New Age Islam
Mon Mar 27 2023, 02:54 PM

Urdu Section ( 27 Dec 2016, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Evolution Of Wahdatul Wajud Throughout The Islamic History (part: 8) تاریخ اسلام میں تصورِ وحدۃ الوجود کا عروج و ارتقاء

 

 

 

مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام

27 دسمبر ، 2016

دنیائے تصوف کے طبقہ متقدمین میں حضرت ذو النون مصری اور با یزید بسطامی کے بعد تیسرا سب سے اہم نام حضرت جنید بغدادی (متوفی 297 ہجری) کا ہے۔  حضرت شیخ علی ہجویری (متوفی 465 ہجری) اپنی کتاب  کشف المحجوب میں لکھتے  ہیں کہ حضرت جنید بغدادی کو ان کے زمانہ میں "طاؤس العلماء" کہا جاتا تھا اور وہ مشائخ کے سردار اور امام الائمہ تھے۔ آپ کا دور اتباع التابعین کا دور تھا۔

ذیل میں ان کے چند ایسے اقوال اور تجربات و مشاہدات نقل کیے جاتے ہیں جن سے واضح طور پر نظریہ وحدۃ الوجود کو تقویت ملتی ہے۔

1.      ایک مرتبہ جب میں بیمار پڑا تو میں نے حق تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے شفایاب کر دے، تو ہاتف غیبی نے اسی وقت ندا دی کہ  جنید ! تو کون ہوتا ہے جو خدا اور بندے کے درمیان آئے؟

2.      علم بھی محیط ہے اور معرفت بھی محیط، پس کہاں بندہ اور کہاں خدا۔ لہٰذا، عارف و معروف ایک ہی ہے۔

3.      معرفت خدا کی طرف متوجہ ہونے کا نام ہے۔معرفت ایک طرح کا امتحان ہے۔ .یعنی جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ عارف ہے وہ فریب میں مبتلاء ہے اس لیے کہ عارف و معروف در حقیقت وہی ہے۔

اس مقام پر راقم السطور  ایک نقطے وضاحت ضروری سمجھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا اکابر صوفیاء اور عرفاء کے یہ اقوال اور تجربات و مشاہدات اگر چہ فقہاء اور علمائے ظاہری کے اقوال اور آراء سے متعدد وجوہات کی بناء پر بظاہر متصادم معلوم ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایسا قطعی نہیں ہے کہ تصور وحدۃ الوجود کی بنیاد قرآن و حدیث میں موجود ہی نہ ہو۔ مثال کے طور پر نظریہ وحدۃ الوجود کی تائید میں یہ حدیث قدسی بہت مشہور و معروف ہے:

جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا (کشف الخفاء، حدیث: 6530، جلد:2، ص:234)

چونکہ محدثین نے اس حدیث کے ضعف کا قول کیا اور  ناقدین تصوف نے اسے بنیاد بنا کر اس نظریے کو ہی مسترد کرنے کی سازشیں کیں اسی لیے صوفیاء اور عرفاء اس حدیث کے معنیٰ کو نص قرآنی سے مؤید کرنے کے لیے اس آیت کا حوالہ پیش کرتے ہیں:

(الذاریات:21-20)

ترجمہ: "اور زمین میں صاحبانِ ایقان (یعنی کامل یقین والوں) کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں، اور خود تمہارے نفوس میں (بھی ہیں)، سو کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟" (ترجمہ: عرفان القرآن)

ایک اور مقام پر قرآن میں اللہ  کا فرمان ہے:

(ق:16)

ترجمہ: "اور بیشک ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم اُن وسوسوں کو (بھی) جانتے ہیں جو اس کا نفس (اس کے دل و دماغ میں) ڈالتا ہے۔ اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں"۔ (ترجمہ: عرفان القرآن)

مذکورہ بالا دونوں آیتوں کی عبارت النّص یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ پورا عالم ذات حق تعالیٰ کا مظہر ہےاور اس کے وجود پر ایک واضح دلیل بھی۔ یہ  انسان کی کوتاہ نظری اور کور چشمی ہے کہ اسے اس کی معرفت سے غافل رکھتی ہے۔ اگر یہ نفسانی اور باطنی حجابات اٹھا لیے جائیں تو پھر بندہ اپنی کھلی آنکھوں سے جلوہ ذات حق کا مشاہدہ کرتا ہے۔

 اب بات مشاہدہ، کشف اور باطنی حقائق کی معرفت کی چل پڑی ہے تو اس ضمن میں داعی اسلام شیخ ا بو سعید شاہ احسان اﷲ محمدی صفوی دامت برکاتہم العالیہ کا ایک خوبصورت عارفانہ کلام قارئین کے لیے حاضر خدمت ہے، اس امید کے ساتھ کہ اس سے کافی حد تک اہل شوق کی تشنگی دور ہوگی :

کھول کر چشمِ حقیقت بے گماں

دیکھ ہر شے میں ظہورِ جلِّ شاں

کس گماں میں تو پڑا ہے بے خبر

حق تری صورت میں خود ہے جلوہ گر

ڈھونڈتا پھرتا ہے تو اُس کو کہاں (۴)

جوتری ہستی کے اندر ہے نہاں

چشمِ احول بیں سے پوشیدہ رہا

اے دریغا جلوۂ نورِ خدا

تیری خود بینی حجاب اُس نور کا

کاش تو خود سے نکل کر دیکھتا

بے خبر اک راز کی دنیا ہے تو

شانِ حق کی تجھ سے ہوتی ہے نمو

تیری رگ رگ میں تجلّی ہے نہاں

تو سراپا ہے نشانِ بے نشاں

تیری ہستی ہے ظہورِ حسنِ ذات (۵)

تو حقیقت میں ہے روحِ کا ئنات

بے خبر پہچان اپنے آپ کو (۶)

نورِ قُدسی جان اپنے آپ کو (۷)

شعر کے پردے میں گویا ہے وہی

تجھ میں شنوا اور بینا ہے وہی (۸)

کھول کر چشم حقیقت با خدا (۹)

دیکھ اپنے میں اسے جلوہ نما

نَحْنُ اَقْرَب کا اشارہ ہے یہی (۱۰)

کُنْتُ کَنْزاًکا کنایہ ہے یہی*

 

 (۴)تیرا وجود تیرے رب کے وجود کی کھلی شہادت ہے (الذاریات:۲۱) ’’تمہارے اندر خدا کی نشانیاں ہیں، کیا تم غور نہیں کرتے؟‘‘ذاتِ حق کی آیات بینات تمہارے اندر موجودہیں اور تم اس کی تلاش میں سرگرداں اور اس کے وجود میں مشکوک ہ*و؟

(۵)کیوں کہ سالار کاروانِ انسانیت جناب محمد رسول اﷲ ﷺ ہی خالق کائنات کی اوّلین تخلیق ہیں اور انہیں سے اور انہیں کے لیے پوری انجمن سجائی گئی ہے-جیسا کہ بعض ضعیف روایتوں میں مذکور ہے- اس لیے خالق کے نگار خانے کی سب سے شاہکار تخلیق انسان ہے،جس سے تخلیق اولین کا تعلق ہے یا انسان اس معنی میں روح ِ کائنات ہے کہ وہ اشرف المخلوقات ہے ، وہ تمام مخلوقات کی صفات کا جامع اور سب سے کامل ہے جس سے خدائی نشانیوں کا سب سے زیادہ ظہور ہوتا ہے*-

(۶)تو وہی روح ہے جسے اللہ کریم نے آدم خاکی میں پھونکا تھااور نو رمن اﷲ تیرے ہی امیر و سلطان کے لیے وارد ہوا ہے ، جو تیری نوع سے ہیں*-

(۷)کائنات کا ایک ذرہ بھی اس کے چاہے بغیر نہیں ہل سکتا - پھر شاعری کا یہ لطف انگیز جام معرفت اس کے چاہے بغیر کیسے لنڈھایا جاسکتا ہے؟انسان کے پورے وجود پر اس کی روح کی حکمرانی ہے، مگر یہ روح کیا ہے اور کیا وہ بالکلیہ آزاد ہے؟ اس کے اوپر کس کی حکمرانی ہے؟ ان سوالات پر غور کرنے سے یہ عقدہ کھل جائے گا کہ اصل گویا، شنوا اور بینا کون ہے- ممکن ہے اس بات کی طرف بھی اشارہ ہو کہ یہ مضامین ایک مخصوص کیفیت کے تحت خیال میں آئے ہیں- ان کی حیثیت عامی نہیں، الہامی ہے-ــیہاں قدر و جبر کے حوالے سے علمائے اسلام کے موقف کو سامنے رکھنا بے محل نہیں ہوگا -عقائد کے باب میں رونما ہونے والے اولین اختلافات میں سے یہ ایک ہے-قدریہ اس بات کی طرف گئے کہ تقدیر نام کی کوئی شے نہیں- بندہ اپنے افعال و اقوال کا خالق اور ذمہ دار خود ہے اور اسی پر سزا و جزا کا مدار ہے - جبریہ اس سمت گئے کہ بندے کا اختیار کچھ بھی نہیں ، سب کچھ تقدیر و تخلیق ربانی سے ہے- بندہ مجبور محض ہے - اہل سنت کا موقف درمیانی ہے ، نہ وہ پورے طور پر جبری ہیں اور نہ پورے طور پر قدری -ایک جہت سے جبری ہیں اور ایک جہت سے قدری- وہ اس اعتبار سے جبری ہیں کہ افعال و اقوال کا خالق صرف خدا کو مانتے ہیں اور اس اعتبار سے قدری ہیں کہ وہ بندے کے لیے قوت کسب مانتے ہیں ، اگرچہ اصل خالق و محرک صرف اﷲ تعالیٰ کوہی مانتے ہیں -اہل سنت کے اس واضح موقف کی روشنی میں اس بات کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ بندے کے اندر حقیقی شنوا ، بینا اور گویا حق تعالیٰ کی ذات اقدس ہے - شاعر بظاہر اپنی فکر کو مہمیز اور زبان کو حرکت ضرور دیتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ خیال کے اندر غیب سے مضامین کی آمد ہوتی ہے - جبرو قدر سے پاک یہی اہل سنت کا مذہب اعتدال ہے- یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اہل دل کا کلام بظاہر جبر کی طرف مائل نظر آتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ مائل بہ جبر ہیں، اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ان کے ایک ہاتھ میں توکل کی دولت اور دوسرے میں اپنی خودی کی راکھ ہوتی ہے اور دل موجِ وحدت سے لبریز ہوتا ہے - وہاں غیر کا گزر ہی نہیں ہوتا ،خود اپنا بھی نہیں - ’’ تو ہی تو ‘‘ان کا کل سرمایہ ہوتا ہے-اقبال نے کہا :

کرا جوئی چرا در پیچ و تابی

کہ او پیدا ست تو زیر نقابی

(کس کی تلاش میں ہو اور کیوں پریشان ہو رہے ہو ؟ وہ تو سامنے ہے ،تم چھپے ہوئے ہو*-)

(۸)چشم حقیقت بیں سے اپنی ذات میں ذات حق کو جلوہ نما دیکھنے کے یہ معنی ہیں کہ انسان جو آیات الٰہیہ کا سب سے بڑا مظہر ہے، اگر خود وہ اپنی ذات کا حقیقت پسندانہ مطالعہ کرے تو اسے تلاش حق کے لیے کہیں اور جانے کی ضرورت نہ ہوگی- پوری کائنات اور تمام انفس و آفاق میں ربانی آیات کا ایسا بے حجابانہ ظہور ہے کہ اگر چشم حق بیں سے انسان ان کا مطالعہ کرے تو خود اسے اپنا وجود محجوب معلوم ہوگا- اقبال نے اسی تناظر میں یہ اشعار کہے ہیں اور شیخ اسی چشم بینا کو کھولنے کی بات کررہے ہیں- شیخ کے بقول من عرف نفسہ فقد عرف ربہ کا حاصل یہی ہے، َکایہی مطلوب ہے، ذات حق کے شہ رگ سے قریب تر ہونے کے بھی یہی معنی ہیں، اللہ کی صفت کا مدعا بھی یہی ہے اور اسی کی طرف ایک ضعیف روایت کنت کنزاً مخفیاً کا اشارہ ہے*-

(۹)(ق:۱۶)ہم اس کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں*-

(۱۰)امام عجلونی نے کشف الخفاء میں حدیث نمبر۲۰۱۶ کے ذیل میں لکھا ہے :’’(میں ایک نامعلوم خزانہ تھا تو میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں تو میں نے خلق کی تخلیق کی اور انہیں خود سے آشنا کرایا تووہ مجھ سے آشنا ہوگئے-)ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: (تو میں ان کے لیے شناسا ہوگیا تو وہ میری وجہ سے مجھ سے آشنا ہوگئے-) ابن تیمیہ نے کہا ہے کہ یہ کلام رسول نہیں ہے اور اس کی کوئی بھی صحیح یا ضعیف سند موجود نہیں ہے- زرکشی نے اللآلی المصنوعہ میں اور ابن حجر اور سیوطی وغیرہ نے بھی یہی کہا ہے- اور ملا علی القاری فرماتے ہیں:لیکن اس کے معنی صحیح ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اس قول سے مستفاد ہیں :(میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا-) لیعبدون کے معنی لیعرفونی (تاکہ وہ مجھے پہچانیں) ہیں ، جیسا کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی تفسیر کی ہے- اور زبان زد یہ الفاظ ہیں: اور صوفیہ کے یہاں یہ کثرت سے موجود ہے- اس پر انہوں نے اعتماد کیا ہے اور اس سے متعدد اصول اخذ کیے ہیں- ‘‘(کشف الخفاء:۲/۱۳۲،دار احیاء التراث العربی)شیخ محی الدین ابن عربی نے لکھا ہے:’’ یہ حدیث کشفاً ثابت ہے نقلا ًغیر ثابت ہے-‘‘(الفتوحات المکیہ،باب:۱۹۸)*

*بحوالہ: نغمات الاسرار فی مقامات الابرار (مثنوی)، تصنیف: شیخ ا بو سعید شاہ احسان اﷲ محمدی صفوی، حواشی:از قلم ذیشان احمد مصباحی، سن اشاعت اگست۲۰۱۱ء، ناشر: شاہ صفی اکیڈمی، خانقاہ عارفیہ، سید سراواں، الٰہ آباد(یوپی)

URL: https://newageislam.com/urdu-section/evolution-wahdatul-wajud-throughout-islamic/d/109512

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..