مصباح الہدیٰ قادی، نیو ایج اسلام
7 مارچ 2017
لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر دہشت گردوں کے حالیہ حملے نے جہاں پوری انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے وہیں اس وحشت ناک حملے نے تمام عالم اسلام کو شرمسار بھی کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری انسانیت بالعموم، اور عالم اسلام بالخصوص ایک انتہائی کربناک کیفیت سے دوچار ہے۔ اور پوری امت مسلمہ بے بس سسکیاں اس لیے لے رہی ہے کہ آج اس کے پاس اسی کوئی قیادت نہیں ہے جو کاروانِ حیات کو نشانِ منزلِ مقصود سے روشناس کرا سکے۔ اور حالات اتنے بدتر ہو چکے ہیں کہ اس بات کا تعین کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے کہ آج انسانیت کا قاتل کون ہے اور انسانیت کا محافظ کون ہے۔ اس کاروانِ انسانیت کا راہبر کون ہے اور راہزن کون ہے۔اس لیے کہ آج لوگوں کے چہروں پر نقاب ہیں اور ان کے کردار کی گونج انتہائی زبردست ہے، لیکن انسایت کی حرماں نصیبی کہ آج لوگوں کی شناخت ان کے کردار کی بنا پر نہیں بلکہ ان کے چہروں اور عہدوں کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔ اب تک نہ جانے کتنے شہر ویران ہو گئے اور نہ جانے کتنی لاشیں گر چکیں لیکن آج کا اہل علم اور اہل دانش طبقہ فیصلۂ نفع و ضرر نہ کر سکا۔
ایسا نہیں ہے کہ لوگ دہشت گردی اور انتہاء پسندی کی اس لعنت کو ختم کرنے کے لیے کوئی تدبیر نہیں کر رہے۔ بلکہ آج ہر انسان اور اہل فکر و نظر کا ہر طبقہ اپنی اپنی بصیرت اور فہم و ادراک کے مطابق اپنی تجاویز اور تدابیر پیش کر رہا ہے۔کسی کا یہ ماننا ہے کہ انتہاء پسندوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے جائیں تو کسی کا یہ ماننا ہے کہ علمی اور فکری سطح پر ان کے نظریات کی تردید کی جائے۔ کسی نے یہ کہا کہ اسلامی نظریۂ حیات اور نظام قانون کے باب میں احادیث کو غیر معتبر اور غیر مستند قرار دیا جائے اور شرعی قوانین کو اسلامی ساکھ کے لئےمضرت رساں قرار دیکر اس سے برأت کا اظہار کر دیا جائے۔ اہلِ علم دانش کے ایک طبقہ نے یہ نظریہ پیش کیا کہ انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ تبھی ممکن ہے جب ہم تمام امور میں صرف اور صرف قرآن کو ہی حجت مانیں اور حکمت و دانائی اور بے شمار علوم معارف کے مصدر و منبع احادیث کے ذخیرہ کو پر امن بقائے باہمی کے لئے خطرہ مانیں۔
میں اہل علم و دانش کے سامنے یہ سوال رکھنے کی جرأت کروں گا کہ کیا ہم نے واقعی دہشت گردی کی شناخت کر لی ہے؟ اب تک نہ جانے کتنی لاشیں گر چکی ہیں لیکن دہشت گردی کی لہر اب بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے، جو کہ اس بات کی صریح علامت ہے کہ ہم اب تک اصل مرض کا سراغ لگانے اور اس کا علاج تلاش کرنے میں نا کام ہی رہے ہیں۔انتہائی افسوس کی بات ہے کہ دہشت گردی سے لڑنے کے نام پر شہروں کے شہر کو خاک و خون میں تبدیل کر دینے والے ترقی یافتہ ممالک اب بھی دہشت گردی کے حقیقی اسباب کی تشخیص کرنے میں نا کام ہیں۔ اس لیے کہ دہشت گردی کا سرچشمہ انتہاء پسندی ہے اور انتہاء پسندی ایک نظریہ ہے۔
لہٰذا، ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج اس امر کا تعین کرنا ہے کہ انتہاء پسندی کے اسباب و علل کیا ہیں؟ اور جب ہم اس امر پر غور کرتے ہیں تو ہم یہ پاتے ہیں کہ جہاں دہشت گردی کے مذہبی اور سیاسی عوامل ہیں وہیں اس کے پیچھے معاشی، معاشرتی، سماجی، علاقائی اور بین الاقوامی عوامل بھی ہیں۔لہٰذا، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی سے جنگ کے نام پر محض کچھ مخصوص علاقوں پر حملہ کردینے سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اس لئے کہ جس طرح انتہاء پسند نظریات سے متأثر ہو کر مذہب کے نام پر خون بہانا ایک سنگین جرم اور انسانیت کا قتل ہے اسی طرح دہشت گردی سے جنگ کے نام پر بلا امتیاز شہریوں پر حملے کرنا، آبادیوں اور بستیوں پر چڑھائی کرنا اور شہروں اور قصبوں کو حصار میں لینا بھی ایک انتہائی سنگین جرم اور انسانیت کا خون ناحق بہانا ہے۔ اور ہمیں یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ اگر ہم نے دہشت گردی کی جنگ میں انتہاء پسندی کے دیگر متعدد عوامل و محرکات سے صرف نظر کیا تو اس کے منفی نتائج برآمد ہوں گے۔
بہر کیف! آج میری اس تحریر کا عنوان یہ ہے کہ کیا اسلام ہمارے معاشرے کو دہشت گردی کی لعنت سے محفوظ رکھنے میں ہمیں کوئی رہنمائی فراہم کرتا ہے؟ جی ہاں! اور ہمارے لئے یہ امر باعث افتخار ہونا چاہئے کہ ہم اللہ کے ایسے نبی کا کلمہ پڑھتے ہیں جنہوں نے قیامت تک پیدا ہونے والے ہر ایک فتنے کا نام لے لیکر اپنی امت کو ان سے آگاہ کیا ہے اور امت کو ان سے پچنے کی تلقین فرمائی ہے۔
امام بخاری کے استاذ اور شیخ امام نُعیم بن حماد نے آج سے تقریباً 12 سو سال پہلے حدیث کی ایک کتاب مرتب فرمائی جس کا نام ہے ‘‘کتاب الفتن’’، اور اس کتاب میں آپ نے ان احادیث کو جمع کیا ہے جن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک پیدا ہونے والے فتنوں کو ان کی علامات اور تفصیلات کے ساتھ بیان کیا ہے۔
اس حدیث کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، آپ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا خرجت الرايات السود فإن أولها فتنة وأوسطها ضلالةوآخرها كفر(کتاب الفتن: حدیث نمبر 551)
ترجمہ: ایک ایسا زمانہ آئے گا جب کالے جھنڈوں والی جماعت ظاہر ہوگی، ان کی ابتداء فتنہ ہوگا، ان کا درمیان ضلالت و گمراہی ہوگی اور ان کا خاتمہ کفر ہوگا۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/islamic-world-helpless-humanity-/d/110321
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism