَ ، فَإِذَا اغْتَسَلَ أَحَدُكُمْ ، فَلْيَسْتَتِرْ ".

سرکار دو عالم ﷺ نے ایک آدمی کو میدان میں ننگا نہاتے ہوئے دیکھا چنانچہ آپ ﷺ (وعظ کے لئے) منبر پر چڑھے اور پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا اللہ تعالیٰ بہت حیاء دار ہے اور بہت پردہ پوش ہے (یعنی اپنے بندوں کے گناہ اور عیوب کی پردہ پوشی فرماتاہے) وہ حیاء اور پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے لہذا جب تم میں سے کوئی (میدان میں) نہائے تو اسے چاہیے کہ وہ پردہ کر لیا کرے ۔ ( ابوداؤد، نسائی )

حیاء مذہب اسلام کا وصف خاص ہے۔

 قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ لِكُلِّ دِينٍ خُلُقًا , وَخُلُقُ الْإِسْلَامِ الْحَيَاءُ "۔

ہر دین اور ہر مذہب کے ساتھ ایک وصف خاص ہے (یعنی ہر مذہب کے متبعین کی تمام صفات پر کسی ایک وصف کاغلبہ ہوتا ہے) اور اسلام کا وصف حیاء ہے۔[سنن ابن ماجہ]

حیا میں صرف خیر ہی خیر ہے۔

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْحَيَاءُ خَيْرٌ كُلُّهُ " ، قَالَ : أَوَ قَالَ : " الْحَيَاءُ كُلُّهُ خَيْرٌ ".

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حیاء نیکی اور بھلائی کا مصدر و سرچشمہ ہے، ایک اور روایت میں یہ ہے کہ حیاء کی تمام صورتیں بہتر ہیں ۔[ مسلم ، أبو داود]

جس کے اندر حیاء نہیں اس کا ایمان کامل نہیں۔

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لا إِيمَانَ لِمَنْ لا حَيَاءَ لَهُ ".

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس میں حیا نہیں، اس کا ایمان(کامل) نہیں۔[ الترغيب والترهيب ، كشف الخفاء]

حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے۔

"الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ ".

آپ ﷺ نے فرمایا ایمان کی ساٹھ سے کچھ زائد شاخیں ہیں اور حیاء ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔[صحيح البخاري]

حیاء ایمان کا ایک حصہ ہے۔

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ وَهُوَ يَعِظُ أَخَاهُ فِي الْحَيَاءِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " دَعْهُ فَإِنَّ الْحَيَاءَ مِنَ الْإِيمَانِ " .

نبی اکرم ﷺ (ایک مرتبہ) کسی انصاری صحابی کے پاس سے گذرے اور وہ اپنے بیٹے کو حیاء کے بارے میں نصیحت کر رہے تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اس لئے کہ حیاء ایمان کا ایک حصہ ہے۔[بخاری، مسلم]

فحش گوئی اور لاحاصل بکو اس نفاق کی دو شاخیں ہیں۔

"الْحَيَاءُ وَالْعِيُّ شُعْبَتَانِ مِنَ الْإِيمَانِ ، وَالْبَذَاءُ وَالْبَيَانُ شُعْبَتَانِ مِنَ النِّفَاقِ ".

آپ ﷺ نے فرمایا کہ شرم و حیاء اور زبان کو قابو میں رکھنا ایمان کی دو شاخیں ہیں جب کہ فحش گوئی اور لاحاصل بکو اس نفاق کی دو شاخیں ہیں۔ [جامع ترمذي ]

جس کے اندر سے حیاء نکل گئی وہ ایمان سے بھی محروم ہو گیا۔

"إِنَّ الْحَيَاءَ وَالإِيمَانَ قُرِنَا جَمِيعًا ، فَإِذَا رُفِعَ أَحَدُهُمَا رُفِعَ الآخَرُ" ۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا حیاء اور ایمان ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں لہذا جب کسی کو ان میں سے کسی ایک سے محروم کیا جاتا تو وہ دوسرے سے بھی محروم ہو جاتا ہے ۔[بيهقی، حاكم]

بے حیائی انسان کو نیکیوں سے بیزار کر دیتی ہے۔

قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلَامِ النُّبُوَّةِ إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ".

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگوں نے پہلے انبیاء پر اترنے والے کلام میں جو بات پائی ہے وہ یہ کہ جب تو بے شرم ہو جائے تو جو جی چاہے کرے۔ (بخاری، احمد)

حیاء کرنا انبیاء علیہم السلام کا خاصہ ہے۔

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَرْبَعٌ مِنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِينَ : الْحَيَاءُ ، وَالتَّعَطُّرُ ، وَالسِّوَاكُ ، وَالنِّكَاحُ "۔

سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا "چار چیزیں رسولوں کے طریقہ میں سے ہیں:

(1)   حیاء کرنا۔

(2)    خوشبو لگانا۔

(3)    مسواک کرنا۔

(4)    نکاح کرنا۔

قبروں میں مدفون میتوں کا حیاء:

عن ‏ ‏عائشة ‏ ‏قالت : ‏ ‏كنت إدخل بيتي الذي دفن فيه رسول الله ‏ (ص) ‏ ‏وأبي فأضع ثوبي فأقول إنما هو زوجي وأبي ، فلما دفن ‏ ‏عمر ‏ ‏معهم فوالله ما دخلت إلاّ وأنا مشدودة علي ثيابي حياء من ‏ ‏عمر.

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب میں اس حجرہ مبارک میں جایا کرتی تھی جس میں رسول کریم ﷺ (اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) مدفون تھے تو میں (اپنے بدن سے) کپڑا (یعنی چادر) اتار کر رکھ دیتی تھی اور (دل میں ) کہا کرتی تھی کہ یہاں میرے خاوند (یعنی محمد ﷺ) اور میرے باپ (یعنی حضرت ابوبکر صدیق) مدفون ہیں اور یہ دونوں میرے لئے اجنبی نہیں ہیں تو پھر حجاب کیسا؟ مگر جب (اس حجرہ میں) ان کے ساتھ حضرت عمر فاروق کو دفن کر دیا گیا تو اللہ کی قسم میں اس حجرہ میں جب بھی داخل ہوتی تھی، حضرت عمر سے حیاء کی وجہ سے (کہ وہ اجنبی تھے) اپنے بدن پر کپڑے لپیٹے رکھتی۔ (مسند احمد ، المستدرك، مجمع الزوائد)

تنہائی میں فرشتوں کا حیاء کرو۔

أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِيَّاكُمْ وَالتَّعَرِّيَ ، فَإِنَّ مَعَكُمْ مَنْ لَا يُفَارِقُكُمْ إِلَّا عِنْدَ الْغَائِطِ، وَحِينَ يُفْضِي الرَّجُلُ إِلَى أَهْلِهِ فَاسْتَحْيُوهُمْ وَأَكْرِمُوهُمْ "۔

رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم برہنہ ہونے سے اجتناب کرو اگرچہ تنہائی کیوں نہ ہو) کیونکہ پاخانہ اور اپنی بیوی سے مجامعت کے اوقات کے علاوہ تمہارے ساتھ ہر وقت وہ فرشتے ہوتے ہیں جو تمہارے اعمال لکھنے پر مامور ہیں لہذا تم ان فرشتوں سے حیاء کرو اور ان کی تعظیم کرو ۔( ترمذی، شرح السنۃ)

خوش کلامی اور نرم گوئی بھی حیاء کا تقاضہ ہے۔

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا كَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ ، وَمَا كَانَ الْحَيَاءُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ ".

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس چیز میں بدگوئی اور سخت کلامی ہو وہ اس کو عیب دار بنا دیتی ہے اور جس چیز میں حیاء و نرمی ہو وہ اس کو زیب و زینت عطا کرتی ہے۔(الادب المفرد للبخاری، ترمذی وابن ماجہ)

با حیاء جنتی ہے اور بے حیاء جہنمی ہے۔

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الحياء من الإيمان والإيمان في الجنة . والبذاء من الجفاء والجفاء في النار۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حیاء ایمان کا جز ہے اور ایمان یعنی مومن جنت میں جائے گا اور بے حیائی بدی کا جز ہے اور بد دوزخ کی آگ میں جائے گا۔ (احمد، ترمذي، طبرانی)

اللہ اپنی بارگاہ میں اٹھے ہوئے ہاتھوں کا حیاء فرماتا ہے۔

عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِنَّ اللَّهَ حَيِيٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِي إِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ إِلَيْهِ يَدَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا خَائِبَتَيْنِ ".

رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ تمہارا پروردگار بہت حیاء مند ہے، جب اس کا بندہ اس کی بارگاہ میں (دعا کے لئے) اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ اپنے بندے سے حیاء کرتا ہے کہ اسے خالی ہاتھ واپس کرے ۔ (جامع ترمذی، احمد، حاکم، بیہقی)

رسول اللہ ﷺ کی صفتِ حیاء سب سے اعلیٰ ہے۔

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَشَدَّ حَيَاءً مِنَ الْعَذْرَاءِ فِي خِدْرِهَا ، فَإِذَا رَأَى شَيْئًا يَكْرَهُهُ عَرَفْنَاهُ فِي وَجْهِهِ ".

رسول کریم ﷺ پردہ میں رہنے والی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے ، جب کوئی خلاف مزاج بات پیش آجاتی تو ہم آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر آپ ﷺ کی ناگواری کو محسوس کرلیتے ۔ (صحيح بخاری، صحيح مسلم)

زیادہ ہنسی انسان کی شخصیت کو بے وقعت کر دیتی ہے، خلقِ خدا کو ذلیل کرنے والا خود ذلت و رسوائی کی لعنت کا شکار ہو جاتا ہے ، جو انسان جس چیزکی کثرت کرتا وہ اس کی فطرت میں شامل ہو جاتی ہے، جس کی فطرت میں گناہ اور معصیت شامل ہو جائے اس کے اندر سے حیاء نکل جاتی اور جس کی اندر سے حیاء ختم ہو جائے اس کا تقویٰ کم ہوجاتا ہے اور جس کا تقویٰ کم ہوجاتا ہے اس کا دل مر جاتا ہے۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : جب اللہ تعالیٰ برائی اورہلاکت کو کسی کا مقدر بنا دیتا ہے تو اسے حیاء سے محروم کر دتیا ہےجس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس سے بغض رکھتے ہیں اور وہ بھی لوگوں سے بغض رکھتا ہے۔(حلیۃ الاولیاء)

حضرت احمد بن سہل بن عطاء نے فرمایا: علم اور حیاء میں ایک عظیم ہیبت مضمر ہے جو ان دونوں نعمتوں سے محروم ہو اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔

اس دل سے بڑھ کر کسی دل پر اللہ کی سزا نہیں جس سے اللہ نے حیاء چھین لی۔

جاری................................

 

URL: https://newageislam.com/urdu-section/modesty-softness-–ornaments-human-personality/d/109242

New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Womens in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Womens In Arab, Islamphobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism,


Loading..

Loading..