مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج
اسلام
28 دسمبر ، 2016
چونکہ تصوف اور سلوک و معرفت
کی دنیا میں حضرت بایزید بسطامی اور جنید بغدادی کو زبردست مقبولیت حاصل ہوئی اور ایک
بڑی تعداد میں جوق در جوق لوگ ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہونے لگے جس میں حسین بن منصور
حلاج جیسے اس زمانے کے بڑے بڑے مجذوب الحال اولیاء اور صلحاء بھی شامل تھے۔ لہٰذا،
ان کی تعلیمات نے نظریہ وحدۃ الوجود کو بڑی تیزی کے ساتھ اہل حال صوفیاء، عرفا اور
صلحا کے درمیان رواج بخشا۔ جس کے نتیجے میں "محو"، "استغراق"،
"فنا"، "فنا٫ الفنا٫" اور "اتحاد بذات حق" جیسی اصطلاحات
معرض وجود میں آئیں۔ جن کی تعبیر و تشریح مختلف صوفیا٫ اور عرفائے کاملین نے ایک خاص
مقام پر پہنچ کرمختلف انداز میں اپنے اپنے احوال، اپنے اپنے کشف اور تجربات و مشاہدات
کی روشنی میں کی۔
نظریہ وحدۃ الوجود کی اشاعت
کرنے والے ان صوفیا٫ اور عرفائے کاملین کے اقوال چونکہ ان کے باطنی احوال اور ان کی
روحانی کیفیات اور کشف و مشاہدات پر مبنی تھے، لہٰذا "محو"، "استغراق"،
"فنا"، "فنا٫ الفنا٫" اور "اتحاد بذات حق" کا تصور پیش
کرنے والے اور خود کو اہل باطن کہنے والے طبقہ صوفیاء کا ٹکراوَ وضو، غسل، نماز، روزہ،
حج، زکوٰۃ، بیع و شریٰ، احکامِ قصاص اورتقسیمِ میراث وغیرہ ظاہری شرعی مسائل سے بحث
کرنے والے "اہل ظاہر" علما سے ہونا ناگزیر تھا۔ ان دونوں کے درمیان کشمکش
اور تصادم کی انتہاء تب ہوئی جب حسین بن منصور حلاج [متوفی 244 ہجری] نے "انا
الحق" کا نعرہ بلند کیا۔ جس سے ان کی مراد "اتحاد بذات حق" تھی۔
لیکن توجیہ و تعلیل کی تمام تر
گنجائشوں کے با وجود ارباب شریعت نے ان پر کفر و الحاد کا فتویٰ لگایا اور "اتحاد
بذات حق" اور "حلول" کا قول کرنے کی وجہ سے انہیں زندیق کہا اور اسی
جرم میں انہیں296 ھ۔ بمطابق 910ء میں پہلی مرتبہ گرفتا کیا گیا لیکن وہ زنداں سے فرار
ہو گئے اس کے بعد 301 ھ۔ بمطابق 914ء میں انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا اور آپ مسلسل
آٹھ سال تک قید و بند کی صعوبتوں سے گزارتے رہے اور آخر کار 309 ھ۔ بمطابق 921ء میں
تمام فقہا نے باتفاق رائے ان کے لیے سزائے موت کا فتویٰ صادر کر دیا اور اور 18 ذی
قعدہ 309 ھ۔ بمطابق 921ء کو انہیں دار و رسن پر لٹکا دیا گیا۔
اس مقام پر مناسب ہے کہ اس
کیفیتِ حال پر تھوڑی گفتگو کر لی جائے جس کے غلبہ کی وجہ سے صوفیا٫ اور عرفائے کاملین
نے "وحدۃ الوجود" کو محور قرار دیکر "محو"، "استغراق"،
"فنا"، "فنا٫ الفنا٫" اور "اتحاد بذات حق" جیسی باطنی
اور روحانی کیفیات کا اظہار کیا۔
ایک طرف تو ناقدین تصوف ہیں
جن کا خیال ہے کہ تصوف کوئی اسلامی نظریہ نہیں ہے بلکہ یہ دین میں ایک بدعت ہے اور
اس وجہ سے یہ گمراہی و ضلالت کا سبب ہے، جبکہ دوسری طرف خود ساختہ اور نام نہاد صوفی
حضرات کا ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو ظاہری رسومِ طریقت، گدی نشینی اور خانقاہی
زیب و زینت اور جبہ و دستار کو ہی کل تصوف گمان کرتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تصوف
کوئی اور شئی نہیں بلکہ یہ اس مقامِ احسان میں حصولِ کمال سے عبارت ہے جس کا ثبوت حدیث
جبرئیل سے ملتا ہے۔ اور جس کی تعلیم خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو دی
ہے، اور اس کے ثبوت میں درجنوں حدیثیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں۔ لیکن اس مقام پر صرف
چند احادیث کا مطالعہ کافی ہے جن میں پہلی حدیث ایک نوجوان صحابی حارث الانصاری سے
متعلق ہے۔ جسے طبرانی نے المعجم الکبیر میں اور بیہقی نے شعب الایمان، جلد 3 میں روایت
کی ہے۔
خلاصہ حدیث: حضرت حارث بن
مالک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک نوجوان صحابی تھے۔ ایک دن وہ صبح سویرے بنی صلی
اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ
"كَيْفَ أَصْبَحْتَ يَا حَارِثُ ؟" ائے حارث تم نے صبح کس حال میں کی؟ اس
پر حضرت حارث نے جواب دیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: "أَصْبَحْتُ مُؤْمِنًا
بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ حَقًّا"۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے حقیقت
ایمان کے ساتھ صبح کی۔ {توجہ طلب امر یہ ہے کہ حضرت حارث نے یہ نہیں فرمایا کہ میں
نے ایمان کی حالت میں صبح کی، بلکہ آپ نے جواب میں فرمایا کہ میں نے حقیقت ایمان کے
ساتھ صبح کی۔ معاملہ یہ ہے کہ ایک نظام حیات کی حیثیت سے دین کے تین مدارج ہیں جو کہ
حدیثِ جبرئیل سے ثابت ہیں۔ اور وہ یہ ہیں: ۱۔ اسلام، ۲۔ایمان اور ۳۔ احسان۔ اور اسی حدیثِ جبرئیل
کی روشنی میں اس کی تفصیل یہ ہے کہ اسلام کا موضوع شریعت ہے اور ایمان کو موضوع طریقت
ہے جبکہ احسان کا موضوع حقیقت ہے۔ اور ان تینوں کے مجموعہ سے ایک مکمل دین کی تشکیل
ہوتی ہے اور یہی تصوف کی حقیقت بھی ہے}۔
لہٰذا، جب حضرت حارث نے یہ جواب
دیا کہ "اصبحتُ مئومناً حقاً"۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے حقیقت
ایمان کے ساتھ صبح کی یعنی میں نے حقیقۃً ایمان کی حالت میں صبح کی، جب نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے ان کا یہ جملہ سنا تو فرمایا: "انْظُرْ مَا تَقُولُ ، فَإِنَّ
لِكُلِّ حَقٍّ حَقِيقَةً, فَمَا حَقِيقَةُ ایمانک" ائے حارث! ذرا غور کر کہ تو
کیا کہہ رہا ہے، اس لیے کہ ہر شئی کی ایک حقیقت ہوتی ہے، ائے حارث بتا کہ تیرے ایمان
کی حقیقت کیا؟ اس کے جواب میں حضرت حارث نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
میرے ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ "عزفت نفسي عن الدنيا"، یعنی میں نے اپنے نفس
اور اپنے باطن کو اس دنیا سے جدا کر دیا ہے یعنی میں دنیا میں تو ہوں مگر دنیا میرے
اندر نہیں ہے۔ پھر حضرت حارث نے فرمایا: "فأسهرت ليلي"، یعنی جب سے میں نے
اپنے نفس اور اپنے باطن کو اس دنیا سے جدا کیا ہے تب سے راتوں کو بیدار رہتا ہوں۔
پھر فرمایا: "وأظمأتُ نهاري"،
اور دن کو پیاسا رہتا ہوں، اس کا معنیٰ یہ بھی ہو سکتا ہےکہ میں دن کو روزے رکھتا ہوں۔
اور فرمایا: "وَكَأَنِّي بِعَرْشِ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ بَارِزًا" اور اب
میرا حال یہ ہے کہ تمام پردے اٹھ گئے ہیں اور میں اپنے رب کے عرش کو بلا حجاب دیکھ
رہا ہوں۔ پھر فرمایا "وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى أَهْلِ الْجَنَّةِ يَتَزَاوَرُونَ
فِيهَا"، میری نظروں سے جنت کے پردے اٹھا دیئے گئے ہیں اور میں اپنی آنکھوں سے
یہ منظر دیکھ رہا ہوں کہ جنتی جنت میں ایک دوسرے کی زیارت اور ایک دوسرے سے ملاقات
کے آ رہے ہیں اور جا رہے ہیں۔
پھر حضرت حارث نے فرمایا"وَكَأَنِّي
أَنْظُرُ إِلَى أَهْلِ النَّارِ يَتَعَاوَوْنَ فِيهَا"، اور میری نظروں کے سامنے
یہ منظر بھی ہے کہ دوزخی دوزخ میں جہنم کی آگ سے اِدھر اُدھر بھاگتے پھر رہے ہیں۔ جب
حضرت حارث یہ بیان کر چکے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ایمان کی حقیقت
یہ ہے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عرفت فَالْزَمْ ثلاثاً"
ائے حارث نفس کو دنیا سے حدا کرنے کے بعد جب تیرا حال یہ ہو گیا ہے کہ تو عرش الٰہی
کو اور جنت و جہنم کو اور ان کے احوال کو بلا حجاب دیکھ رہا ہے تو تو عارف ہو گیا یعنی
تجھے ذات حق تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو گئی اور ساتھ ہی تین مرتبہ یہ بھی فرمایا کہ اس
مقام پر قائم رہنا، قائم رہنا، قائم رہنا۔ اور آپ نے حضرت حارث کے بارے میں فرمایا:
"مومناً نَوَّرَ اللَّهُ الإِيمَانَ فِي قَلْبِهِ"، یعنی اب تو ایسا مومن
ہو گیا کہ جس کے دل کو اللہ نے اپنے نور سے منور کر دیا ہے۔
جاری………………………………………………………..
URL: