مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام
13 ستمبر 2018
اس کثیر لسانی ویب سائٹ newageislam.com پر چند انتہائی اہم فکری اور نظریاتی مضوعات پر بحث و تمحیص کا سلسلہ اتنا دراز ہو چکا ہے کہ آج جہاں چند مباحث مرکزی حیثیت اختیار کر چکے ہیں وہیں تنسیخ آیات قرآنیہ کا مسئلہ بھی اکثر مباحث کا حصہ ہوتا ہے۔ ہمیں اکثر یہ بات دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہے کہ قرآن کی فلاں آیت نے قرآن کی فلاآیت کو منسوخ کر دیا ہے۔ لہٰذا، مناسب معلوم ہوتا کہ تنسیخ کے بنیادی مسائل کو حتی المقدور شرح و بسط کے ساتھ بیان کر دیا جائے ۔ چونکہ ناسخ ومنسوخ کا مسئلہ علوم قرآنیہ میں معرکۃ الآرا مسائل میں سے ایک ہے ، لہٰذا، اس کا مطالعہ عام قارئین لئے دلچسپ اور فائدہ مند ہوگا۔
مسائل تنسیخ میں مذاہب اسلامیہ اور بعض متجددین کے نظریات کا ذکر کرنے سے پہلے نسخ کا لغوی اور شرعی معنی سمجھنا ضروری ہے:
نسخ کا لغوی معنیٰ؛
علامہ مجدالدین فیروز آبادی لکھتے ہیں:
نسخ کا معنی کسی چیز کو زائل اور مغیر کرنا، کسی چیز کو باطل کرکے دوسری چیز کو اس کا قائم مقام کرنا۔ (قاموس ج 1 ص 533 التراث العربی بیروت۔ بحوالہ تبیان القرآن)
علامہ زبیدی حنفی لکھتے ہیں:
عرب کہتے ہیں ‘‘نسخت الشمس الظل‘‘، یعنی سورج نے سائے کو منسوخ کردیا، سائے کو زائل کر دیا ، سائے کو لے گیا ، ایک آیت نے دوسری آیت کو منسوخ کردیا ، یعنی اس کے حکم کو زائل کر دیا، اور نسخ کا معنیٰ ہے ایک چیز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دیا، لیث نے کہا نسخ کی تعریف یہ ہے کہ جس چیز پرپہلے سے عمل کیا جاتا تھا اس کو زائل کر دیا جائے اور کسی نئے کام پر عمل کیا جائے، فراء نے کہا نسخ یہ ہے کہ پہلے ایک آیت پر عمل کیا جائے، پھر دوسری آیت نازل ہو تو اس پر عمل کیا جائے اور پہلی آیت پر عمل کو ترک کردیا جائے اور ابن الاعرابی نے کہا نسخ یہ ہے کہ ایک چیز کو دوسری چیز سے تبدیل کردیا جائے۔ (تاج العروس ج2 ص 282، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت۔ بحوالہ تبیان القرآن)
نسخ کا شرعی معنیٰ:
امام رازی لکھتے ہیں:
ناسخ وہ دلیل شرعی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ناسخ سے پہلے جو حکم کسی دلیل شرعی سے ثابت تھا وہ حکم اب نہیں ہے اور نسخ کی یہ دلیل پہلے حکم کی دلیل سے متاخر ہوتی ہے اور اگر یہ ناسخ نہ ہوتا تو وہی حکم ثابت رہتا۔ ( تفسیر کبیر جلد 1 صفحہ 433۔ مطبوعہ دار الفکر بیروت۔ بحوالہ تبیان القرآن)
علامہ تفتازانی لکھتے ہیں:
نسخ یہ ہے کہ ایک دلیل شرعی کے بعد ایک اور دلیل شرعی آئے جو پہلی دلیل شرعی کے حکم کے خلاف کو واجب کرے۔ ( توضیح تلویح۔ جلد 2 ۔ صفحہ 31۔ مطبوعہ دارالکتب العربیہ الکبریٰ، مصر۔ بحوالہ تبیان القرآن)
علامہ میر سید شریف لکھتے ہیں:
صاحب شرع کے حق میں کسی حکم شرعی کی انتہا کو بیان کرنا نسخ ہے، اس حکم کی انتہا اللہ کے نزدیک معلوم ہوتی ہے مگر ہمارے علم میں اس حکم کا دوام و استمرار ہوتا ہے اور ناسخ سے ہمیں اس حکم کی انتہا معلوم ہوتی ہے ، اس لئے ہمارے حق میں نسخ تبدیل اور تغیر سے عبارت ہے۔ ( کتاب التعریفات۔ صفحہ 106۔ مطبوعہ المطبعۃ الخیریۃ۔ بحوالہ تبیان القرآن)
علامہ محمد عبدالعظیم زرقانی لکھتے ہیں:
کسی حکم شرعی کو دلیل شرعی سے ساقط کردینا نسخ ہے۔ (مناھل العرفان، جلد 2۔ صفحہ 107۔ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت۔ بحوالہ تبیان القرآن)
نسخہ کے حوالے سے علماء کے اختلافات کو ذکر کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ سواداعظم علماۓ اہل سنت کے نزدیک نسخہ کے ذرائع کیا کیا ہیں انہیں مختصرا بیان کردیا جائے۔ اس سلسلے میں علامہ سیوطی لکھتے ہیں:
نسخ کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح نقل (حدیث) سے کیا جائے گا یا کسی صحابی کا قول اس طرح منقول ہوں کہ فلاں آیت فلاں آیت سے منسوخ ہو گئی ، اور کبھی نسخ کو استنباط سے معلوم کیا جائے گا جب دو آیتوں میں قطعی تعارض ہو اور کسی دلیل سے معلوم ہو جائے کہ ان میں سے ایک آیت متاخیر ہے۔ نسخ سے متعلق عام مفسرین کے قول پر اعتماد نہیں کیا جائے گا اور نہ بغیر کسی نقل صریح کے مجتہدین کے اجتہاد پر عمل کیا جائے گا، کیوں کہ نسخ میں کسی ایسے حکم کو اٹھا لینا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ثابت تھا اور اس کی جگہ کسی دوسرے حکم کو ثابت کرنا ہے اور اس میں نقل اور تاریخ پر اعتماد کیا جاتا ہے نہ کہ رائے اور اجتہاد پر ، نسخ کے ثبوت میں علماء کا اختلاف ہے، بعض علماء کہتے ہیں کہ نسخ میں اخبار احاد صحیحہ بھی معتبر نہیں ہیں اور بعض علماء اس میں تساہل کر کے یہ کہتے ہیں کہ مفسر یا مجتہد کے قول سے نسخ ثابت ہو جاتا ہے ، اصل میں یہ دونوں قول افراط اور تفریط پر مبنی ہیں۔ (الاتقان جلد 2۔ صفحہ 24۔ مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور۔ بحوالہ تبیان القرآن)
علماء کے درمیان یہ مسئلہ بھی موضوع بحث ہے کہ قرآن کے کس قسم کے احکامات میں نسخ وارد ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں مفسر قرآن ملا احمد جیون رحمتہ اللہ علیہ کی تصنیفِ لطیف تفسیرات احمدیہ کافی رہنمائی کرتی ہے؛ آپ لکھتے ہیں:
‘‘ نسخ کا محل وہ حکم بنتا ہے جس میں فی نفسہٖ وجودوعدم کا احتمال ہو۔ یعنی ایسا حکم نہ ہو جو واجب لذاتہ ہو جیسا کہ ’’ہو جو ب ایمان‘‘ ہے، اور نہ ہی ممتنع لذاتہ ہو، جیسا کہ ’’حرمت کفر‘‘ ہے ، اور اسی طرح وہ حکم ایسا ہونا چاہیے جس کے ساتھ کوئی ایسی بات منسلک نہ ہو جو نسخ کے منافی ہو۔ مثلا اس حکم کا وقت مقرر کیا گیا ہو یا اسے ہمیشہ کے لئے باقی رکھنے کا ذکر ہو۔ خوہ اس قسم کی منافی بات بطور نص ثابت ہو یا بطور دلالت معلوم ہوتی ہو۔ (یعنی واجب لذاتہ ، ممتنع لذاتہ ، مؤقت اور مؤئد بالنص یا بالدلیل حکم کا نسخ نہیں ہو سکتا)۔
وجوب ایمان اور حرمت کفر بالترتیب واجب لذاتہ اور ممتنع لذاتہ کی مثالیں ہیں۔ اور موقت یعنی جس حکم کو مخصوص وقت تک نافظ کیا گیا اور اس کا وقت مخصوص کے لئے ہونا نص قرآنی یا دلیل قرآن سے ثابت ہو ۔ اس قسم کے حکم کی تنسیخ کی مثال شرع شریف میں نہیں۔ البتہ ایسا حکم جس کی ابدیت بذریعہ نص ثابت ہو اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے: خٰلدین فیھاابداً (جہنم میں کفار ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے) اور ایسے احکام جن کی ابدیت بطور دلالت ثابت ہے ان کی مثال وہ تمام شرعی احکام ہیں جو حضور سرور کائنات ﷺ اپنے پیچھے امت کے لئے چھوڑ گئے۔ (تفسیرات احمدیہ صفحہ 36، مطبوعہ ادبی دنیا دہلی)
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism