مرزا عبد علیم بیگ
4 اگست 2013
انسانی حقوق کا موضوع انتہائی بنیادی انسانی موضوعات میں سے ایک ہے جو کہ سب سے زیادہ حساس اور متنازعہ بھی ہے ۔ حالیہ دہائیوں کے دوران اس مسئلہ کی نوعیت اخلاقی یا قانونی سے زیادہ سیاسی رہی ہے ۔
اگر چہ سیاسی محرکات ، رقابتیں ، اور مشاورت کے اثر و رسوخ نے اس مسئلہ کے صحیح ضابطہ کو پیچیدہ بنا دیا ہے لیکن اس کی وجہ سے اس مسئلہ میں مفکرین اور حقیقی انسانیت پسندوں کو مداخلت کرنے اور بالآخر ایک حل تلاش کرنے سے نہیں رکنا چاہئے ۔ صرف گذشتہ دو صدیوں سے ہی مغربی معاشرے میں انسانی حقوق کا مسئلہ وہاں کے سیاسی اور سماجی مسائل میں ایک اہم موضوع کی شکل میں رونما ہو ا ہے اور ایک ایسا مسئلہ بن کر ابھرا ہے جسے بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اور مغرب میں اس کی اہمیت گذشتہ چند دہائیوں کے دوران دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کے قیام کے ساتھ ہی انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کا خاکہ تیار کئے جانے کے بعد اپنے عروج کو پہونچی ہے لیکن ہم مسلمانوں کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر چہ مغربی دنیا اور مغربی تہذیب نے حالیہ صدیوں میں ہی اس معاملے پر توجہ دی ہے اسلام کئی صدیاں پہلے ہی انسانی حقوق کے تمام مختلف پہلوؤں کا احاطہ کر چکا ہے ۔
اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ تمام انسان ایک کنگھی کے دندان کی طرح مساوی ہیں اور تقوی اور اعمال صالحہ کے علاوہ کوئی شخص کسی دوسرے سے برتر نہیں ہے ۔ اسی طرح اسلام نے معاشرے کے تمام طبقات کے درمیان ہر طرح کی فرقہ واریت اور امتیازی سلوک کو رد کر دیا ہے ۔ مندرجہ ذیل قرآنی آیت میں اس کی تصدیق کی گئی ہے: ‘‘لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے’’۔
اسی طرح حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )نے اپنی الوداعی خطبہ میں آئین اسلام کا اعلان جس پر ان کے وصال کے بعد عمل کیا جانا تھا ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنے اس خطبہ میں یہ اعلان کرتے ہوئے اسلامی اصول کو حتمی شکل دیا کہ ‘‘ اے لوگو تمہارا خدا ایک ہے اور تمہارے والد بھی ایک ہی ہیں اس لئے کہ تم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم علیہ السلام کو گاری مٹی سے پیدا کیا گیا ہے ۔ تمہارے درمیا ن خدا کی نظر میں سب سے زیادہ باعظمت وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ صالح ہے۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے ۔ کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے بلکہ فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے ۔ میں نے خدا گواہ بنا کر تم سے اس کا اعلان کر دیا ہےاور جو موجود ہیں وہ غائب کو اس سے مطلع کر سکتے ہیں۔
بنیادی انسانی حقوق کے تعلق سے اسلام میں ہم جو سب سے پہلی بات پاتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ ایک انسان کے طور پر لوگوں کے لئے کچھ حقوق متعین کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آدمی خواہ اس کا تعلق مسلم ریاست سے ہو یا نہ ہو ، وہ مومن ہو یا کافر ، وہ کسی جنگل میں رہتا ہو یا کسی صحرا میں معاملہ چاہے جو ہو اسے صرف اس وجہ سے کچھ بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں کہ وہ ایک انسان ہے اور یہ بات ہر مسلمان کو تسلیم کرنا چاہئے ۔
جان و مال کی حفاظت :
سب سے پہلا بنیادی حق جینے اور انسانی زندگی کے احترام کا حق ہے۔ قرآن کا فرمان ہے: " جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اُس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اور جو اس کی زندگانی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا "۔
اپنے آخری حج کے دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خطاب میں فرمایا کہ : " قیامت کے دن اپنے رب سے ملنے تک تمہاری جان اور مال ایک دوسرے پر حرام ہے ۔" انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ: " جو شخص کسی ذمی (یعنی مسلم ملک کاکوئی غیر مسلم شہری)کی جان ناحق لیتا ہے اسے جنت کی خوشبو بھی میسر نہیں ہوگی ۔
عزت کا تحفظ :
قرآن کسی کی ذاتی غیرت کو رسوا کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے : " اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو۔ ایمان لانے کے بعد برا نام (رکھنا) گناہ ہے ۔ "
ذاتی آزادی کا تحفظ :
اسلام کسی بھی فرد کو اس وقت تک قیدی بنانے سے منع کرتا ہے جب تک کہ اس کا جرم ایک عوامی عدالت میں ثابت نہ ہو جائے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملزم کو اپنے دفاع اور عدالت سے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انصاف کی توقع رکھنے کا حق حاصل ہے ۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی روایات میں مذکور ہے کہ : " مسلمان کے لئے کسی دوسرے مسلمان کو خوفزدہ کرنے کی اجازت نہیں ہے " ۔
ظلم کے خلاف احتجاج کرنے کا حق:
قرآن مجید میں یہ واضح طور پر مذکور ہے : " خدا اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو علانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔ اور خدا (سب کچھ) سنتا (اور) جانتا ہے " ۔ اسلام میں ایک فرد کی طاقت اور اتھارٹی خدا کی طرف سے عطا کردہ ایک امانت ہے۔ یہ ایک انسان کی ایک زبردست ذمہ داری ہے اس لئے کہ اسے اس امانت کا استعمال اس طرح کرنا چاہئے جو خدا کی بارگاہ میں قابل قبول ہے ۔ اپنے سب سے پہلے خطاب میں ابو بکر نے یہ کہتے ہوئے اسے تسلیم کیا ہے کہ " جب میں صحیح ہوں تو میرے ساتھ تعاون کرو اور جب میں غلطی کا ارتکاب کروں تومیری اصلاح کرو ۔ اور جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی پیروی کرتا رہوں تم میرا حکم مانو لیکن جب میں انحراف کا شکار ہو جاؤں تو مجھ سے منہ پھیر لو ۔
اظہار رائے کی آزادی :
اللہ نے(اولاد) آدم کو صحیح اور غلط میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی آزادی دی ہے۔ بالکل یہی حوالہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں پیش کیا ہے "پھر اس نے ان پر یہ واضح کر دیا کہ ان کے لئے کیا غلط ہے اور کیا صحیح ہے"۔ اسلام اظہاررائے اور فکر کی مکمل آزادی عطا کرتا ہے بشرطیکہ اس کی وجہ سے افراد اور بڑے پیمانے پر معاشرے کا کوئی نقصان نہ ہو ۔ مثال کے طور پر تنقید کے نام پر بری زبان یا جارحانہ انداز گفتگو کا استعمال ممنوع ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور حیات میں مسلمان بعض معاملات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کرتے تھے۔ اگر اس خاص معاملے میں قرآن کی کوئی خاص آیت دستاب نہیں ہوتی تو وہ اپنی ذاتی رائے پیش کرنے کے لئے آزاد تھے۔
قانون کی نظر میں مساوات :
اسلام شہریوں کو قانون کی نظر میں مطلق اور مکمل مساوات کا حق دیتا ہے۔ انصاف کے اسلامی تصور کے مطابق کوئی بھی شخص قانون سے بالکل ہی بالاتر نہیں ہے۔ اس نقطہ نظر کو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ایک انتہائی مؤثر انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ (واقعہ یہ ہے کہ)ایک دن ایک اعلی اور عظیم خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک عورت چوری کے سلسلے میں گرفتار کی گئی ۔ یہ کیس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اس سفارش کے ساتھ کے پیش کیا گیا کہ اسے چوری کی لازمی سزا ( ہاتھ قلم کرنا ) سے برأت دی جانی چاہئے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم سے پہلے کی قوموں کو خدا نے ہلاک کر دیا اس لئے کہ وہ عام افراد کو ان کے جرائم کے لیے سزا دیتے تھے اور معزز شخصیات کو ان کے جرائم کی سزا دئے بغیر ہی بری کر دیتے تھے ۔ قسم ہے اس رب ذوالجلال کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جا ن ہے اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ بھی اس جرم کا ارتکاب کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا ۔ "
جدید جمہوریتوں کا یہ ماننا ہےکہ مساوات اور آزادی قائم کرنے کے لئے دنیا ان کی شکرگزار ہے ۔ انسانی حقوق متعارف کرانے کا سہرا یہ ممالک اپنے سر لیتے ہیں؛ اور انگلینڈ وراثت میں حاصل ہونے والی اپنی اس روایات کے لئے مشہور ہے اور وہ اس کا کریڈٹ اپنے سر لیتا ہے جبکہ فرانس کا یہ دعوی ہے کہ انسانی حقوق فرانسیسی انقلاب کا نتیجہ ہیں ۔ درحقیقت اس بات کی تصدیق اچھی طرح ہو چکی ہے کہ انسانی حقوق کو مذہب اسلام نے اس کی بہترین شکل میں متعارف کرایا ہے اور وسیع ترین پیمانے پر اسے قائم بھی کیا ہے ۔
نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور حیات میں اور ہدایت یافتہ خلفاء کے دور حکومت میں انسانی حقوق کے اصول کو اپنانے والی سب سے پہلی ریاستیں اسلامی ریاستیں ہیں ۔ آج کے جدید جمہوریتوں کو ابھی تک اس بات کا علم نہیں ہوا ہے کہ مذہب اسلام نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے کن اصول و احکام کو نافذ کیا ہے۔ لہٰذا مذہب اسلام وہ مذہب ہے جس کی بنیاد تمام انسانوں کی مساوات اور آزادی کے اصولوں پر ہے اور جس کا مقصد نسل انسانی کی فلاح و بہبود کو فروغ دینا ہے ۔
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ نیو ایج اسلام)
بلاگر مرزا عبد علیم بیگ، بی ایی( بائیو میڈیکل) نیشنل اکیڈمی آف ینگ سائنٹسٹ میں ادارتی بورڈ کے ایک رکن ہے۔
ماخذ: http://blogs.thenewstribe.com/blog/69255/common-misconception-about-basic-human-rights-in-islam/
URL for English article: https://newageislam.com/islam-human-rights/common-misconception-basic-human-rights/d/12893
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/common-misconception-basic-human-rights/d/14220