مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
16 اپریل 2019
کلمہ توحید ورسالت زبان سے ادا کرنے اور اللہ کو اپنا معبود اور پیغمبر اعظم محمد ﷺ کو اپنا شاہد اور بشیر و نذیر تسلیم کرنے لینے کے بعد کیا یہ سوال کوئی اہمیت رکھتا ہے کہ قرآن ہمیں رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرنے کا حکم دیتا ہے یا نہیں؟ یہ سوال دین کی سطحی جانکاری رکھنے والے کسی فرد کی جانب سے ہو تو اس کی کچھ اہمیت بنتی ہے لیکن قرآن فہمی کا زعم رکھنے والے اہل ہی اس قسم کے سوالات میں الجھ جائیں اور اپنے غیر قرآنی افکار و نظریات سے امت کے سادہ مزاج افراد کو تذبذب و تشکیک کا شکار بناڈالیں تو اس مسئلے کی صحیح تصویر پیش کرنا ایک امر ناگزیر بن جاتا ہے۔
اس ضمن میں امت کے اندر چار طبقات پائے جاتے ہیں۔ (۱) جو اطاعت پیغمبر اسلام ﷺ کی یکسر نفی کرتے ہیں۔ (۲) جو اطاعت پیغمبر اسلام ﷺ کو جزو ایمان اور اصل منشائے الٰہی تصور کرتے ہیں۔ (۳) جو معمولات دین اور معمولات دنیا میں تفریق کرتے ہیں ، معمولات دنیا میں پیغمبر اسلام ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری سے انکار کرتے ہیں اور معمولات دین میں سے بھی صرف معمولات عبادات میں پیغمبر اسلام ﷺ کی پیروی کو جائز مانتے ہیں۔ (۴) جو دین کے معاملے میں پیغمبر اسلام ﷺ کی ذات مقدسہ کو حجت تو نہیں مانتے لیکن بے شعوری میں یا لوگوں کی نظروں میں مسلمان بنے رہنے کے لئے بوجہ مجبوری اپنے دینی و دنیاوی معاملات میں آپ ﷺ کی پیروی کرتے ہیں۔
قسم اول کے لوگوں سے قرآن کا خطاب
رسولوں کی بعثت کا مقصد ہی یہی ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے، حتی کہ اللہ کی مغفرت اور رحمت کا حصول بھی رسول ﷺ کی طرف متوجہ ہونے سے ہی وابستہ ہے، اور یہ سب کچھ یونہی نہیں بلکہ اللہ کے اذن سے موئد ہے۔ قرآن کہتا ہے؛
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا (4:64)
ترجمہ: اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب! تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔ (کنز الایمان)
جس نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی اس نے بلا شبہ اللہ کی اطاعت کر لی اور جس نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت سے رو گردانی کی اس سے اللہ نے اپنے نبی کو بےنیاز کر دیا ہے۔ قرآن کہتا ہے؛
مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ ۖ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا (4:80)
ترجمہ: جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا اور جس نے منہ پھیرا تو ہم نے تمہیں ان کے بچانے کو نہ بھیجا۔ (کنز الایمان)
مؤمن در اصل وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی دعوت میں کسی بھی حیلے بہانے سے کوئی فرق نہ کرے اور رسول ﷺ جو فیصلہ فرمادیں خواہ دین کا ہو خواہ دنیا کا ، تو اسے سنے اس پر عمل کرے، یہی کامیابی کی راہ ہے۔ قرآن فرماتا ہے؛
إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (24:51)
ترجمہ: مسلمانوں کی بات تو یہی ہے جب اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں کہ رسول ان میں فیصلہ فرمائے کہ عرض کریں ہم نے سنا اور حکم مانا او ریہی لوگ مراد کو پہنچے۔ (کنز الایمان)
رب ذوالجلال نے اپنی قسم یاد کر کے فرمایا ہے کہ کوئی بھی اس وقت تک ایمان حاصل کر ہی نہیں سکتا جب تک اپنے نزاعی معاملات میں آپ ﷺکے فیصلے پر سر تسلیم خم نہ کر لے اور آپ کے فیصلے پر ان کے دل میں کوئی کھٹکا باقی نہ رہے، اب جو یہ مانتے ہیں کہ صرف عبادت کے معاملات میں اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت ماذون ہے انہیں چاہئے کہ محض اپنی رائے کا دمن چھوڑ کر کوئی دلیل قرآن سے بھی پیش کریں۔ قرآن کہتا ہے۔
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (4:65)
ترجمہ: تو اے محبوب! تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں۔ (کنز الایمان)
اللہ اور اللہ کے رسول کی دعوت دلوں کی زندگی کی ضامن ہے ، اسی لئے جس بھی معاملے میں اللہ یا اللہ کے رسول ﷺ کا کوئی حکم یا کوئی فرمان مل جائے اس کی پیروی شرط ایمان ہے۔ قرآن کہتا ہے؛
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (8:24)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے بلانے پر حاضر ہو جب رسول تمہیں اس چیز کے لیے بلائیں جو تمہیں زندگی بخشے گی اور جان لو کہ اللہ کا حکم آدمی اور اس کے دلی ارادوں میں حائل ہوجا تا ہے اور یہ کہ تمہیں اس کی طرف اٹھنا ہے۔ (کنز الایمان)
قرآن نے ایسی مشاورت سے بھی مسلمانوں کو منع کیا ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کا پہلو نکلتا ہو۔ قرآن کہتا ہے؛
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (58:9)
ترجمہ: اے ایمان والو تم جب آپس میں مشورت کرو تو گناہ اور حد سے بڑھنے اور رسول کی نافرمانی کی مشورت نہ کرو اور نیکی اورپرہیزگاری کی مشورت کرو، اور اللہ سے ڈرو جس کی طرف اٹھائے جاؤ گے۔ (کنز الایمان)
قرآن کی بات مانتے ہوئے بھی رسول ﷺ سے بے نیازی اور روگردانی کا اظہار کرنا منافقت ہے ۔ قرآن کہتا ہے؛
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا (4:61)
ترجمہ: اور جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب اور رسول کی طرف آؤ تو تم دیکھو گے کہ منافق تم سے منہ موڑ کر پھر جاتے ہیں۔ (کنز الایمان)
نار جہنم سے آزاد ہونے کے لئے اللہ اور اس کے رسول ﷺ دونوں کی اطاعت لازم و ضروری ہے ورنہ جہنم میں ہمارا یہ حال ہونے والا ہے، قرآن کہتا ہے؛
يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا (33:66)
ترجمہ: جس دن ان کے منہ الٹ الٹ کر آگ میں تلے جائیں گے کہتے ہوں گے ہائے کسی طرح ہم نے اللہ کا حکم مانا ہوتا اور رسول کا حکم مانا ہوتا۔ (کنز الایمان)
اولاً تو قرآن نے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے حکم میں قطعی کوئی تفریق نہیں رکھی ہے ، لیکن جب کسی بھی معاملے میں اللہ کا یا اللہ کے رسول ﷺ کا کوئی حکم وارد ہو جائے تو اب اس معاملے کا اختیار مؤمنوں کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے ، یعنی اس میں کوئی دوسری راہ نکالنے کی کوشش کرنا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی ہے اور سراسر ضلالت و گمراہی۔ قرآن کہتا ہے؛
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا (33:36)
ترجمہ: اور نہ کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ و رسول کچھ حکم فرمادیں تو انہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے اور جو حکم نہ مانے اللہ اور اس کے رسول کا وہ بیشک صر یح گمراہی بہکا۔ (کنز الایمان)
رسول کا عمل راہ حق و ہدایت ہے اور عمل رسول کے خلاف جانا ضلالت و گمراہی اور ایسی سخت معصیت ہے کہ اللہ نے اس کا ارتکاب کرنے والوں کی اصلاح اور ہدایت کا ارادہ ہی ترک فرما دیا ہے اور وہ اسی لعنت میں گرفتار رہیں گے حتی کہ جہنم میں ڈال دئے جائیں گے۔
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (4:115)
ترجمہ: اور جو رسول کا خلاف کرے بعد اس کے کہ حق راستہ اس پر کھل چکا اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ چلے ہم اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دیں گے اور اسے دوزخ میں داخل کریں گے اور کیا ہی بری جگہ پلٹنے کی۔ (کنز الایمان)
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ غفلت میں ہم مقام رسالت مآب ﷺ کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ایسی کوئی بات کہہ دیتے ہیں جو در اصل رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی ہوتی ہے اور ہمیں اس کا شعور بھی نہیں ہوتااور اس کا وبال یہ ہوتا ہے کہ ہمارے ایمان فتنوں کا شکار ہو جاتے ہیں یا ہم عذاب الٰہی کے مستحق بن جاتے ہیں۔ لہٰذا بہر صورت کچھ کہنے یا لکھنے سے قبل ہمیں مقام رسالت مآب ﷺ کا خیال رکھنا چاہئے۔ قرآن فرماتا ہے؛
لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (24:63)
ترجمہ: رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرالو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے بیشک اللہ جانتا ہے جو تم میں چپکے نکل جاتے ہیں کسی چیز کی آڑ لے کر تو ڈریں وہ جو رسول کے حکم کے خلاف کرتے ہیں کہ انہیں کوئی فتنہ پہنچے یا ان پر دردناک عذاب پڑے۔ (کنز الایمان)
نیز
إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (8) لِّتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا (48:9 )
بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا - تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو
اب جو آیت ذیل میں پیش کی جا رہی ہےاس نے اطاعت کے باب میں اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان فرق کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا ہے اور ان دونوں کے درمیان فرق کرنے والے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے درمیان ایک تیسری راہ نکالنے والے کو واضح طور پر حقیقی کافر قرار دیا ہے اور ان کے لئے درد ناک عذاب کی وعید بھی بیان کر دی ہے۔ آیت ملاحظہ ہو؛
إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا (4:150) أُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا (4:151)
ترجمہ: وہ جو اللہ اور اس کے رسولوں کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اللہ سے اس کے رسولوں کو جدا کردیں اور کہتے ہیں ہم کسی پر ایمان لائے اور کسی کے منکر ہوئے اور چاہتے ہیں کہ ایمان و کفر کے بیچ میں کوئی راہ نکال لیں - یہی ہیں ٹھیک ٹھیک کافر اور ہم نے کافروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ کنزالایمان
جاری...............
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-following-prophet-pbuh-his-part-1/d/118362
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism