New Age Islam
Fri Mar 24 2023, 06:46 PM

Urdu Section ( 22 Oct 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Is It Possible To See Allah Almighty Through The Corporeal Eyes? Part-2 کیا ان مادی نگاہوں سے ذات باری تعالیٰ کا دیدار ممکن ہے؟

مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام

22 اکتوبر 2018

دلچسب بات یہ ہے کہ علمائے دیوبند کہ جنہوں نےخالص توحید پرستی کے نام پر آفتاب رسالت حضور رحمت عالم محمد ﷺ کی شان اقدس میں زبردست گستاخیاں کی ہیں جس کا ثبوت اکابر علمائے دیوبند کی وہ کتابیں ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کفریہ عبارتوں سے بھری پڑی ہیں ، لیکن انہوں نے بھی ہمارے نبی ﷺ کے لئے رویت باری تعالیٰ کو جائز اور حق مانا ہے ، مناسب ہے کہ علمائے اہلسنت کا موقف بیان کرنے سے قبل علمائے دیوبند کا موقف بیان کر دیا جائے تاکہ اس میں کوئی شک و ارتیاب باقی نہ رہے کہ ہمارے بنی ﷺ کے حق میں رویت باری تعالیٰ کا جائز اور ثابت ہونا ایک امر مسلم ہے ۔ دیوبندی مسلک کے ایک ممتاز عالم دین مولانا الیاس گھمن سے رویت باری تعالیٰ کے بارے میں سوال کیا گیا اور اس پر صحابہ کرام اور علمائے دیوبند کے موقف کی وضاحت بھی طلب کی گئی جس کے جواب میں انہوں نے یہ صاف لکھا کہ صحابہ کرام کی اکثریت کا یہی موقف ہے کہ ہمارے نبی ﷺ کو رویت باری تعالیٰ ہوئی اور علمائے دیوبند کا بھی یہی موقف ہے ، فتویٰ کی تفصیل حسب ذیل ہے ؛

سوال: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم معراج پر تشریف لےگئے تو اللہ تعالیٰ کادیدار نہیں ہوا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کے برعکس روایت ہے۔ اس پر چند سوالات ہیں:

💢* دونوں میں تطبیق کی کیا صورت ہے؟

* عدم رؤیت کے سلسلہ میں زیادہ احادیث ہیں یا رؤیت کے سلسلہ میں؟

* کیا اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم عدمِ رؤیت پر ہے؟

* نیز علماء دیوبند کا مسلک کیا ہے؟

بحوالہ جواب عنایت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔ سائل: محمدافسر علی

📚الجواب:

شق وار جوابات ملاحظہ ہوں:

نمبر1 - حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایات میں تطبیق

پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا موقف اور مستدل ملاحظہ کر لیا جائے تو دونوں قسم کی روایات میں تطبیق سمجھنا آسان ہو گی۔ آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے موقف کو بیان کرتے ہوئے قرآنی آیت یوں پیش کی ہے:

من زعم أن محمدا صلى الله عليه وسلم رأى ربه فقد أعظم على الله الفرية… أو لم تسمع أن الله يقول! < لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير > !

(صحیح مسلم)

ترجمہ: جو یہ سمجھتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علہی و سلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھتا ہے۔ کا آپ نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا کہ اللہ فرماتے ہیں: ”آنکھیں اس (اللہ) کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ (اللہ) آنکھوں کا احاطہ کرتا ہے اور اللہ باریک بین خبردار ہے“

🌼یہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے موقف پر حدیث مرفوع پیش نہیں کی بلکہ آیت”لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ“کو پیش کیا ہے۔ آیت میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں”ادراک“کی نفی ہے،”رؤیت“کی نفی نہیں۔ ادراک کی نفی سے رؤیت کی نفی لازم نہیں آتی۔ چنانچہ علامہ فخر الدین الرازی (م604ھ) لکھتے ہیں:

المرئي اِذا کان له حد ونهاية و أدرکه البصر بجميع حدوده و جوانبه ونهاياته صار کأن ذلک الابصار أحاط به فتسمی هذه الرؤية اِدراکاً أما اِذا لم يحط البصر بجوانب المرئي لم تسم تلک الرؤية اِدراکاً فالحاصل أن الرؤية جنس تحتها نوعان رؤية مع الاحاطة و رؤية لا مع الاحاطة و الرؤية مع الاحاطه هي المسماة بالادراک فنفي الادراک يفيد نوع واحد من نوعي الرؤية و نفی النوع لا يوجب نفی الجنس فلم يلزم من نفی الادراک عن اﷲ تعالی نفی الرؤية عن اﷲ تعالی.

(تفسیر کبیر: ج13 ص104)

ترجمہ: دیکھی جانے والی چیز کی جب حد اور انتہاء ہو اور دیکھنے والی نظر تمام حدود، اطراف اور انتہاؤں کو گھر لے تو گویا اس نظر نے اس چیز کو گھیر لیا۔ اس دیکھنے کو ”ادراک“ کہا جاتا ہے، لیکن جب نظر دیکھی جانے والی چیز کے اطراف کا احاطہ نہ کرے تو اس دیکھنے کا نام ادراک نہیں ہوتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ دیکھنا ایک جنس ہے جس کے نیچے دو انواع ہیں، ایک دیکھنا احاطے کے ساتھ اور دوسرا دیکھنا بلا احاطہ کئے۔ صرف احاطے والے دیکھنے کو ”ادراک“ کہا جاتا ہے۔ پس ادراک کی نفی سے دیکھنے کی ایک قسم کی نفی ثابت ہوئی اور ایک نوع کی نفی سے جنس کی نفی نہیں ہوتی۔ پس اﷲ کے ”ادراک“ کی نفی سے اﷲ کے ”دیکھنے“ کی نفی لازم نہیں آتی۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے استدلال کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کو ایسے نہیں دیکھا جیسے کسی چیز کو اس کے تمام اطراف و جوانب کا احاطہ کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔

💥 اب دونوں روایات میں تطبیق یوں دی جا سکتی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں دیکھنے سے مراد”بغیر احاطہ کئے دیکھنا“ہو اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں  نفی سے مقصود ”احاطہ کرتے ہوئے دیکھنے“ کی نفی ہو۔ چنانچہ علامہ بدر الدین عینی (ت855ھ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مستدل ”لا تدركه الأبصار“ کو نقل کر کےلکھتے ہیں:

المراد بالإدراك الإحاطة ونفي الإحاطة لا يستلزم نفي نفس الرؤية وعن ابن عباس لا يحيط به.

(عمدۃ القاری: جزء22 ص484)

ترجمہ: ”ادراک“ سے مراد ایسا دیکھنا ہے جس میں کسی کو احاطہ کے ساتھ (یعنی تمام اطراف سے) دیکھنا پایا جائے، اس لیے احاطہ کے ساتھ دیکھنے کی نفی کرنے سے مطلق دیکھنے کی نفی لازم نہیں آتی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جو رؤیت منقول ہے وہ ایسی نہیں جس میں احاطہ کے ساتھ دیکھنا ہو۔

نمبر 2 - رؤیت باری تعالیٰ کے سلسلے میں روایات حضرت ابن عباس، حضرت انس بن مالک، حضرت ابو ہریرہ، حضرت ابو ذر، حضرت عروہ بن زبیر وغیرہ سے مروی ہیں۔

(دیکھئے ؛ الخصائص الکبریٰ: ج1ص268، ، الجامع لاحکام القرآن: ج7 ص56، تفسیر عبد الرزاق: ج3 ص252)

اور عدم رؤیت کی روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے (جس کا صحیح مفہوم پیش کیا جا چکا) اور بعض کے ہاں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے (جبکہ قاضی عیاض مالکی نے حضرت ابن مسعود کو مثبتین رؤیت میں شمار کیا ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے)

🔍اس لئے رؤیت کی روایات ہی زیادہ معلوم ہوتی ہیں۔

نمبر 3 - جمہور صحابہ کرام رؤیت باری تعالیٰ کے قائل ہیں۔

🍀 چنانچہ شخ محمد الفضیل بن محمد نے قاضی عیاض مالکی کے حوالے سے لکھا ہے:

وذهب جماعة إلى إثباتها ووقوعها، منهم ابن عباس وسائر أصحابه، وأنس بن مالك وأبو ذر وعروة بن الزبير، وبه جزم كعب الأحبار والزهري ومعمر وآخرون، وحكي عن ابن مسعود وأبي هريرة أيضا.

(الفجر الساطع علی الصحیح الجامع: ج6 ص96)

ترجمہ: ایک جماعت کا موقف یہ ہے کہ رؤیت ثابت و واقع ہے۔ ان میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور آپ کے سارے شاگرد، حضرت انس بن مالک، حضرت ابو ذر، حضرت عروہ بن زبیر، حضرت کعب بن احبار، امام زہری، امام معمر اور دیگر حضرات شامل ہیں ۔ نیز یہی موقف حضرت ابن مسعود اور حضرت ابو ہریرہ سے بھی مروی ہے۔

 مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

”جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین کا یہی مذہب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے پروردگار کو سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے اور محققین کے نزدیک یہی قول راجح اور حق ہے۔“

(سیرۃ المصطفیٰ: ج1 ص311)

🍀 حضرت مولانا مفتی محمود کے فتاویٰ میں ہے:

”جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم نیز ائمہ اربعہ و علماء اہل السنت والجماعت رحمۃ اللہ علیہم کا مسلک یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے معراج کی رات اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا ہے۔ “

(فتاویٰ مفتی محمود: ج1 ص328)

نمبر 4 - علماء دیوبند کا موقف اثباتِ رؤیت باری تعالیٰ کا ہے۔

📌 حضرت مولانا محمد مالک کاندھلوی رحمہ اللہ معارف القرآن کے تکملہ میں لکھتے ہیں:

”خاتم المحدثین حضرت سید انور شاہ کشمیری اور استاذی شخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہما اللہ تعالیٰ کی رائے یہ ہے کہ معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو رؤیت خداوندی ہوئی ہے۔“

(تکملہ معارف القرآن: ج7 ص567)

📌مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ کا حوالہ ابھی گزرا ہے کہ انہوں نے رؤیت کا اثبات لکھا ہے۔

(سیرۃ المصطفیٰ: ج1 ص311)

📌 حضرت مولانا محمد یوسف لدھا نوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

”صحیح یہ ہے کہ دیکھا ہے مگر دیکھنے کی کیفیت  معلوم نہیں“

(آپ کے مسائل اور ان کا حل: ج1 ص315)

📌 حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی (تفسیر معالم العرفان: ج17 ص391)

📌 حضرت مولانا محمد حفظ الرحمٰن سیوہاروی (قصص القرآن: ج2 ص534)

واللہ اعلم بالصواب

(مولانا) محمد الیاس گھمن

16- دسمبر 2016ء

(ماخذ: https://arfabsc.wordpress.com/2016/12/17/معراج-اور-رویت-باری-تعٰالیٰ/ )

URL for Part-1: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-possible-see-allah-almighty-part-1/d/116668

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-possible-see-allah-almighty-part-2/d/116688

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..