New Age Islam
Tue Mar 28 2023, 05:43 PM

Urdu Section ( 7 Sept 2017, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Iqbal’s Mo’min as Reflected in Qur’an (Part-2) اقبال کا مردِ مؤمن بزبانِ قرآن


مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام

7 ستمبر 2017

 

 

شہود کیسے ہو حاصل اسے زمانے میں

وجود جس کا نہیں جسدِ خاک سے آزاد

اقبال نے جس انسان کامل کا نظریہ پیش کیا ہے وہ ایک طویل جد و جہد کا نتیجہ ہے جو متعدد مراحل طے کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ اور انسان کامل کے راستے میں ان مراحل کا ذکر اقبال نے کبھی آدم خاکی ، کبھی آدم نوری اور کبھی آدم حقیقی کے عنوان سے کیا ہے۔ جب ایک انسان تعینات بشریت میں الجھا ہوا ہوتا ہے یعنی جب تک وہ حقیر دنیاوی اور نفسانی خواہشات اور مادی اور بشری علائق سے گھرا ہوا ہوتا ہے تو وہ آدم خاکی کے مقام پر ہوتا ہے۔ جب انسان تعینات بشریت یعنی حقیر دنیاوی اور نفسانی خواہشات اور مادی اور بشری علائق کو شکست دیکر بشری تقاضوں اور لوازمات سے بے نیاز ہو جاتا ہے تو پھر وہ آدم نوری کے مقام کو حاصل کر لیتا ہے۔ لیکن اقبال کا انسان کامل آدم نوری کے مقام پر فائز ہو کر بھی اپنے اصل مقام سے دور ہوتا ہے اس لئے کہ ملکیت اور نورانیت بھی ایک تعین ہے اور انسان اس میں بھی گرفتار ہو جاتا ہے ، اسی لئے انسان کامل کا مقام ان تعینات بشریت و نورانیت سے بھی بلند ہے۔  تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس کے پرواز کی منتہیٰ کیا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایک انسانِ کامل کی پرواز کی آخری منزل عالم بشریت سے اٹھ کر عالم ملکیت و نورانیت کی وہ آخری سرحد ہے جہاں پہنچ کر جبرئیل امین بھی یہ اقرار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ:

اگر یک سرِ موئے برتر پرم

فروغ تجلیٰ بسوزد پرم

اگر اب میں ایک بال کی نوک کے برابر بھی آگے بڑھا تو تجلیات ربانی کے فروغ سے میرا پر جل جائے گا۔(شیخ سعدی شیرازی)

اس مقام پر پہنچ کر انسانِ کامل مقام مظہریت پر فائز ہو جاتا ہے ، یعنی وہ محبوب حقیق کی تجلیات کا مظہر بن جاتا ہے اور پھر یہاں سے عالم حقیقت کی طرف اپنی پرواز کا غاز کرتا ہے ، اور جب وہ اپنی حقیقت کے ساتھ اپنے وطن اصلی کا طرف بڑھتا ہے تو وہ اس حال میں ہوتا ہے کہ تعینات بشریت اور تعینات ملکیت و نورانیت اس کی گردِ سفر کو بھی نہیں پاسکتے ، لہٰذا، اس مقام پر اس کے محبوب حقیقی یا مقصود اصلی کی بارگاہ سے یہ ندا اس کا استقبال کرتی ہے:

ثُم دَناَ فَتَدَل ۔ فَکاَنَ قَابَ قَوسَینِ اَو اَدنیٰ۔ (9-53:8)

 پھر وہ قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا۔پھر دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم۔

 اس مقام پر محبوب و محب ، عبد و معبود اور طالب و مطلوب کے جلوے اس قدر قریب ہوتے ہیں کہ درمیان میں صرف دو کمانوں کا ہی فاصل رہ جاتا ہے ۔ لیکن جب ان دونوں کی حقیقت بے نقاب ہوتی ہے تو وہ دوکمانوں کے برابر اس فاصلے کو بھی گوارہ نہیں کرتی بلکہ قرآن کہتا ہے کہ وہ دو کمانوں سے بھی زیادہ قریب ہو جاتے ہیں۔

اس مقام پر عبد و معبود کے درمیان قرب کے باب قرآن مجید کی مذکورہ آیت کریمہ کے حوالے سے چند روشن ضمیر عرفاء کا یہ کہنا ہے کہ قرآن کریم میں طالب و مطلوب کے درمیان قرب کی اس مقدار کے بیان کا مقصد ان دونوں کے درمیان اتصال نہیں بلکہ قرب کی اس کیفیت کو بیان کرنا مقصود ہے جہاں ان دونوں کے درمیان خالق و مخلوق اور عبد و معبود کے علاوہ اور کوئی فرق قائم نہیں رہتا۔ ورنہ عبد و معبود اور خالق و مخلوق کے درمیان نہ اتصال عددی ممکن ہے اور نہ ہی اتصال طبعی ممکن ہے۔

پھر اس مقام سے انسانِ کامل اللہ کی بارگاہ سے خلعت مظہریت لے کر واپس ہوتا ہے جس کے بعد شان نیابت و خلافت اس انسانِ کامل پر اپنے عروج اور کمال کے ساتھ مرتب ہوتی ہے۔ اقبال نے انسانِ کامل یا مرد مؤمن کے اسی روحانی عروج و ارتقاء کا ذکر اپنے اس شعر میں کیا ہے:

شہود کیسے ہو حاصل اسے زمانے میں

وجود جس کا نہیں جسد خاک سے آزاد

اس قدر تفصیل کے بعد میں تصوف و سلوک کے چند مبادیات کا ذکر اس سلسلے میں ضروری سمجھتا ہوں تاکہ یہ گفتگو ہر خاص و عام کے لئے افادیت بخش ہو سکے۔ مذکورہ بالا سطور میں انسان کامل یا اقبال کے مرد مؤمن کا جو رحانی سفر بیان کیا گیا ہے اس کے سات مراحل ہیں:

پہلا مرحلہ : نفس امارہ

نفس امارہ کے بارے میں قرآن کا فرمان ہے "إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ (12:53) بے شک نفس امارہ برائی پر اکسانے والا ہے"۔ انسان جب تک نفس امارہ میں گرفتار رہتا ہے نیکی اس کے چشم تصور سے بھی دور رہتی ہے اور وہ سراپا معصیت و نافرمانی کی تصویر بنا ہوا ہوتا ہے۔

دوسرا مرحلہ : نفس ملہمہ

جب انسان معصیت کی دنیا سے خروج کا اپنا سفر شروع کرتا ہے تو اسے نفس ملہمہ عطا کیا جاتا ہے، قرآن میں نفس ملہمہ کے تعلق سے اللہ کا فرمان ہے ، "فَاَلھَمَھَا فُجُورَھَا وَ تَقوٰھَا (91:8) پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری سمجھا دی" ، یعنی نفس لوامہ حاصل ہونے کے بعد بندے کے اندر سے معصیت کی شدت کم ہو جاتی ہے اور بندہ نیکی اور بدی کے درمیان امتیاز کرنا شروع کر دیتا ہے۔

تیسرا مرحلہ : نفس لوامہ

جب بندہ بدی اور معصیت سے ہجرت کرنے کے بعد اپنے سفر کے تیسرے پڑاؤ پر قدم رکھتا ہے تو اسے نفس لوامہ حاصل ہوتا ہے۔ جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان بدی پر لعنت بھیجنا اور معصیت کی ملامت کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس مقام پر بندے کو نیکیوں سے محبت ہو جاتی اور وہ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کے راستے پر نکل پڑتا ہے۔ راہ سلوک و معرفت میں نفس لوامہ کو سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے ، اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت خود نفس لوامہ کی قسم فرماتا ہے ، "وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ (75:2) مجھے قسم ہے ملامت کرنے والے نفس کی "۔

چوتھا مرحلہ : نفس مطمئنہ

اس کے بعد وہ مرد اپنی روحانی پرواز جاری رکھتا ہے اور اپنے روحانی سفر کے چوتھے مقام پر پہنچتا ہے جہاں اسے نفس مطمئنہ عطا کیا جاتا ہے۔ اور جب وہ انسان نفس مطمئنہ کا حامل ہو جاتا ہے تو اللہ رب العزت کی جانب سے ایک مژدہ جاں فزاں اس کی طرف متوجہ ہوتاہے کہ " يَآ اَيَّتُـهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ۔ اِرْجِعِىٓ اِلٰى رَبِّكِ (الفجر :28-27) ائے اطمینان پا جانے والی نفس۔ اپنے رب کی طرف لوٹ آ"۔ گویا کہ اس مقام پر بندہ مؤمن کو یہ بات یاد دلائی جاتی ہے کہ جس دنیا کی لذات و خواہشات سے ابھی تک تو نے مکمل طور پر نجات حاصل نہیں کیا ہے وہ تیرا اصل وطن نہیں ہے بلکہ تیرا اصل مقام محبوب حقیقی کی قربت اور جلوت گاہ ہے جسے تو فراموش کئے ہوئے ہے۔ لہٰذا، اب اپنے رب کی جلوتوں کی طرف قدم بڑھا جہاں تیریےمحبوب حقیقی کا حسن آشکار اور بے نقاب ہونے کے لئے تیار ہے۔

پانچواں مرحلہ: راضیہ

لہٰذا،وہ "يَآ اَيَّتُـهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ۔ اِرْجِعِىٓ اِلٰى رَبِّكِ" کی آواز پر اس دنیا و ما فیہا سے بے نیاز ہو کر اپنے محبوب حقیقی کی قربتوں اور جلوتوں کی طرف محو پرواز ہوتا ہے تو اسے اس دشوار کن اور مشکل ترین سفر میں قوت اور استقامت سے نوازنے کے لئے نفس راضیہ عطا کیا جاتا ہے جہاں بندہ اپنی تمام تر خواہشات اور اپنے پورے وجود کو اللہ کی رضا میں فنا کر دیتا ہے۔

چھٹھہ مرحلہ : نفس مرضیہ

جب بندہ نفس راضیہ کی تائید اور نصرت و حمایت میں اپنے محبوب حقیقی کی طرف ہر آن اور ہر لحظہ محو پرواز رہتا ہے اور اپنے وجود کو مکمل طور پر اپنے محبوب حقیقی کی رضا میں فنا کر دیتا ہے تو اس کا ثمرہ اسے یہ ملتا ہے کہ اسے نفس مرضیہ کے مقام پر فائز کر دیا جاتا ہے ، اور اللہ کی بارگاہ سے اس کے لئے یہ پیغام صادر ہوتا ہے کہ ائے میرے بندے جب تو بندہ ہو کر ہر حال میں مجھ سے راضی ہے تو پھر میں رب ہو کر ہر حال میں تجھ سے راضی کیوں نہ ہو جاؤں۔

ساتواں مرحلہ : نفس کاملہ

اور جب مرد مؤمن نفس راضیہ و مرضیہ پر ثابت قدم ہو جاتا ہے توپھر اللہ رب العزت اسے نفس کاملہ کی دولت سے نواز دیتا ہے ، اور رب ذو الجلال اس انسان کامل سے اس شان کے ساتھ ہم کلام ہوتا ہے، " فَادْخُلِىْ فِىْ عِبَادِيْ۔ وَادْخُلِىْ جَنَّتِيْ(الفجر : 30-29) پس تو میرے بندوں میں شامل ہو جا۔اور میری جنت میں داخل ہو جا"۔

اس آیت میں توجہ طلب امر یہ ہے کہ وہ اس وقت بھی اللہ کا ہی بندہ تھا جب وہ نفس امارہ کی غلاظتوں میں گھرا ہوا تھا لیکن اللہ رب العزت نے اس وقت اسے "عبدی" یعنی میرا بندہ کے خطاب سے نہیں نوازا تو اب اسے اس خطاب سے کیوں نوازا جا رہا ہے۔ تو اقبال اس مقام پر آ کر اس معمہ سے عقدہ کشائی کرتا ہے کہ جب تک انسان نفس امارہ کی قید میں تھا اور جب تک وہ نفس کاملہ کے مقام پر فائز نہیں ہوا تھا اس وقت تک وہ بندہ تو تھا لیکن منتظِر تھا لیکن نفس کاملہ نے اسے منتظَر بنا دیا ہے ، پہلے وہ طالب تھا اب مطلوب ہو چکا ہے، پہلے فقط محب تھا لیکن اب محبوب بن چکا ہے۔ اسی کو اقبال نے اپنے اس شعر میں بیان کیا ہے:

کبھی ائے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں

کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں

جاری........


URL:https://www.newageislam.com/urdu-section/iqbals-momin-reflected-quran-part-2/d/112462

 

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..