مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
اسلام کے جزیرہ عرب سے نکلنے اور دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل جانے کے بعد عباسی دور حکومت (132ہجری) میں جن بے شمار علوم فنون کا ترجمہ عربی زبان میں کیا گیا ان میں "فلسفہ نو افلاطونیت" بھی شامل تھا اور "فلسفہ نو افلاطونیت" کے جس حصے نے مسلم صوفیاء، علماء اور حکماء کو سب سے زیادہ اپنی طرف متوجہ کیا وہ "نظریہ وحدۃ الوجود" تھا۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات جو پیغمبر اسلام ﷺ نے دنیا کے سامنے پیش کی وہ تصورِ توحید پر مبنی ہیں، اور "فلسفہ نو افلاطونیت" میں پیش کیا جانے والا نظریہ وحدۃ الوجود چونکہ اسلام کے عقیدہ توحید سے کافی مشابہت رکھتا تھا اسی لیے اسلام کی تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں جب مختلف علوم کی چھوٹی چھوٹی شاخیں مستقل علوم و فنون کی شکلیں اختیار کرتی گئیں اور جب علوم و معارف کے نئے نئے چشمے پھوٹنے لگے تو اس وقت کے صوفیاء کی ایک بڑی جماعت نے جس میں حضرت ذو النون مصری، حضرت با یزید بسطامی، حضرت جنید بغدادی اور حسین بن منصور حلاج رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے نام سر فہرست ہیں، نظریاتی طور پر اس کی تائید کی اور اس نظریہ وحدۃ الوجود کو اسلامی "توحید" کا ایک باطنی پہلو تصور کر کے اسے اسلامی تصوف کا ایک جزو لا ینفک قرار دیا۔
چونکہ یہ دور تاریخ اسلام میں مختلف علوم و فنون کے عروج و ارتقاء کا دور تھا اور اسی دور میں اسلامی تعلیمات کا دائرہ وسیع ہو رہا تھا اور ان کی بہت سی شاخیں جن کی حیثیت جزئیات کی تھی مستقل علوم و فنون کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آ رہی تھیں اسی لیے انہوں نے نظریہ وحدۃ الوجود کی جو تاویل دنیا کے سامنے پیش کی وہ بالکل نئی تھی اور ا س کی جو تعبیرات و تشریحات پیش کیں وہ اسلامی تصوف کے مختلف ابواب بنتے گئے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ "فنا و بقا"، "وصل و فصل"، "جذب و استغراق"، "سکر و صحو" اور "اتحاد بذات حق تعالیٰ" وغیرہ جیسی بے شمار جدید اصطلاحات معرض وجود میں آئیں، جن کا ہم آئندہ مضامین میں تفصیل کے ساتھ مطالعہ کریں گے۔
اب ہم نظریہ وحدۃ الوجود کی تائید میں ان عظیم صوفیاء اور عرفاء کے اقوال اور تجربات و مشاہدات کا مطالعہ کرتے ہیں جن سے نظریہ "وحدۃ الوجود کو ایک منفرد پہچان ملی اور انہیں صوفیائے کاملین اور عرفائے ربانین کے حوالے سے نظریہ وحدۃ الوجود کو عالم اسلام میں جانا گیا۔
تاریخ تصوف کا بالاستعاب مطالعہ کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ "فلسفہ نو افلاطونیت" سے متاثر ہو کر نظریہ وحدۃ الوجود کو اسلامی تصوف کے قالب میں ڈھال کر سب سے پہلے پیش کرنے والے صوفئ کامل اور عارفِ ربانی سید الطائفہ حضرت ذو النون مصری (متوفی 245ہجری) کا نام سر فہرست ہے۔ آپ جہاں ایک طرف ایک بلند پایہ صوفئ کامل اور عارفِ بر حق تھے وہیں دسری طرف ایک روشن خیال فلسفی اور حکمت داں بھی تھے۔ ذیل میں ان کے چند اقوال اور تجربات و مشاہدات کا ذکر کیا جاتا ہے جس سے نظریہ وحدۃ الوجود کو تقویت ملتی ہے:
1. لوگوں نے ایک مرتبہ آپ سے دریافت کیا کہ ایک عارف کامل کی پہچان کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا:عارف کامل وہ ہے جو علم، چشم، مشاہدہ، کشف اور حجاب کے بغیر حقائق پر نظر رکھتا ہو اس لیے کہ اسے ذات حق کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ ا سکی باتیں اللہ کی اور اس کی نظر اللہ کی نظر ہوتی ہے۔ پھر آپ نے اس حدیث کا حوالہ پیش کیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ " انسان نفلی عبادتوں کے ذریعہ مسلسل اللہ کا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ اس کے کان بن جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھیں بن جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کی زبان بن جاتا ہے جس سے وہ کلام کرتا ہے، اس کے پاؤں بن جاتا ہے جس سے وہ چلتا ہے۔
2. آپ کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ "" ترجمہ: ذات حق تعالیٰ میں تفکر و تدبر کرنا جہالت ہے، اس کی طرف اشارہ کرنا شرک ہے اور معرفت کی حقیقت حیرت ہے۔
3. جو اللہ سے محبت کرتا ہے اسے آخر کار اللہ کا وصال حاصل ہوتا ہے۔ ایک عارف کامل ذات حق تعالیٰ میں غرق ہو جاتا ہے۔ اس کی ذات اپنی نہیں رہتی بلکہ ذات حق تعالیٰ کا ایک حصہ بن جاتی ہے۔
4. ایک مرتبہ آپ نے فرمایاکہ میں نے تین سفر کیے اور تین علوم حاصل کیے:
پہلے سفر میں ایسا علم حاصل کیا جسے خواص و عوام سب نے قبول کیا۔
دوسرے سفر میں ایسا علم حاصل کیا جسے خواص نے تو قبول کیا لیکن عوام نے مسترد کر دیا
تیسرے سفر میں میں نے ایسا علم حاصل کیا جسے نہ تو عوام نے قبول کیا اور نہ ہی خواص نے قبول کیا۔ پس میں اس میں تمام مخلوقات سے مفرور، متوحش اور تنہاء رہ گیا۔
5. وہ ایک مناجات میں کہتے ہیں:
اے خدا! میں جب بھی حیوانات کی بولیاں، درختوں کی سرسراہٹ، پانی کی لہروں کی آواز، چرند و پرند کا چہچہانا، تیز و تند ہوا کی سنسناہٹ اور بجلی کی گرج سنتا ہوں تو ان سب میں تیری ہی وحدانیت کی علامت اور تیرے ہی بے مثال اور بے نظیر ہونے کا ثبوت پاتا ہوں۔
تصوف کی تاریخ میں حضرت ذو النون مصری کے بعد ایک اور عظیم ہستی اور صوفی کامل کا تذکرہ ملتا ہے اور وہ حضرت با یزید بسطامی (متوفی 261ہجری)کی ذات ہے۔ حضرت با یزید بسطامی کا شمار اتباع التابعین کے مشائخ طریقت میں ہوتا ہے۔ طبقہ صوفیا میں ان کا پایہ بہت بلند ہے۔ حضرت با یزید بسطامی کی شان میں حضرت جنید بغدادی کا یہ قول مشہور ہے:
۔ ترجمہ: ہمارے درمیان با یزید کو وہی مقام و مرتبہ حاصل ہے جو فرشتوں کے درمیان حضرت جبرئیل کو حاصل ہے)۔
ذیل میں آپ کے وہ اقوال اور تجربات و مشاہدات پیش کیے جاتے ہیں جن سے نظریہ وحدۃ الوجود کی تائید ہوتی ہے:
1. ایک مرتبہ میں نے اللہ کی بارگاہ میں التجا کی کہ ائے مولا! تجھ رسائی کیسے ممکن ہے؟ تو غیب سے آواز آئی: ائے با یزید! پہلے اپنے آپ کو تین طلاق دے اس کے بعد میرا نام لے۔
2. تیس برسوں تک ذات حق میرا آئینہ بنی رہی لیکن اب میں اپنا آئینہ خود ہوں۔ یعنی میں جو تھا وہ اب نہ رہاکیوں کہ میرا اور ذات حق کا جمع ہونا شرک ہے۔ جب میں نہ رہا تو ذات حق اپنا آئینہ خود بن گئی۔ اور میں یہ بھی کہتا ہوں کہ میں خود اپنا آئینہ بن گیا۔ اور یہ جو باتیں میں کرتا ہوں در حقیقت وہ خود ہے میں درمیان میں نہیں ہوں۔
3. ایک مرتبہ عالم تنہائی میں آپ بے ساختہ یہ پکار اٹھے: (میری تعریف ہے کہ میری شان کیا ہی عظیم ہے)
4. ایک مدت تک میں خانہ کعبہ کا طواف کرتا رہا لیکن جب مجھے ذات حق تعالیٰ کا وصال حاصل ہو تو خانہ کعبہ خود میرا طواف کرنے لگا۔
5. میں نے بے شمار مقامات کا مشاہدہ کیا لیکن جب میں نے خود اپنے اوپر غور کیا تو خود کو صرف ذات حق کے مقام پر پایا۔
جاری..........................
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism