مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
(قسط :7)
ایک حساس مسلمان کے لیے یہ امر ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ آج اقوم عالم کے درمیان اسلام کو شک کی نگاہوں سے دیکھا جا رہا اور مسلمانان عالم ہر محاذ پر ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں، خواہ وہ محاذ حسن معاشرت کا ہو، معیشت کا ہو، علم کا ہو، ادب کا ہو، ہنر کا ہو، تہذیب و تمدن کا ہو خواہ اخلاق و کردار کا ہو۔ آج ہر محاذ پر مسلمان نا کام اور نا مراد نظر آ رہا ہے۔ کچھ لوگ چند افراد اور کچھ مخصوص طبقات کی خوشحالی اور کامیابی کو بنیاد بنا کر اپنی بغلیں بجا سکتے ہیں اور یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج بھی امت مسلمہ کلیۃً ذلت و رسوائی اور ناکامی و نامرادی کی موج بیکراں میں غرق نہیں ہو رہی ہے بلکہ یہ حالات مسلمانوں کے بعض طبقات اور کچھ مخصوص ملک اور قومیت سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی ہے، یہ مفروضہ رکھنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ افراد کی کامیابی کسی بھی صورت میں پوری جماعت کی کامیابی نہیں ہے اور کسی قوم کے چند طبقات کی کامیابی کو قطعی طور پر پوری قوم کی کامیابی نہیں قرار دیا جا سکتا، اور نہ ہی یہ کسی زندہ قوم کا شیوہ اور وطیرہ ہے۔
بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج علم، ہنر، تہذیب، تمدن، اخلاق و کردار اور حسن معاشرت کا سہرا ان اقوام و ملل کے سر پر ہے جو جن کے یہاں چند صدیاں پہلے انسانی حقوق اور انسانی اقدار و ریات کا کوئی تصور نہیں تھا۔ یہ ایک ایسا عنوان ہے جس کے بے شمار پہلو اور ان گنت گوشے ہیں، لیکن میں آج کی تحریر میں ا س کے صرف ایک پہلو کا جائزہ لوں گا، اور وہ یہ ہے کہ یتیموں اور مسکینوں پر رحمت و شفقت اور مہربانی کے تعلق سے اسلام کا موقف کیا ہے اور اس ضمن میں اسلام کیا بنیادیں فراہم کرتا ہے۔
یتیموں کے ساتھ مہربانی کرنا اور ان کے ساتھ رحمت و شفقت سے پیش آنا اللہ رب العزت کی نظر میں بہت بڑی نیکی اور انتہائی پسندیدہ عمل ہے۔
یتیموں کا ساتھ حسن سلوک کرنا
قرآن میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
"" (2:220)
"تمہارا غور و فکر) دنیا اور آخرت (دونوں کے معاملات) میں (رہے)، اور آپ سے یتیموں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیں: ان (کے معاملات) کا سنوارنا بہتر ہے، اور اگر انہیں (نفقہ و کاروبار میں) اپنے ساتھ ملا لو تو وہ بھی تمہارے بھائی ہیں، اور اﷲ خرابی کرنے والے کو بھلائی کرنے والے سے جدا پہچانتا ہے، اور اگر اﷲ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا، بیشک اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے" (البقرہ :آیت 220 ) [ترجمہ: عرفان القرآن])
یتیموں کی اچھی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا اور ان کے مال و متاح کی حفاظت کرنا
یتیموں کی اچھی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا ، ان کے مال و اسباب کی حفاظت کرنا اور جب وہ سب سن بلوغ کو پہنچ جائیں یعنی جب ان کی عمر نکاح کی ہو جائے تو ان کے مال و اسباب کو ان کے حوالے کر دینا ایک مسلمان کا دینی اور ملی فریضہ ہے۔
اللہ کا فرمان ہے:
"" (4:6)
"اور یتیموں کی (تربیتہً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں ہوشیاری (اور حُسنِ تدبیر) دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو، اور ان کے مال فضول خرچی اور جلد بازی میں (اس اندیشے سے) نہ کھا ڈالو کہ وہ بڑے ہو (کر واپس لے) جائیں گے، اور جو کوئی خوشحال ہو وہ (مالِ یتیم سے) بالکل بچا رہے اور جو (خود) نادار ہو اسے (صرف) مناسب حد تک کھانا چاہئے، اور جب تم ان کے مال ان کے سپرد کرنے لگو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو، اور حساب لینے والا اللہ ہی کافی ہے" (النساء :آیت 6) [ترجمہ: عرفان القرآن])
یتیموں کا مال ناحق طریقے سے کھانے کے والوں کے لیے درد ناک وعید
یتیموں کا مال ناحق طریقے سے کھانا اتنا بڑا گناہ ہے کہ قرآن میں یتیموں کا مال ناحق طریقے سے کھانے والوں کو قرآن نے اپنے پیٹ میں آگ بھرنے والا کہا ہے۔
اللہ کا فرمان ہے:
"" (4:10)
"بیشک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں نری آگ بھرتے ہیں، اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گے"۔(النساء :آیت 10) [ترجمہ: عرفان القرآن])
یتیموں کا مال اپنے مال کے ساتھ ملانا بھی گناہ عظیم ہے
یہاں تک کہ یتیموں کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر بھی کھانا بہت بڑا گناہ اور اللہ کے سخت عذاب کا باعث ہے۔ یتیموں کا مال ان کے حوالے کرنا فرض ہے۔
"" (4:2)
"اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور بُری چیز کو عمدہ چیز سے نہ بدلا کرو اور نہ ان کے مال اپنے مالوں میں ملا کر کھایا کرو، یقیناً یہ بہت بڑا گناہ ہے"۔ (النساء :آیت 2) [ترجمہ: عرفان القرآن])
اب اس سلسلے میں چند منتخب احادیث کا مطالعہ کرنا بھی فائدے سے خالی نہیں ہوگا۔
۔ (بخاری۔ مسلم ۔ترمذی)
ترجمہ: "حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علہی والہ وسلم نے فرمایا: بیوہ عورت اور مسکین کے (کاموں) کے لئے کوشش کرنے والا راہِ خدا میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے (راوی کہتے ہیں:) میرا خیال ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: وہ اس قیام کرنے والے کی طرح ہے جو تھکتا نہیں اور اُس روزہ دار کی طرح ہے جو افطار نہیں کرتا۔"
۔ (بخاری ۔ترمذی ۔أبو داود۔)
ترجمہ: حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں اور یماس کی کفالت کرنے والا شخص جنت میں اِس طرح ہوں گے۔ اور (آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے) اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں کے درمیان مختصر فاصلہ رکھا۔
۔ ( مسلم۔ مسند أحمد بن حنبل۔ بيهقی۔)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: یتیم کی پرورش کرنے والا، اگرچہ وہ اُس کا رشتہ دار ہو یا نہ ہو، اور میں جنت میں اِس طرح ہوں گے۔ مالک نے (جو کہ اس حدیث کے راوی ہیں) درمیانی انگلی اور شہادت کی انگلی ملا کر اشارہ کیا ۔
۔ (ترمذی ،مسند احمد بن حنبل )
ترجمہ: حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علہی والہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مسلمان یتیم بچے کے کھانے پینے کی کفالت کرے اللہ تعالیٰ ضرور اُسے جنت میں داخل کرے گا سوائے اس کے کہ وہ کوئی ایسا (شرک) گناہ کرے جس کی بخشش نہ ہو۔
۔(نسائی۔ دارمی )ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کثرت سے ذکر الٰہی فرماتے، عام بات چیت بہت کم فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز کو طویل فرماتے اور خطبے کو مختصر اور آپ صلی اللہ علہ والہ وسلم بیواؤں اور مسکینوں کی حاجت روائی کرنے کے لئے اُن کے ساتھ چلنے میں کوئی عار محسوس نہیں فرماتے تھے۔
۔ (ابو يعلی۔ديلمی )
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں وہ پہلا شخص ہوں جس کے لئے جنت کا دروازہ کھولا جائے گا مگر یہ کہ ایک عورت جلدی سے میرے پاس آئے گی، میں اُس سے پوچھوں گا: تمہارا کیا مسئلہ ہے؟ تم کون ہو؟ وہ کہے گی: میں وہ عورت ہوں جو اپنے یتیم بچوں کی پرورش کے لئے بیٹھی رہی (یعنی دوسرا نکاح نہیں کیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اسے جنت میں داخل فرما دیں گے)۔
۔ (ابن ماجہ، طبرانی ۔ بخاری)
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ باْن کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں میں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس مں: کوئی یتیم ہو اور اُس کے ساتھ نیک سلوک کیا جاتا ہو اور سب سے بدترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اُس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو۔
۔ (بیہقی)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علہت والہ وسلم سے اپنے دل کے سخت ہونے کا ذکر کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اپنے دل کو نرم کرنا چاہتے ہو تو مسکین کو کھانا کھلاؤ اور یتیم کے سر پر ہاتھ رکھو۔
ی۔ (طبرانی ۔ ابن ابی دنیا)
ترجمہ: حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جس نے یتیم کے سر پر ہاتھ پھرا اور اس کا مقصد صرف اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا تھا تو اس کے لئے ہر اس بال کے بدلے نیکیاں ہیں جس بال کو اُس کا ہاتھ لگا تھا۔ جس نے اپنی زیر کفالت کسی یتیم بچی یا بچے کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو وہ اور میں جنت میں اس طرح ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی اور درماینی انگلی میں تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔
۔ (صحیح مسلم)
ترجمہ: جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں تو میں اور وہ قیامت کے دن اس طرح ہوں گے اور آپ صلی اللہ علہ وسلم نے اپنی انگلو ں کو ملا کر دکھایا۔
حضرت عبداللہ بن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
جس شخص کے گھر بچی پیدا ہوئی اور اس نے جاہلوں کے طریقے پر اسے زندہ درگور نہیں کیا اور نہ اس کو حقیر و ذلل سمجھا اور نہ لڑکوں کو اس کے مقابلے میں ترجحا دی تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو جنت میں داخل فرمائے گا۔ (سنن ابوداؤد)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ مر ے پاس ایک مسکین عورت اپنی دو بیٹیاں لے کر آئی، میں نے اسے تین کھجوریں دیں اور اس نے اپنی دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو ایک ایک کھجور دے دی اور ایک کھجور کو اپنے منہ میں کھانے کے لئے جیسے ہی رکھا تو اس کی ان دونوں بیٹیوں نے اس سے یہ کھجور بھی کھانے کے لئے طلب کی تو اس نے اس کھجور کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ان دونوں کو دے دیا، میں اس کی یہ بات دیکھ کر بہت حیرت زدہ ہوئی، لہٰذا، میں نے یہ سارا ماجرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے اس عمل نے اس کے لئے جنت کو واجب کردیا ہے اور جہنم سے اسے آزاد کر دیا۔ (صحیح مسلم)
یہ انسانی حقوق کے تعلق سے اسلامی تعلیمات کے بے شمار گوشوں میں سے وہ ایک گوشہ ہے کہ جسے مسلمانوں نے جب تک اپنے سینے سے لگائے رکھا تب تک وہ ایک سرخرو اور فاتح قوم کی حیثیت سے اپنی بلندیئ اقبال کا پرچم آسمانوں پر لہراتے رہے، لیکن جب امت مسلمہ نے ان انسانی قدروں کو فراموش کر دیا اور اسلامی تعلیمات سے اپنا چہرہ پھیر لیا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ تخت و تاج سے بھی اتارے گئے، تقریباً تین بر اعظموں پر پھیلی ہوئی ان کی ایک ہزار سالہ حکومت و سلطنت بھی ان سے چھین لی گئی اور اللہ نے ان کے حق میں ناکامی و نامرادی کا فیصلہ بھی زمین پر اتار دیا۔
جاری.....................
URL: