مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
4/1/2017
فَأَیْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْہُ اللّہِ(البقرہ:۱۱۵)
"اور مشرق و مغرب (سب) اللہ ہی کا ہے، پس تم جدھر بھی رخ کرو ادھر ہی اللہ کی توجہ ہے (یعنی ہر سمت ہی اللہ کی ذات جلوہ گر ہے)، بیشک اللہ بڑی وسعت والا سب کچھ جاننے والا ہے"۔
وَفِیْ أَنفُسِکُمْ أَفَلَا تُبْصِرُون (الذاریات:۲۱)
"اور خود تمہارے نفوس میں (بھی ہوں)، تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو"۔
اے آں کہ شب وروز خدا می طلبی
کورے اگر از خویش جدا می طلبی
حق با تو بہر زمان سخن می گوید
سر تا قدمت منم ، کجا می طلبی؟
حضرت سرمد اسی
(ائے شب و روز اللہ کی تلاش میں سرگرداں رہنے والے انسان تو کر چشم ہے کہ اسے خود سے جدا تلاش کر رہا ہے- حق تعالی ہرلمحہ تجھے یہ صدائیں دے رہا ہے کہ خود تیری وجود میں ہی ہوں، مجھے توکہاں ڈھونڈتا پھر رہاہے؟)
جیسا کہ گزشتہ مضامین میں ہم نے جانا کہ نظریہ وحدۃ الوجود صوفیاء اور عرفاء کی اصطلاح میں وجودی توحید کی ایک شکل ہے۔ اور یہ شرک نہیں ہے جیسا کہ مخالفین کا اہل حقیقت اور اہل مشاہدہ پر الزام ہےجو کہ مکمل طور پر لاعلمی اور جہالت پر مبنی ہے، بلکہ نظریہ وحدۃ الوجود تصور توحید کے باطنی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔اور اس کی بنیاد خود پیغمبر اسلام نے رکھی ہے، اور خلفائے راشدین اور صحابہ کرام کا اس پر عمل بھی رہا ہے اور انہوں نے اپنے احوال زندگی کی روشنی میں اس کی بڑی واضح مثالیں بھی پیش کی ہیں جس پر ہم آئندہ تحریروں میں تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالیں گے۔ یہاں صرف ایک حدیث پر اکتفا کرتے ہیں جسے کثرت کے ساتھ محدثین نے نقل کیا ہے:
قَالَ عبد اللہ بن عمر، کُنا فِی الطوافِ نَتَخاَیَلُ اللہَ بَینَ اَعیُنِنَا۔
ترجمہ: جب ہم کعبۃ اللہ کا طواف کرتے تھے تو اپنے چشم خیال میں اللہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے تھے۔
اس حدیث کو امام عبد بن حمید نے مسند میں، امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں، ابن ابی شیبہ نے مصَنف میں، امام بیہقی نے شعب الایمان میں اور امام عبد اللہ بن مبارک نے کتاب الزہد میں بیان کیا ہے۔
یہ حدیث اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور آپ کی تعلیمات کا اثر یہ تھا کہ کعبۃ اللہ کا طواف کرتے وقت بعض صحابہ کرام کی نگاہوں میں رب کعبہ کا جلوہ ہوتا تھا۔ اس لیے کہ آپ ﷺ کی تعلیم ہی یہی تھی کہ:
"ان تعمل لِلہ کانک تراہ، ان تخشیٰ لِلہ کانک تراہ، ان تعبد لِلہ کانک تراہ و کن کانک تراہ"۔
تمہارا عمل ایسا ہو کہ گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو، تمہارے دل میں اللہ کی خشیت ایسی ہو کہ گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو، تم اللہ کی عبادت اس انداز میں کرو گویا کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اور تمہاری پوری زندگی اس طرح گزرے کہ گویا تم اپنی آنکھوں سے جلوہ حق کا مشاہدہ کر رہے ہو۔
اس سلسلے میں اہل حقیقت اور اہل معرفت کے درمیان ایک عظیم عارف اور صوفئ کامل حضرت فضیل بن عیاض کا ایک قول بہت مشہور ہے جسے ابو النُعیم نے حلیۃ الاولیاء میں صفحہ 100 پر نقل کیا ہے۔
حضرت فضیل بن عیاض فرماتے ہیں کہ اللہ کا فرمان ہے کہ:
ما انا مطلع علیٰ احبابی اذا جنھم الیل، جعلت ابصارھم فی قلقبھم۔ مثلت نفسی بین اعینھم، فخاطبونی علی المشاہدہ، و کلمونی علی حضوری۔
میں اپنے محبوب بندوں کے احوال پر مطلع رہتا ہوں کہ جب رات انہیں اپنی آغوش میں لے لیتی ہے تو وہ راتوں کو میرے لیے جاگ کر تنہائی میں میری عبادت کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ میرا معاملہ یہ ہے کہ میں ان کی آنکھوں کو ان کے دلوں میں منتقل کر دیتا ہوں۔ اور خود کو ان کی آنکھوں کے سامنے قائم کر دیتا ہوں۔ وہ جب مجھ سے مناجات کرتے ہیں تو عالم یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے دل کی آنکھوں سے میرا مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں اور جب وہ مجھ سے کلام کر رہے ہوتے ہیں تو میں ان کے ساتھ ہوتا ہوں۔
محترم قارئین! دیکھا آپ نے کہ جب کوئی بندہ مومن فرائض عبادات کے علاوہ راتوں کی نفلی عبادتوں کے ذریعہ ذات حق تعالیٰ کے ساتھ رشتہ محبت قائم کر لیتا ہے تو اس پر اللہ کا یہ انعام ہوتا ہے کہ اللہ ان کے دلوں کو زندہ کر دیتا ہے اور انہیں چشم بصیرت عطا کر دیتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہےکہ ہر وقت اس کے دل میں اللہ کا جلوہ موجزن رہتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ اللہ سے مناجات کرتا ہے تو اس کا جلوہ اس کی نگاہوں میں ہوتا ہے اور جب وہ اللہ سے ہم کلام ہوتا ہے تو اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور علم و عرفان اور کشف و مشاہدہ کا یہی وہ مقام ہے جہاں نظریہ وحدۃ الوجود کا جنم ہوتا ہے۔
اب یہ فیصلہ آپ قارئین کے مذاق عرفانی کے اوپر ہے کہ کیا جسے اللہ کی اتنی قربت حاصل ہو اور جو ذات حق تعالیٰ کی ذات و صفات کی تجلیات کے بحر بیکراں میں اس قدر غوطہ زن ہو کہ پوری کائنات اس سے اور وہ پوری کائنات سے اس طرح بیگانہ ہو گیا ہے کہ ایک پل کے لیے بھی جلوہ حق ا س کی نگاہوں سے اوجھل نہی ہوتا، وہ تمام "موجودات اعتباریہ" کا انکار کرتے ہوئے صرف ایک "موجود حقیقی" کا اقرار اور اعلان نہ کرے تو اور کیا کرے، جس کی ذات ایک ایسی حقیقت ہے جس کے سامنے تمام حقائق جھوٹے ہیں اور جو ایک ایسا سر ہے کہ جس کے سامنے تمام اسرار دم توڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ تمام استدلال اور یہ بیانِ احوال محض لٖفظوں کی کاری گری ہے جس کا مظاہرہ محض چند صوفیاء اپنے اپنے طریقے سے کر رہے ہیں کیوں کہ ایسا سمجھنا بہت بڑی گمراہی ہے۔ اس لیے کہ نظریہ وحدۃ الوجود کی تائید امام غزالی نے بھی کی ہے۔ اور انہوں نے بھی اس نظریہ کو مختلف دلیلوں اور مثالوں کے ذریعہ سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امام غزالی محض کوئی صوفی ہی نہیں تھے، بلکہ انہیں ہر زمانے کے اہل علم، حکماء، اولیاء اور صلحاء نے "مجمع البحرین" کہا ہے۔ وہ جہاں ایک طرف اپنے زمانے کے فقہاء اور علماء کے درمیان یکتائے روزگار تھے وہیں ایک عظیم اور بلند پائہ صوفی اور عارف کامل بھی تھے۔ انہوں نے اس دور میں تصوف کے علمی پہلؤں کو از سر نو تدوین و ترتیب دے کر اسے ایسے دلکش اور مدلل انداز میں پیش کیا اور مخالفینِ تصوف کو لا جواب کیا، جس دور میں نظریہ وحدۃ الوجود کا قول کرنے کے جرم میں حسین بن منصور حلاج کو سولی پر لٹکا دیا گیا تھا۔
ایک روشن مثال
امام غزالی نظریہ وحدۃ الوجود کی وضاحت کرتے ہوئے ایک مثال پیش کرتے ہیں کہ اگر کوئی اپنے ہاتھ میں ایک جلتی ہوئی لکڑی لے اور اسے پوری سرعت کے ساتھ گول گول گھمائے تو دیکھنے والے کو آگ کا ایک مکمل دائرہ نظر آتا ہے جبکہ وہ آگ کا کوئی مستقل دائرہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ ہاتھ کی سرعتِ حرکت کا کمال ہے کہ دیکھنے والے کو ایک مکمل دائرہ نظر آ رہا ہے۔ لہٰذا، اس دائرہ کا وجود "وجود اعتباری" ہے اور حقیقی وجود اس آگ کا ہے جس کی وجہ سے وہ دائرہ نظر آ رہا ہے اور وہ دائرہ اس کا پرتَو ہے۔ اور اس کے پیچھے کمال اس ہاتھ کا ہے جس نے اس میں اتنی حرکت پیدا کر دی ہے کہ اس دائرے کی زد میں آنے والا کوئی مکان اور کوئی لمحہ اس آگ کے وجود سے خالی نہیں رہا۔ اس مثال میں اس ہاتھ سے مراد "وجود حقیقی" کا تصرف ہے اور اس کا تصرف کہیں ظہور ذات کی شکل میں ہے، کہیں ظہور صفات کی شکل میں ہے اور کہیں ظہور افعال کی شکل میں ہے۔ اور اس شعلہ جوالہ سے مراد جس کا دائرہ نظر آرہا ہے کل کائنات کے موجودات ہیں جو اس "وجود حقیقی" کے تصرف سے ایک "وجود اعتباری" کی شکل میں موجود ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔
اس امر کو مزید واضح کرنے کے لیے میں صرف ایک روایت کو نقل کرنا کافی سمجھتا ہوں کہ نظریہ وحدۃ الوجود کے قائلین میں کیسے کیسے اہل کشف اور اہل مشاہدہ شخصیات شامل ہیں:
ایک مرتبہ امام احمد بن حنبل نے امام احمد بن ابی الحواری رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا کہ آپ مجھے کوئی ایسی حکایات سنائیں جو آپ نے اپنے استاذ شیخ ابو سلیمان الدارانی سے سنی ہو؛ انہوں کہ کے ائے احمد مجھے میرے استاذ ابو سلیمان الدارانی نے یہ بتایا کہ جب بندوں کے نفس گناہ چھوڑ دیتے ہیں اور ان کے دل حب دنیا سے پاک ہو جاتے ہیں اور جب ان کے اندر اخلاص اور احسان کا نور پیدا ہو جاتا ہے اور جن ان کے نفوس مکمل طور پر مادی علائق اور کثافتوں سے منزہ اور مبرہ ہو جاتے ہیں تو پھر اللہ ان نفوس کو عالم ملکوت کی سیر کراتا ہے جس سے ان کے اندر ملکوتی صفات پیدا ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے عالم ملکوت، عالم ملائکہ اور عالم جبروت کے وہ اسرار و رموز اور ان کے سارے رازہائے سربستہ جن سے اہل دنیا محروم ہوتے ہیں ان کے اوپر منکشف ہو جاتے ہیں۔ اور جب دوبار اس نفس کو اس ملکوتی صفت بندہ مومن کے جسم میں رکھا جاتا ہے تو اس نفس سے حکمت و معرفت کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں۔ اور ان کی زبان سے ایسے ایسے علوم اور معارف کے چشمے پھوٹتے ہیں کہ جو ساری دنیا کی کتابوں کو پڑھ کر عالم بننے والے کسی شخص کو نصیب نہیں ہوتا۔ لہٰذا، ثابت ہوا کہ علوم و معارف کے جو خزانے کسی صاحب کشف اور معرفت کے دامن میں ہوتے ہیں محض دنیاوی کتابوں کا مطالعہ کرنے والا کوئی عالم ان کی گرد کو بھی نہیں پا سکتا۔
جاری...............
URL: https://newageislam.com/urdu-section/evolution-wahdatul-wajud-throughout-islamic/d/109614
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism