مصباح الہدیٰ قادری
28 اگست 2017
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
انسان کامل یا مرد مؤمن تمام صوفیاء اور عرفاء کی تعلیمات کا ایک نیوکلیائی عنصر رہا ہے۔ ہر صاحب عرفان اور ہر عاشق حق شناس نے اپنی اپنی بصیرت اور عرفانی وجدان کے مطابق ایک انسان کامل یا مرد مؤمن کا خاکہ پیش کیا ہے۔ حتی کہ یونان نے انسانی دیوتا کا بھی تصور پیش کیا۔ لیکن مرد مؤمن یا انسان کامل کے عنوان سے اقبال کا نام سرفہرست اس لئے ہے کہ اقبال کا مرد مؤمن جس عظمت و سطوت کا حامل ہے آج کا (Superman) انسان اعلیٰ اور یونان کا انسانی دیوتا اس کی گرد کو بھی نہیں پا سکتا۔ اس لئے کہ اگر ہم سرسری نگاہ ہے اقبال کے مرد مؤمن کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم یہ پاتے ہیں کہ اقبال کا مرد مؤمن متعدد متضاد حقائق اور مقامات کا آئینہ دار ہے۔ اقبال کا مرد مؤمن بیک وقت خود حقیقت بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ حقیقت کا متلاشی بھی، وہ خاکی اور فرشی بھی ہے اور ملکوتی اور عرشی بھی ، وہ ناسوتی بھی ہےاور لاہوتی بھی ، وہ آزاد بھی ہے اور اسیر بھی ، وہ مخدوم بھی ہے اور خادم بھی ، وہ محو پرواز بھی ہے اور اپنی جگہ قائم و دائم بھی ، وہ سلطان بھی ہے اور درویش بھی ، وہ غنی بھی ہے اور فقیر بھی ، وہ رہبر بھی ہے اور رفیق بھی ، وہ امام و مقتدیٰ بھی ہے اور غلام و مقتدی بھی حتیٰ کہ وہ مرید بھی ہے اور خود مراد بھی۔
لیکن اگر ان صفات کے حامل انسانِ کامل یا اقبال کی زبان میں مرد مؤمن کا ہم بنظر غائر مطالعہ کرتے ہیں تو یہ پاتے ہیں کہ انسان کامل یا مرد مؤمن کا اس سے اعلیٰ تصور کچھ اور نہیں ہو سکتا ، اس لئے کہ انسان کامل کی یہی وہ صفات وخصوصیات اور مقامات ہیں جو انسان کو شان عبدیت پر قائم رکھتے ہوئے اسے کمال اور عروج سے ہم کنار کرتے ہیں۔ ورنہ اس دنیا میں خود انسانوں نے ہی انسانوں کو خدا تسلیم کر کے اس کی پرستش کی ہے جس کے شواہد ہمیں قرآن سے بھی ملتے ہیں اور تاریخ بھی اس کی گواہی دیتی ہے۔
اقبال کا مرد مؤمن ان صفات اور مقامات کا آئینہ دار اس لئے ہے کہ اقبال کا مرد مؤمن وہی ہے جو قرآن کا انسان مرتضیٰ یا نفس کاملہ ہے۔ اس لئے کہ قرآن مجید نے مختلف مقامات پر مختلف عنوانات کے تحت ایک مرد مؤمن کا جو تصور پیش کیا ہے ان سارے صفات و کمالات اور مظاہر و مقامات کو جمع کر کے اگر پیش کر دیا جائے تو اس کا عنوان اقبال کا مرد مؤمن ہوگا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال کے سارے فکر و فلسفہ کا مبداء صرف قرآن ہے۔
اقبال نے مرد مؤمن کا ایک پہلو بیان کرتے ہوئے کہا:
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن
اور یہی تصور قرآن کے اندر اس انداز میں موجود ہے:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہ اَشِدَّاءُ عَلَی الکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَھُمْ تَراھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِنَ اللّٰہِ وَرِضْواناً (سورہ فتح:۲۹)
ترجمہ:
"محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔ آپ انہیں کثرت سے رکوع کرتے ہوئے، سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ (صرف) اﷲ کے فضل اور اس کی رضا کے طلب گار ہیں"۔
اقبال نے اپنے اس شعر میں قرآن کا یہی نظریہ پیش کیا ہے کہ جب مرد مؤمن اپنی کارگاہ حیات میں سرگرم عمل ہوتا ہے اور اس کا سامنا کفر و طاغوت اور ظلم و جبر سے ہوتا ہے تو وہ حق اور باطل کے درمیان ایک دیوارِ آہنی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اور جب یہی مرد مؤمن اپنوں کی مجلس میں ہوتا ہے تو سراپا ناز بردار اور سر تا پا نیازمند نظر آتا ہے۔ اور جب گوشہ تنہائی میں ہوتا ہے تو محبوب حقیقی کی بارگاہ میں سجدوں اور اور آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرتا ہے۔
قرآن نے کہا:
و ما لاحدٍ عندہ من نّعْمَةٍ تُجزٰٓی۔ الاَّ ابتغآء وجہ ربِّہ الاعلیٰ۔ (الیل:20-19)
"اور کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں کہ جس کا بدلہ دیا جا رہا ہو، مگر (وہ) صرف اپنے ربِ عظیم کی رضا جوئی کے لئے"۔
قرآن کا مرد مؤمن دنیاوی اغراض و مفادات کے تمام بتوں کو پامال کر کے اپنی زندگی کا ہر ہر لمحہ محبوب حقیقی کی رضاجوئی میں بسر کرتا ہے۔ اس کی زندگی میں اٹھنے والا ہر قدم محبوب حقیقی کی طرف بڑھتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ محبوب حقیقی کی رضا کے لئے اپنی کل متاع حیات قربان کر دیتا ہے۔ اور اقبال کا انسان کامل وہ ہے جس کے بارے میں قرآن کا فرمان ہے:
رضیَ اللہُ عَنہم و رَضوُا عنہ (المائدہ:119)
"اﷲ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے"۔
اور حد تو یہ ہے کہ مقام راضیہ و مرضیہ پر فائز ہو جانے کے بعد بھی قرآن کے مرد مؤمن کی پرواز نہیں تھمتی ، بلکہ اس مقام سے آگے بڑھ کر اس کی پرواز ایک اور نیا آفاق سر کرتی ہے اور اب وہ جس سمت کو چاہتا ہے قبلہ بنا دیا جاتا ہے اور وہ جس جہت پر راضی ہوتا ہے اسی کو کعبہ قرار دیا جاتا ہے۔ اور اللہ کی قدرت اس کے ساتھ ان انداز میں ہم کلام ہوتی ہے کہ ائے ایمان کے نمونہ کامل تیری مرضی جس سمت ہو ہم اسی کو قبلہ بنا دینگے۔ اللہ کا فرمان ہے:
فلنولّینّک قبلۃً ترضٰھا (البقرہ:144)
"سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں۔"
اور مرد مؤمن یا انسان کامل کے اس مقامِ ارفع و اعلیٰ پر فائز ہو جانے کے بعد محبوب حقیقی کی رحمتیں اور نعمتیں بھی اس مرد مؤمن کی رضاء کے ساتھ متعلق ہو جاتی ہیں ۔ ابتداء میں بندہ اللہ کی رضاجوئی میں مصروف تھا لیکن اب اللہ کی رحمت اس کی رضاء کی منتظر ہے ، اور اس کا محبوب حقیقی اس مرد مؤمن کو اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ہم تمہیں اپنی رحمتوں اور عنایتوں کا ایسا منبع اور مرکز بنا دیں گے کہ تم آسودہ خاطر ہو کر ان پر راضی ہو جاؤگے۔
ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ (الضحیٰ:5)
"اور آپ کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے"۔
اسی لئے اقبال نے کہا تھا:
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
جاری.....
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism