مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج
اسلام
(بہار ادب: قسط 12)
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ
مَرَحًا ۖ
إِنَّكَ لَن تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا ۔ كُلُّ ذَٰلِكَ
كَانَ سَيِّئُهُ عِندَ رَبِّكَ مَكْرُوهًا۔ (بنی اسرآئیل:38-37)
"اور زمین میں اکڑ کر مت چل، بیشک تو زمین کو (اپنی رعونت کے زور
سے) ہرگز چیر نہیں سکتا اور نہ ہی ہرگز تو بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتا ہے (تو جو
کچھ ہے وہی رہے گا)، ان سب (مذکورہ) باتوں کی برائی تیرے رب کو بڑی ناپسند ہے"۔
(ترجمہ: عرفان القرآن)
وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ
وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ
إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ
مِن صَوْتِكَ ۚ
إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ (لقمان:19-18)
"اور لوگوں سے (غرور کے ساتھ) اپنا رخ نہ پھیر، اور زمین پر اکڑ
کر مت چل، بیشک اﷲ ہر متکبّر، اِترا کر چلنے والے کو ناپسند فرماتا ہے، اور اپنے چلنے
میں میانہ روی اختیار کر، اور اپنی آواز کو کچھ پست رکھا کر، بیشک سب سے بری آواز گدھے
کی آواز ہے"۔ (ترجمہ: عرفان القرآن)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:
"جس شخص کے دل میں ذرہ
برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔ ایک شخص نے پیغمبر اسلام صلی اللہ
علیہ وسلم کی بارگا ہ میں عرض کیا کہ ہر انسان چاہتا ہے اس کے کپڑے اور جوتے خوبصورت
اور عمدہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور
خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ کبر و تکبر تو حق کو قبول کرنے سے انکار کرنا اور لوگوں
کو حقیر جاننا ہے" (مسلم)۔
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "تکبر کرنے والوں کو
قیامت کے دن چیونٹیوں کی طرح آدمیوں کی شکل میں جمع کیا جائے گا۔ ہر طرف سے ان پر ذلت
چھا رہی ہو گی۔ انہیں جہنم کی بولس نامی جیل کی طرف ہانکا جائے گا۔ ان پر بہت بڑی آگ
بلند ہو رہی ہو گی۔ انہیں جہنمیوں کے زخموں سے بہتی ہوئی پیپ پلائی جائے گی"۔(ترمذی)۔
"اللہ تعالیٰ نے ایام جاہلیت کے تکبر اور باپ دادوں کے نام سے
فخر کو ختم کر دیا ہے۔ اب یا تو آدمی مومن متقی ہو گا۔ یا بد کردار اور بدنصیب ہو گا۔
سب انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے" (ترمذی)۔
"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے
فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نرم و مہربان ہے اور نرمی و مہربانی کو پسند کرتا ہے یعنی
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر خود بھی نرم و مہربان ہے اور ان کو ایسے امور کا مکلف قرار
نہیں دیتا جو ان کی قوت برداشت سے باہر ہوں اور جن کی وجہ سے وہ دشواریوں اور سختیوں
میں مبتلا ہوں اور وہ بندے کے تئیں بھی اس بات کو پسند کرتا ہے اور اس سے راضی و خوش
ہوتا ہے کہ وہ آپس میں نرمی و مہربانی کریں اور ایک دوسرے کو سختیوں اور دشواریوں میں
مبتلا نہ کریں ۔ اس لئے وہ نرمی و مہربانی پر وہ چیز عطا فرماتا ہے جو درشتی سختی پر
عطا نہیں فرماتا اور نرمی و مہربانی پر جو چیز عطا کرتا ہے وہ نرمی و مہربانی کے علاوہ
کسی چیز پر عطا نہیں فرماتا"۔ (مسلم)
"حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
نے فرمایا تم میں سے وہ شخص مجھ کو زیادہ عزیز ہے جو اچھے اخلاق کا حامل ہو"۔
(بخاری)
"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ہیں کہ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو نرمی میں سے حصہ دیا گیا۔ گویا اس کو دنیا
و آخرت کی بھلائیوں میں سے حصہ دیا گیا اور جو شخص نرمی سے محروم رہا وہ گویا دنیا
و آخرت کی بھلایئوں میں اپنے حصہ سے محروم رہا"۔ (شرح السنہ)
" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا
نیک بخت مومن انتہائی سادہ مزاج اور شریف ہوتا ہے جب کہ بدکار انتہائی مکار، بخیل و
کمبخت ہوتا ہے"۔ (احمد، ترمذی)
" حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول
اللہ نے فرمایا کیا میں بتاؤں کہ وہ شخص کون ہے جو آگ پر حرام ہوگا اور جس پر آگ حرام
ہو گی! تو سنو دوزخ کی آگ ہر اس شخص پر حرام ہو گی جو نرم مزاج، نرم طبعیت ، لوگوں
سے نزدیکی رکھنے والا اور نرم خو ہو" احمد، ترمذی)۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ
عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو مسلمان لوگوں
کے ساتھ ربط و اختلاط رکھے اور ان کی اذیتوں پر صبر کرے وہ افضل ہے اس شخص سے جو لوگوں
سے ربط و اختلاط نہ رکھے اور ان کی اذیتوں پر صبر نہ کرے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
" حضرت مکحول کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
ایمان رکھنے والے لوگ بردبار ، نرم خو اور فرمانبردار ہوتے ہیں اس اونٹ کی طرح جس کی
ناک میں نکیل پڑی ہو کہ اگر اس کو کھنچاے جائے تو چلا آئے اور اگر پتھر پر بٹھا یا
جائے تو پتھر پر بیٹھ جائے"( ترمذی)۔
ظلم کی مذمت
ظلم تاریکی ہے یعنی ظلم کرنے
والا قیامت کے دن سخت مصیبتوں اور تاریکیوں سے گھرا ہوا ہو گا، (بخاری، مسلم)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا کہ جس کے ذمہ اس کے بھائی کا کوئی حق ہو وہ آج اس سے معاف کرا لے، اس سے پہلے
کہ نہ اشرفی ہو گی نہ روپیہ ہوگا، بلکہ اس کے عمل صالح کوبقدر حق لیکر دوسرے کو دے
دیا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی تو دوسرے کے گناہ اس پر لاد دئے
جائیں گے۔ (بخاری)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ مفلس کون ہے لوگوں نے عرض کی ہم میں مفلس وہ ہے کہ جس کے
پاس نہ روپیہ ہے نہ متاع حیات ہے۔ فرمایا میری امت میں مفلس وہ ہے کہ جو قیامت کے دن
نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ لیکر اس حال میں آئے گا کہ کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر
تہمت لگائی ہو گی، کسی کا مال کھا لیا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا
ہو گا۔ لہٰذا، اس کی نیکیاں مظلوموں کو دے دی جائیں گی۔ اگر لوگوں کے حقوق پورے ہونے
سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو لوگوں کی خطائیں اس پر ڈال دی جائیں گی۔ پھر اسے
جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (مسلم شریف)
یہ نہ کہنے لگو کہ لوگ اگر
ہمارے اوپر احسان کریں گے تو ہم بھی احسان کریں گے اور اگر ہم پر ظلم کریں گے تو ہم
بھی ظلم کریں گے، بلکہ اپنے نفس کو اس بات پر جماؤ کہ لوگ تم پر احسان کریں تو تم بھی
ان پر احسان کرو اور اگر کوئی برائی کرے تو تم ظلم نہ کرو۔ (ترمذی)
سب سے برا قیامت کے دن وہ
بندہ ہے جس نے دوسروں کی دنیا کے بدلے اپنی آخرت برباد کر دی۔ (ابن ماجہ)
مظلوم کی بد دعا سے بچو کہ
وہ اللہ تعالیٰ سے اپنا حق مانگے گا اور کسی حق والے کے حق سے اللہ منع نہیں کرے گا۔
(بیہقی)
URL: