مصباح الہدی قادری، نیو ایج اسلام
(بہار ادب: قسط 18)
اللہ نے جو ہمیں جو خوبصورت شکل وصورت ،دولت و ثروت، مہنگے موٹر گاڑی، عمدہ مکانات و محلات ،سونے چاندی، زیورات اور اولاد، اور دیگر سامان زندگی عطا کی ہے یا اس سے کسی کو محروم رکھا ہے اس کی بنیادی وجہ ہمیں آزمائش کے مراحل سے گزارنا ہے۔ اور یہ تمام چیزیں عارضی اور فانی ہیں۔ کبھی کبھی انسان قدرت کے اس آزمائشی منصوبے سے غافل ہو جاتا ہے اور لا علمی اور نادانی کے سبب ان مادی اور عارضی نعمتوں کو دائمی سمجھ بیٹھتا ہے اور حسد کا شکار ہو جاتا ہے۔ قرآن نے یہ امر بالکل واضح انداز میں بیان کر دیا ہے کہ قدرت کسی کو نعمتوں سے نواز کر آزماتی ہے اور کسی سے نعمتیں چھین کر اور نعمتوں سے محروم رکھ کر آزماتی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے "وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ"۔ ترجمہ: "اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔ (ترجمہ: عرفان القرآن)" انسان جس لمحے ان دنیاوی نعمتوں کو حقیقی اور مقصود حیات سمجھ لیتا ہے اور ان کے حصول کو کامیابی و کامرانی اور ان سے محرومی کو ناکامی و نامرادی سمجھ لیتا ہے، اسی لمحے انسان ان دنیاوی مال و متاع کی محبت اور حرص میں گرفتار ہو جاتا ہے اور اس کے دل میں بغض و حسد کی چنگاری بھڑک اٹھتی ہے۔
حسد کب پیدا ہوتا ہے؟ دل میں حسد اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان دوسروں کی نعمتوں پر مثلاً مکان، زیورات ، موٹر کار، عمدہ کپڑے ، موبائل اور دیگر سامان تعیش، باطنی خصوصیات مثلاً خوش اخلاقی، ملنساری، ہر دلعزیزی ، دینداری، عبادت گذاری،ظاہری اوصاف و کمالات مثلاً اچھی شکل و صورت ، وجاہت یا اعلیٰ شخصیت، مالی طور پر خوشحالی، اقتصادی ترقی، اعلیٰ کاروبار، اچھی ملازمت ، دوسروں کی نیک و صالح اولاد، دوسروں کی شہرت ،عزت، قابلیت یا اعلیٰ عہدے یا منصب، کسی کی صحت ، تندرستی اور راحت و سکون کو حسرت و یاس کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور ان سے ان نعمتوں کے چھن جانے اور اپنے لیے حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ جبکہ ہم فتنے میں مبتلاء ہو کر اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ حسد ہمیں نفرت کی آگ میں جھونک دیتا ہے۔ حسد ہمیں غصہ، ڈپریشن، احساس کمتری، چڑچڑا پن وغیر ہ جیسی متعدد امراض نفسیاتی میں مبتلاء کر دیتا ہے۔ حسدد آپسی رنجش اور شمنی کو جنم دیتا ہے اور آپسی دشمنی فساد کا سبب بن سکتی ہے جس کے نتیجے میں معاشرے میں بگاڑ پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ حسد ہمیں غیبت، بہتان تراشی اور جھوٹ گوئی جیسی دیگر دینی اخلاقی گناہوں میں بھی ڈوبا دیتا ہے۔
قرآن میں اللہ کا فرمان ہے:
وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ۔
اور (میں پناہ مانگتا ہوں رب کی) ہر حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔(الفلق:5)
احادیث مبارکہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" مجھے اس بات کا اندیشہ بالکل نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے البتہ میں اس بات کا اندیشہ کرتا ہوں کہ تم دنیا کی عیش و عشرت اور لذات و خواہشات میں پڑ کر آپس میں ایک دوسرے سے حسد نہ کرنے لگو" ۔ (بخاری)
"ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ حسد کرو اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو اور کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ جدا رہے۔ (بخاری)
"ضمرہ بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ اس وقت تک بھلائی کے ساتھ رہیں گے جب تک وہ حسد سے بچتے رہیں گے"۔(طبرانی)
حسد (رشک) کا جائز ہونا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صرف دو لوگوں پر حسد (رشک ) جائز ہے "ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالی نے مال و دولت سے نوازا اور ساتھ ہی ساتھ اسے راہ حق میں خرچ کرنے کی توفیق بھی بخشا، اور دوسرا وہ شخص ہے جسے اللہ تعالی نے علم و حکمت عطا کیا ہے اور وہ اس کی مدد سے لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔(بخاری)
نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "تم حسد کی وباء سے کثرت کے ساتھ پرہیز کرو حسد انسان کی نیکیوں کواس طرح کھا لیتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ (مشکوٰة، ابوداؤد)
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: " نہ مال و دولت کی حرص میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرو اور نہ ہی آپس میں حسد کرو"۔ (بخاری، مسلم)
نبی کریمﷺ نے فرمایا: " حسد کرنے والے کا، چغل خور کا اور کاہن کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی میرا ان کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی:-
وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا۔
ترجمہ: "اور جو لوگ مومِن مَردوں اور مومِن عورتوں کو اذیتّ دیتے ہیں بغیر اِس کے کہ انہوں نے کچھ (خطا) کی ہو تو بیشک انہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (اپنے سَر) لے لیا"۔ (الاحزاب:58 (الترغب والترہیب)
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: "بکریوں کے ریوڑ پر چھوڑے گئے دو بھوکے بھڑیئے بھی بکریوں کا اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال کا حرص اور حسد مسلمان کے دین کا نقصان کرتے ہیں"۔ (الترغیب والترہیب)۔
نبی اکرم ﷺ سے صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم میں کون انسان افصل ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں ہر وہ آدمی افضل ہے جو مخموم القلب اور زبان کا سچا ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ زبان کا سچا ہونا تو ہم جانتے ہیں لیکن مخموم القلب کون ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: مخموم القلب وہ ہے جو پرہیزگار اور پاکباز ہو اس میں نہ گناہ ہو نہ بغاوت، نہ کھوٹ ہو اور نہ ہی حسد ہو"۔ (الترغیب والترہیب)
رسول اکرم ﷺنے فرمایا: "اگلی امتوں کی مہلک بیماری یعنی حسد اور بغض تمہارے اندر پیدا ہو رہی ہے۔ یہ بیماری مکمل صفایا کردینے والی اور مونڈ دینے والی ہے۔پھر آپ ﷺ نے اپنا مطلب واضح کیا اور فرمایااس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ بیماری بالوں کو مونڈنے والی ہے بلکہ یہ بری عادت دین کو مونڈ ڈالتی ہے اور دین کا بالکل صفایا کر دیتی ہے"۔ (ترمذی، السنن الکبریٰ)
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "تم سے پچھلی امتوں کی بیماریوں میں سے بغض و حسد کی بیماری تمہارے اندر داخل ہو گئی ہے۔ کیا میں تمہیں کوئی ایسی چیز نہ بتا دوں جس سے تمہارے اندر محبت پیدا ہو جائے ؟ وہ یہ ہے کہ تم آپس میں سلام کو عام کرو"۔ (ترمذی)
جاری...........................
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism