مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
(قسط :3)
تقدیم..
اب تک کی تحریروں میں ہم نے تفصیل کے ساتھ قرآن، حدیث اور اقوالِ سلفِ صالحین کی روشنی میں آداب زندگی اور آداب بندگی کا مطالعہ کیا اور ہم نے یہ بھی جانا کہ مختلف شعبہ حیات میں حسن خلق، حسن ادب اور حسن معاملات کی اہمیت و افادیت کیا ہے۔ مزید یہ کہ دین کی بنیاد مکمل طور پر حسن خلق اور حسن ادب پر منحصر ہے اور بد خلقی اور بے ادبی کا مظاہرہ خواہ حقوق العباد کی ادائیگی میں کیا جائے خواہ حقوق اللہ کی ادائیگی میں اس کا نتیجہ صرف بے دینی اور ضلالت و گمراہی کی شکل میں ہی ظاہر ہوتا ہے۔ اب ہم اچھی اور بری صحبت کے بارے میں گفتگو کریں گے اس لیے کہ انسان کی زندگی پر اس امر کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ اس کی صحبت کیسے لوگوں کے ساتھ ہے کیوں کہ نیک صحبت انسان کو نیکی کی دعوت دیتی ہے اور بری صحبت انسان کو برائی پر آمادہ کرتی ہے۔
نیک صحبت کی اہمیت و افادیت
اولیاء، صلحاء، بزرگان دین اور سلف صالحین کی زندگیاں اور ان کی تعلیمات ہمارے لیے اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے روشن مثال ہیں کہ ہماری صحبت، ہماری دوستی اور ہمارا ملنا جلنا کیسے لوگوں کے ساتھ ہونا چاہیے۔
تعلیم و تربیت کے لیے ایک شخص حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں رہا کرتا تھا، چند سالوں کے بعد جب وہ تعلیم و تربیت حاصل کر کے آپ کی بارگاہ سے رخصت ہونے لگا تو اس شاگر نے عرض کیا کہ میں آپ کی بارگاہ میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے آیا تھا اور اب چونکہ میں یہاں سے رخت سفر باندھ رہا ہوں تو میری خواہش ہے کہ آپ مجھے صرف ایک نصیحت فرما دیں کہ یہاں سے لوٹنے کے بعد میں کیسے لوگوں کو اپنا دوست بناؤں اور کیسے لوگوں کی صحبت اختیار کروں؟ اس پر حضرت بایزید بسطامی نے جو نصیحت کی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اکابر اولیاء اور سلف صالحین کے نزدیک کیسے لوگوں کی صحبت اور دوستی جائز ہے۔ اس نصیحت کو سمجھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا ہماری آج کی نوان نسلوں کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اپنے شاگرد کے اس سوال پر آپ نے فرمایا ""۔ آپ نے فرمایا کہ بیٹے میری بارگاہ سے لوٹنے کے بعد ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کر اور ایسے لوگوں سے دوستی کر کہ جب تو مریض ہو جائے تو وہ تیری عیادت کے لیے آئیں اور جب تجھ سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو وہ تیری جانب سے اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کر لیا کریں۔
اگر ہم حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی اس نصیحت کو غور سے سمجھنے کی کوشش کریں تو ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ آپ نے لوگوں کے لیے اخلاق کا ایک پیمانہ مقرر کر دیا ہے کہ تمہارے ساتھی، تمہارے ہم نشیں اور تمہارے دوست کا اخلاق اتنا بلند ہو اور تمہارے ساتھی کو تمہاری اتنی فکر ہو کہ اگر تم بیمار پڑ جاؤ تو وہ بغیر بلائے تمہاری خبر گیری کرنے آئے اور جب تم سے انجانے میں نادانی سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو تمہیں بتائے بنا خاموشی کے ساتھ تنہائی میں جا کر اللہ کی بارگاہ میں سر جھکائے اور عرض کرے اے میرے مولیٰ! اس سے غلطی ہو گئی، یہ نادان ہے، یہ خطاء کار ہے میں اس کی طرف سے تجھ سے معافی مانگتا ہوں یہ میرا رفیق اور میرا ساتھی ہے تو اسے معاف فرما دے۔ گویا انہوں نے دوستی اور مصاحبت کا ایک پیمانہ مقرر کر دیا کہ تمہاری دوستی ایسے لوگوں سے ہونی چاہیے کہ وہ تمہارے غائبانہ میں تمہارے گناہوں کے لیے اس طرح توبہ کریں کہ تمہیں خبر تک نہ ہو۔ تمہارا سچا دوست وہی ہے جس کا اخلاق اتنا عظیم ہو اور جسے تمہاری اتنی فکر ہو ، اور اگر اس کے اندر یہ خوبیاں نہیں تو وہ کبھی کسی کا اچھا دوست نہیں بن سکتا ہے اور نہ ہی اولیاء اللہ کے نزدیک ایسے کسی انسان کے ساتھ دوستی جائز ہے۔
ہماری دوستی: ایک لمحہ فکریہ
جب ہم نے یہ جان لیا کہ ہماری دوستی اور رفاقت کیسے لوگوں کے ساتھ ہونی چاہیے اور ایک دوست اور ایک رفیق ہونے کے ناطے ہمارا کردار کیا ہونا چاہیے تو توجہ طلب امر یہ ہے کہ کیا واقعی ہماری شخصیت ان صفات کے ساتھ متصف ہے؟ کیا ہماری دوستی میں یہ خوبی پائی جاتی ہے؟ کیا ہم اب تک کسی کے ایسے رفیق بن سکے ہیں یا کوئی ہمارا ایسا بھی کوئی دوست ہے جو ہمارے لیے اللہ کی بارگاہ سے بخشش اور مغفرت طلب کرے؟
اس کے برعکس بالعموم (الا ما شاء اللہ) ہمارا حال یہ ہے کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ ہمارے کسی دوست سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی ہے یا کوئی چوک ہو گئی تو ہم اس کا دائرہ حیات تنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، اگر ہمارا دوست ہمارا پڑوسی ہے تو اسے ذلیل و رسوا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، اس کی ذلت و رسوائی کے لیے سازشوں کے جال بچھاتے ہیں، سامنے چہرے پر خوب میٹھی بولی بولتے ہیں، کوئی حادثہ انہیں پیش آ جائے تو انہیں جھوٹا دلاسا دیتے ہیں اور جیسے ہی ان کی مجلس سے الگ ہوتے ہیں اور دوسروں کے سامنے جاتے ہیں ان کی برائیاں شروع کر دیتے ہیں، ان کی چغلیاں کھاتے ہیں اور انہیں ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر موقع ہاتھ آ جائے تو خوب نام اچھالتے ہیں۔ اور حد تو یہ ہے کہ ہم موقع کی تلاش میں رہتے ہیں اگر کسی نے کوئی غلطی کی تو کی اور نہیں کی تو بھی موقع ہاتھ آتے ہی ہم ان پر چھوٹا الزام لگا دیتے ۔ حقیقت حال خواہ کچھ بھی ہو بس کانوں میں آواز پڑنے کی دیر ہے ہم اس کا نام اچھالنے میں لگ جاتے ہیں اور اسے ذلیل کرنے کی حتٰی المقدور کوشش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں غیر تو غیر ہیں ہم اپنے بھائی بہن، دوست و احباب، اپنے رشتہ دار، اہل خاندان اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بھی ایسا سلوک کرنے سے کوئی گریز نہیں کرتے۔
یہ ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے اور ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایک طرف تو ہمارا حال یہ ہے اور ہمارے اخلاق اتنے گرے ہوئے ہیں اور دوسری طرف ہم اپنی نسبت ان بزرگوں کے ساتھ جوڑتے ہیں جن کا حال یہ تھا اور جن کا اخلاق اتنا بلند تھا کہ اگر انہیں واقعۃً کسی کے گناہ کا علم ہو جاتا تو وہ اللہ کی بارگاہ میں سر بسجود ہو کر اس کی گناہوں کی معافی اللہ سے مانگتے تھے۔
ایک بہت بڑے ولی حضرت ابو بکر الورّاق سے منسوب ہے کہ جب کسی نے ان سے دریافت کیا کہ "مَن اَصحَبُ؟" میں کس کو اپنا دوست بناؤں؟ اس پر انہوں نے بڑا حکیمانہ جواب ارشاد فرمایا اور کہا کہ ایسے انسان کی صحبت اور دوستی اختیار کر و کہ جو تمہارے ساتھ نیکی اور احسان کر کے بھول جائے اور زندگی کے کسی بھی موڑ پر نہ کبھی تمہیں یاد دلائے اور نہ خود یاد رکھے ۔ اور اس کی صحبت اور دوستی سے دوری اختیار کرو جو تمہاری برائیوں اور خامیوں کو یاد رکھے۔ اس لیے کہ برائی کو یاد رکھنے والا ہمیشہ شرمسار کرنے کی کوشش میں رہتا ہے۔
اپنے کسی دوست کے ساتھ کوئی بھلائی اور کوئی نیکی کر کے اسے بھول جانا انتہائی اعلیٰ اخلاق اور حسن ادب کی علامت ہے، اور حسن ادب اور حسن خلق کا کمال یہ ہے کہ جب ہمارے کسی دوست یا کسی قریبی سے کوئی ہلکا اور چھوٹا گناہ سرزد ہو جائے تو ہم اسے اس طرح نظر انداز کر دیں کہ اسے اس بات کا احساس بھی نہ ہو اس لیے کہ اس سے ہمارے دوست کو شرمندگی محسوس ہو گی۔
اصل مرد کون ہے:
ایک معروف ولی اور عظیم عارف حضرت سر سقطی سے ایک مرتبہ دریافت کیا گیا کہ اصل مرد کون ہے ہمیں اس کی علامت بتائیں؟ آپ نے فرمایا کہ مرد در اصل وہ ہے کہ جب آپسی معاملات میں کسی سے کوئی غلطی سرزد ہو جا ئے تو وہ سزا دینے اور انتقام لینے کی طاقت پر قادر ہونے کے باوجود غلطی کرنے والے کو معاف کر دے اور اس کی طرف عفو درگزر کا ہاتھ بڑھائے۔ اور اس کا اجر آخرت میں یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ بھی اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک فرمائے گا۔ اس لیے کہ جب اس بندے کا نامہ اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا اور اس کا نامہ اعمال گناہوں سے بھرا ہوا ہوگا تو اللہ فرمائے گا کہ یہ بندہ ہو کر بدلہ لینے کی طاقت اور قدرت رکھتے ہوئے جب معاف کر سکتا ہے تو پھر تو میں رب ہوں اور میں بھی سزا دینے کی قدرت رکھتا ہوں میں کیوں معاف نہ کر وں۔ اللہ فرمائے گا کہ اس کا نامہ اعمال بڑے بڑے گناہوں سے بھرا ہوا ہے مگر چونکہ یہ میرے بندوں کو معاف کرتا تھا اسی لیے آج میں اسے معاف کرتا ہوں۔
اپنا عیب یا غیروں کے عیوب
حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کے اندر دوسروں کے عیوب تلاش کرنے کی عادت ہو وہ ہمیشہ اپنے عیب کو دیکھنے سے اندھا رہے گا اور جس کی نظر اپنے عیوب و نقائص پر ہو وہ دوسروں کے عیب دیکھنے سے نابینا ہو جائے گا۔
اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کسی ایک کے ہی عیب پر نظر رکھ سکتا ہے، یا تو دوسروں کے عیوب اور دوسروں کے نقائص پر نظر رکھ سکتا ہے یا خود اپنے عیوب و نقائص پر نظر رکھ سکتا ہے۔ اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں یاتو ہم ہمیشہ اپنے عیوب پر نظر رکھیں اور زندگی بھر ان کی اصلاح کرتے رہیں اور روحانی ترقی کے منازل طے کرتے چلے جائیں، یا پھر عمر بھر دوسروں کے عیوب و نقائص ہی دیکھتے رہیں اور جب ہم یہ راستہ اختیار کریں گے تو نتیجۃً غیبت اور چغلی میں ملوث ہوں گے، دل میں دوسروں کے لیے بغض و عناد پیدا ہوگا، زبان بھی گندی ہو گی، آپسی تعلقات بھی خراب ہوں گے، زبان اور دل میں لوگوں کی شکایتیں بھی ہوں گی جس کے نتیجے میں فتنہ و فساد کا ماحول پیدا ہو گا اور ہماری زندگی میں صرف شر ہی شر ہو گا؟ لہٰذا، اب فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے کہ ہم اپنے عیب پر نظر رکھتے ہیں یا دوسروں کے عیوب و نقائص پر نظر رکھتے ہیں۔
درج ذیل میں حسن معاملات اور حسن ادب کے چند ایسے اصول پیش کئے جا رہے ہیں جو حسن اخلاق کے باب میں اسلامی تعلیمات کا نچوڑ ہیں اور جن کا جاننا اور جن پر عمل پیرا ہونا ہر فرد بشر کے لیے ضروری ہے:۔
امام سُلمِی نے فرمایا کہ :
• جب تمہارا معاملہ علماء کے ساتھ ہو تو قبولیت اور تسلیم و رضاء کا رویہ اختیار کرو۔
• جب تمہارا معاملہ اولیاء کے ساتھ ہو تو اطاعت اور تعظیم کا رویہ اختیار کرو۔
• جب تمہارا معاملہ اکابر اور تم سے بڑے بزرگوں کے ساتھ ہو تو ان کے ساتھ ادب اور تعظیم کا رویہ اختیار کرو۔
• جب تمہارا معاملہ تمہاری برابری ، ہم پلہ اور ہم عمر لوگوں کے ساتھ ہو تو الفت اور موافقت کا رویہ اختیار کرو۔
• جب تمہارا معاملہ تم سے چھوٹےاور کمزور لوگوں کے ساتھ ہو تو کرم، شفقت اور رحمت کا رویہ اختیار کرو۔
• جب تمہارا معاملہ والدین کے ساتھ ہو تو خشوع، خضوع اور خدمت کا رویہ اختیار کرو۔
• جب تمہارا معاملہ تمہاری اولاد کے ساتھ ہو تو بے پناہ محبت، رحمت اور حسن تادیب اور حسن تربیت کا رویہ اختیار کرو۔
• جب تمہارا معاملہ تمہاری بیوی اور بچوں کے ساتھ ہو تو حسن سلوک اور حسن مدارات کا رویہ اختیار کرو۔
• جب تمہارا معاملہ تمہارے رشتہ داروں کے ساتھ ہو تو صلہ رحمی، احسان اور بھلائی کا رویہ اختیار کرو۔
• جب تمہارا معاملہ تمہارے رفقاء، اخوان اور دوستوں کے ساتھ ہو تو ان کے ساتھ مودّت اور محبت کا رویہ اختیار کرو۔
• جب تمہارا معاملہ تمہارے پڑوسیوں کے ساتھ ہو تو ترک اذیت اور آسانی کا رویہ اختیار کرو۔
• جب تمہارا معاملہ عام لوگوں کے ساتھ ہو تو مسکراہٹ اور نرمی کا رویہ اختیار کرو۔
• جب تمہارا معاملہ فقیروں، کمزوروں اور محتاجوں کے ساتھ ہو تو انکساری، تواضع، احسان اور ان کی تعظیم کا رویہ اختیار کرو۔
• جب تمہارا معاملہ امیروں اور مالداروں کے ساتھ ہو تو استغناء اور بے نیازی کا رویہ اختیار کرو۔
• جب تمہارا معاملہ علماء کے ساتھ ہو تو قبولیت اور تسلیم و رضاء کا رویہ اختیار کرو۔
• جب تمہارا معاملہ اولیاء کے ساتھ ہو تو اطاعت اور تعظیم کا رویہ اختیار کرو۔
جاری....................
URL: