مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
1جنوری ، 2017
دین کا ایک پہلوہے شریعت جس کا عنوان وضو، غسل، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، بیع و شریٰ، احکامِ قصاص اورتقسیمِ میراث وغیرہ ظاہری شرعی مسائل اور احکام و معاملات ہیں اور دوسرا پہلو ہے طریقت ہے جس کا موضوع احوال قلب اور اسرار باطنی ہیں جو کہ نظریہ وحدۃ الود کا نیوکلیائی محور ہے۔ اور جیسا کہ ہم پہلے ہی یہ بیان کر چکے ہیں کہ اس کی شروعات خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہو چکی تھی۔ اس لیے کہ جب ہم سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ پاتے ہیں کہ پیغمبر اسلام ﷺ اپنے صحابہ کرام کو جس طرح ظاہری احکامِ شریعت کی تعلیم فرماتے تھے اسی طرح انہیں عرفان و معرفت کے جامِ لبالب سے بھی سیراب فرماتے تھے۔ جیسا کہ حدیث حارثہ کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے۔اور اہم بات یہ ہے کہ نظریہ وحدۃ الوجود کا اثبات صرف اُسی ایک حدیث سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے علاوہ بھی ایسی دیگر بے شمار آیاتِ قرآنیہ اور احادیث مبارکہ ہیں جو نظریہ وحدۃ الوجود کی تائید کرتی ہیں۔
قرآن مقدس میں ایسی متعدد آیات کریمہ ہیں جو اس بات پر دال ہیں کہ نظریہ وحدۃ الوجود کسی بھی طرح نہ تو دین کی روح کے خلاف ہے اور نہ ہی اس کا تصادم منشائے الٰہی سے ہوتا ہے۔ بلکہ اگر ان آیات قرآنیہ کا ایک وسیع تر تناظر میں بہ نظر غائر مطالعہ کیا جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ نظریہ وحدۃ الوجود کا قول منشائے الٰہی کی مطابقت ہے۔
اللہ کا فرمان ہے:
و ھو معکم اینما کنتم واللہ بما تعملون بصیر۔( سورہ حدید آیت4)
وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے تم جہاں کہیں بھی ہو، اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو (اسے) خوب دیکھنے والا ہے۔
وَفِیْ أَنفُسِکُمْ أَفَلَا تُبْصِرُون (الذاریات21)
‘‘اور خود تمہارے نفوس میں (بھی ہے)، سو کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟
نَفَخْتُ فیہ مِن رُّوحِیْ
"میں نے انسان میں اپنی روح پھونکی"-(الحجر:29)
"وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْہ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد" (ق:16)
اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ [الحديد: 3]۔
"وہی (سب سے) اوّل اور (سب سے) آخر ہے اور ظاہر اور پوشیدہ ہے، اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے"۔
اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ۔(النور:35)
"اللہ زمینوں اور آسمانوں کا نور ہے"۔
مندرجہ بالا آیتیوں میں آپ نے دیکھا کہ ذات حق تعالیٰ کی ربوبیت کے پردے سے یہ صدائیں بلند ہو رہی ہیں کہ نہ زمین کی کوئی حقیقت ہے نہ آسمان کی کوئی حقیقت ہے، نہ کسی جہت کی کوئی حقیقت ہے نہ کسی سمت کی کوئی حقیقت ہے، نہ کوئی زمان موجود ہے نہ کوئی مکان موجود ہے، نہ کوئی خلا ہے نہ کوئی فضاء۔ بلکہ ان تمام موجودات اور مظاہر کائنات کی رگوں میں جس کی روح رواں دواں ہے وہ ذات حق تعالیٰ ہےاس کے سوا نہ اس کائنات کی کوئی حقیقت ہے اور نہ ہی اس کے مظاہر کا کوئی اپنا وجود ہے۔ اگر کوئی حقیقۃً موجود ہے تو وہ ذات حق تعالیٰ ہے۔ اور جلوہ حق تعالیٰ اور انسان کے درمیان صرف ایک ہی حجاب ہے اور وہ نفس ہے۔
اور صوفیائے اور عرفاء فرماتے ہیں کہ جب کوئی انسان نفلی عبادات اور سخت ریاضات و مجاہدات کے ذریعہ نفس کو مار کر اس کے علائق اور اس کی کثافتوں اور شقاوتوں کو دور کر دیتا ہے تو وہ جلوہ ذات حق کا بلاحجاب مشاہدہ کرتا ہے۔ گویا کلمہ شہادت زبان سے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرنا ہے اور نظریہ وحدۃ الوجود روحانی حقائق و معارف اور باطنی اسرار و رموز کے مشاہدے کی بنیاد پر اللہ کی وحدانیت کا اعلان ہے۔ جس کا اعلان حضرت شیخ اکبرمحی الدین ابن عربی(637ھ/1240ء) نے ان الفاظ کے ساتھ کیا ہے: "الحق محسوس والخلق معقول"۔ حقیقی وجود تو صرف ذات حق تعالیٰ کا ہے اور باقی تمام مخلوقات حقیقت کے اعتبار سے کچھ بھی نہیں صرف سمجھ کاپھیر ہے۔
یہاں اس امر کو واضح کرنا ضروری ہے کہ صوفیاء اور عرفاء کاملین نے ذات حق تعالٰی کے علاوہ تمام مخلوقات کو ناقص اور بے حقیقت کیوں قرار دیا ہے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے صوفیا اور عرفائے کاملین اہل حال اور اہل حقیقت و معرفت ہوتے ہیں اسی لیے وہ ہر شئی کی حقیقت سے بحث کرتے ہیں اور اس حقیقت سے نہ تو کسی فقیہ، مجتہد اور مفتی کو اختلاف ہے نہ ہی کسی بھی فرقے کے کسی فتویٰ نویس عالم کو کوئی اختلاف ہے اور نہ ہی تاقیام قیامت اس مسئلے میں کسی کو کوئی نزاع ہو سکتا ہے کہ ما سواء اللہ کائنات کی ہر شئی اپنی حقیقت کے اعتبار سے فانی ہے اور باقی صرف ذات حق تعالیٰ ہے۔
اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں
وتزعم انک جرم صغیر
وفیک انطویٰ العالم الاکبر
"تواپنے خود کوایک معمولی ذرہ سمجھتا ہے، جبکہ تیرے اندر ایک عظیم عالم پوشیدہ ہے"۔
اسی کو شیخ سعدی نے اپنے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
ہر گیاہے کہ از زمیں روید
وحدہ لاشریک لہ گوید
"روئے زمن سے اگنے والی ہر گھاس ذات وحدہ لاشریک کی وحدانت کی گواہی دیتی ہے"۔
دوسرے مقام پر شیخ سعدی ایک قدم اور آگے بڑھتے ہیں اور اس بات کا بر ملا اعتراف کرتے ہیں کہ اگر دل کو خودی کی آلودگی سے پاک کر لیا جائے تو اس میں جلوہ ذات حق جگمگانے لگتا ہے:
سعدی حجاب نیست تو آئینہ صاف دار
زنگار خوردہ کَے بنماید جمالِ دوست
سعدی!تجھ میں اور ذات حق تعالٰی میں کوئی پردہ نہیں ہے، بس بات صرف یہ ہے کہ جس دل کا آئینہ صاف نہ ہو اس میں اس ذات حق تعالٰی کا جلوہ نہیں جگمگاتا۔
حضرت تراب علی قلندر کاکوروی صفائے قلب و باطن کو مشاہدہ جلوہ حق کی کلید قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
گر آرسی ہو صاف تو چہرہ نظر آئے
حق چمکے ہے اس دل میں نہ ہوجس میں کدروت
جب تک خودی ہے تب ہی تلک ہے خدا جدا
غیبت گر آپ سے ہو تو حق کا ظہور ہے....
جاری........................
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism