مائک غوث
24 مارچ 2014
لاڑکانہ سندھ میں ایک ہندو مندر جلائے جانے کی مذمت میں جو کہ بدقسمتی سے امن یعنی اسلام کے نام پر ایک بھڑکے ہوئے ہجوم نے انجام دیا تھا، دی انسٹی ٹیوٹ آف قرآنک نولیج اینڈ انٹرفیتھ رلیجیس ایکسیپ ٹینس آف قرآن (the Institute of Quranic knowledge and Intrafaith Religious Acceptance of Quran) اور پاکستان امریکن ایسوسی ایشن آف ٹیکساس (the Pakistan-American Association) نے بھی دی ورلڈ مسلم کانگریس (The World Muslim Congress) کے ساتھ مل کر اپنی آواز بلند کی۔
پیش ہے ریوٹرز کی رپورٹ " پولیس اور کمیونٹی کے لیڈروں نے اتوار کو کہا کہ سینکڑوں غضبناک پاکستانیوں نے اس افواہ کے بعد کہ ہندو برادری کے ایک رکن نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی، جنوبی پاکستان میں واقع ایک ہندو مندر پر حملہ کیا اور راتوں رات اس کو خاکستر کر دیا۔"
ڈلاس، ٹیکساس میں ایک تھنک ٹینک ورلڈ مسلم کانگریس کے سربراہ مائک گھوش نے یہ کہا کہ مسلمان کی حیثیت سے ہم ان لوگوں کے اس گھناؤنے عمل پر شرمندہ ہیں اور افسردہ بھی جو اپنی مرضی سے ایسی خلاف انسانیت سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور ان کے اس عمل کی ہم واضح طور پر مذمت کرتے ہیں۔
تاہم، ہم امید کی ایک چھوٹی سی کرن کی تعریف بھی کرتے ہیں: "پاکستان کے مسلمان علماء نے لاڑکانہ ضلع میں ایک ہندو مندر پر حملوں کی مذمت کی اور انہوں نے قرآن کی بے حرمتی کے خلاف احتجاج کے اس واقعے کی فوری تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے جوپرتشدد جھڑپوں کی شکل اختیار کر گیا۔"
مسلمانوں کی اکثریت اس تعلق سے گہری تشویش کا شکار ہے اور ہم دنیا بھر کے مسلمانوں سے بالعموم اور پاکستان کے مسلمانوں سے بالخصوص درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس مندر کی تعمیر نو کے لئے ایک فنڈ جمع کریں اس لیے کہ یہی ایک ایسا کام ہے جو کم از کم وہ اپنے ہم وطنوں کے لیے کر سکتے ہیں۔ ہر معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اقلیتوں خواتین، بزرگوں اور بچوں کی حفاظت کرے اور کوئی بھی شخص اکثریت سے خوفزدہ نہ رہے۔ یہی متمدن معاشروں کی شناخت ہے۔
اقراء IQRA سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر بشیر احمد اور پاٹ PAAT سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عامر سلیمان نے ایک ایسے ہم آہنگ پاکستان کی تعمیر کے لیے پہلا قدم اٹھانے کی اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا جہاں تمام پاکستانی خود کو محفوظ محسوس کریں۔ کم از کم ہم یہ کر سکتے ہیں کہ مندر کی تعمیر نو میں اپنا تعاون پیش کریں۔ دی پاکستان-امریکن ایسوسی ایشن آف ٹیکساس (The Pakistan-American Association of Texas) ڈلاس میں 23 مارچ پر یوم پاکستان منا رہا ہے اور اس موقع پر اس نے فنڈز جمع کرنے کے لیے اپنی سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میلے میں ایک بوتھ عطیہ کیا ہے۔ تمام آمدنی کو مندر کی تعمیر نو میں خرچ کیا جائے گا۔
ہمارے پاس بہت سارے راستے ہیں، ہم میں سے چند لوگ اپنے مذہب کے تئیں عدم تحفظ کا خوف رکھتے ہیں۔ خدا ہمارے ساتھ ہی ہے اور اگر کوئی قرآن کو جلا دیتا ہے یا اس کی توہین بھی کرتا ہے تو بھی قرآن معدوم نہیں ہوگا اور نہ ہی ان کی ان حرکتوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی فرق پڑتا ہے وہ ہمارے درمیان ہی ہیں اور الحمد للہ وہ ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے۔
انوکھی بات یہ ہے کہ پاکستان علماء کونسل (PUC) کے چیئرمین حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے 17 مارچ کو پیر کے دن میڈیا میں یہ بیان دیا کہ ، ‘‘ہمارا مذہب اسلام امن، محبت اور صبر و تحمل کی تعلیم دیتا ہے’’ پھر انہوں نے تشدد کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا: ‘‘تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ دوسرے مذاہب کے پیروکار مسلمانوں کے جذبات کا احترام کریں’’۔ (اور ایسا نہ کرنا) امن کے اسلامی اصولوں کی توہین ہے۔
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ان لوگوں کے لئے بھی دعائیں کیں جنہوں نے طائف کی وادی میں ان پر پتھریں پھینکیں، یہاں تک کہ فرشتوں کے سردار جبرائیل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں آکر عرض کیا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں ان شرپسندوں کو دونوں پہاڑیوں سے کچل دوں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قطرہ بھی خون نہیں بہنے دیا اور نہ ہی انہوں نے ان شرپسند عناصر پر کوئی الزام عائد کیا تھا بلکہ انہوں نے ان کو معاف کر دیا اور غیر مشروط طور پر آپ نے ان کے لئے دعا بھی کی۔ یہ ہے امن کا مذہب اور ہمیں اسی نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے۔
اگر چہ لاء اینڈ آرڈر سے صورت حال قابو میں آتی ہے لیکن اس سے آگ مکمل طور پر سرد نہیں ہوتی۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ جب مہلک چنگاریاں بڑھتی ہیں اور اس وقت تک پھٹتی رہتی ہیں جب تک کہ اس کا سامنا نہ کیا جائے۔
آج بڑے پیمانے پر مسلمان اس غلطی کا شکار ہیں کہ انہوں نے پاکستان میں توہین رسالت کے قوانین کے غلط استعمال کی کوئی مزاحمت نہیں کی ہےجو کہ بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات اور ان کے کردار کے لیے بالکل ہی موزوں نہیں ہے کیوں کہ انہیں پوری انسانیت کے لئے رحمت مانا جاتا ہے۔ اب ہم مسلمانوں کو یہ سمجھنے کا وقت آ گیا ہے کہ ہم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار امن کے ان اصولوں پر عمل کرتے ہیں جن کی تعلیم انہوں نے ہمیں دی ہے بلا شبہ وہ رحمۃ للعالمین بنی نوع انسان کے لئے رحمت ہیں۔ کسی بھی انسان کو ہم سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہئے اس کے بجائے انہیں محفوظ محسوس کرنا چاہیے اور فخر کے ساتھ یہ کہنا چاہیے کہ مسلمان امن پسند لوگ ہیں اور وہ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اصولوں پر عمل کرتے ہیں۔
کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن اور خدا کو ہمارے تحفظ کی ضرورت ہے؟ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ہمارے تحفظ کی ضرورت تو ہم بالکل غلط ہیں۔ مسلمان ہونے کے ناطے ضروری ہے کہ ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ہو اور یہ بھی ہمارا ایمان ہونا چاہیے کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں اور کسی کے توہین آمیز افعال و کردار سےانہیں کوئی نقصان نہیں ہو گا۔
اسلام خود اپنی بنیادوں پر کھڑا ہے اور اسے ہمارے دفاع کی ضرورت نہیں ہےاسی لیے خدا یا رسول کی حفاظت کی بات احمقانہ ہے۔ وہ ضعیف و کمزور یا ہماری ملکیت نہیں ہیں جنہیں حفاظت کی ضرورت ہو بلکہ وہ پوری کائنات کے لئے ہیں؟
اگر لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ پر دشنام طرازیاں کرتے ہیں تو ان کے یہ برے کلمات نبی صلی اللہ علیہ پر نہیں لگنے والے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ایمان میں مضبوطی پیدا کریں اور برائی کا بدلہ بھلائی سے دیں اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسا ہی کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ ہم ان کی دینی خدمات کی تمام تر تابناک مثالوں سے واقف ہیں۔ کیا ہم اس عالم کے لوگوں کے لیے رحمت نہیں بن سکتے؟
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
ماخذ: http://www.opednews.com/articles/Muslim-response-to-Hindu-T-by-Mike-Ghouse-Hinduism_Koran_Muslim-Fanatics_Muslim-Guy-140324-469.html
URL: https://newageislam.com/interfaith-dialogue/muslim-response-hindu-temple-conflagration/d/66256
URL: https://newageislam.com/urdu-section/muslim-response-hindu-temple-conflagration/d/66291