مائک غوث
15 جنوری 2014
شریعت اسلامیہ کی تقدیس کے متعلق سوال اٹھانے پر قدامت پرست مسلمان میرے اوپر غرائیں گے۔ اور قدامت پسند عیسائی، یہودی، ہندو اور دوسرے لوگ میری مذمت کریں گے اس لیے کہ اس مضمون میں میں نے شریعت کی کوئی مذمت نہیں کی ہے۔ وہ اس میں اور کوئی نقطہ نظر نہیں پا سکتے۔
شریعت کو مکمل طور پر مسترد کرنے کے بجائے جو کہ مسلم اکثریتی ممالک میں مبینہ مسلم آبادی کے لیے ایک نظام انصاف ہے، ہمیں اس میں اصلاح کرنے اور اس میں پائی جانے والی کمیوں کو دور کر کے اسے عصر حاضر سے ہم آہنگ بنانے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اس کے بغیر ایک بڑی مسلم آبادی شتر بے مہار کے مانند ہو جائے گی۔ خود ہمارے قوانین کو مختلف مرتبہ تبدیلی اور ترمیم کے مرحلے سے گزارا گیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شریعت اسلامیہ کو بھی انہیں مراحل سے گزارا جانا چاہیے۔
تاہم تمام مذاہب میں بکثرت اعتدال پسند طبقہ سرطان زدہ خلیات کو مکمل طور پر قطع کر دینے کے بجائے ان میں سدھار کرنے اور اس میں بہتری پیدا کرنے میں فائدہ سمجھتا ہے۔ جب تک کہ ہم خامیوں کو دورنہیں کرتے تب تک انصاف کے نام پر ناانصافی ہوتی ہی رہے گی۔
یہ ایک سنہرا قانون کہ ‘‘دوسروں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرو جیسا تم دوسروں سے خود کے لیے چاہتے ہے’’ تمام مذاہب میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس روئے زمین پر ایسا کوئی مذہب نہیں ہے جوکسی بھی طرح سے اس سے کم درجے کا رویہ اپنانے کی تعلیم دیتا ہو۔ کچھ لوگ اپنے مذہب کو اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں اور کچھ نہیں سمجھ پاتے۔
ایسا انسان جب عورتوں کے ساتھ معاملات کرتا ہے تو اس کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کا تعلق کس مذہب سے ہے کیونکہ ایسے تمام لوگوں کا رویہ ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ انہیں خود کے تحفظ کا یقین اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک کہ وہ دوسروں کو اور عام طور پر عورتوں کو اپنی انگلیوں کی زد پر نہ رکھیں۔
شریعت اسلامیہ ایک انسانی کوشش تھی جس کا مقصد قرآن و حدیث کے احکامات کے مطابق انسانوں کو انصاف دینا تھا، تاہم انسان خطاوار ہے اور انصاف پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ خاص طور پر جب عورتوں، مرتدوں، گستاخوں اور عصمت دری کے شکار لوگوں کی بات آتی ہے تو وہ خطائے فاحش کے شکار ہیں۔ جن چند ممالک میں شرعی قوانین نافذ ہیں وہاں حکمت الٰہی سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی مظاہرہ نہیں ملتا۔ زبر دست طریقے سے اس کی خامیوں کو دوسر کرنے کی ضرورت ہے۔
جب شریعت اسلامیہ پر تنقید کی جاتی ہے تو قدامت پرستوں کو تکلیف محسوس ہوتی ہے اس لیے کہ (غلطی سے) ان کا یہ ماننا ہے کہ شریعت اسلامیہ اللہ کا قانون ہے اور اسے قرآن کی طرح نازل کیا گیا ہے، جبکہ معاملہ ایسا نہیں ہے۔ شرعی قوانین کو نقد و نظر کا نشانہ بنانا حق بجانب ہے اس لیے کہ اگر یسا نہ کیا جائے تو ہم اس کی خامیوں کو کیوں کر دور کر سکتے ہیں؟
مسلمانوں کو اس مسئلہ میں مطمئن ہونا چاہیے کہ نہ اللہ کو نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اور نہ ہی قرآن کو کچھ ہونے والا ہے بلکہ یہ ابدی ہیں۔ اللہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو یہ حکم دیا کہ اگر لوگ ان کے پیغامات پر کان نہیں دھرتے تو انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے اس لیے کہ ہدایت صرف اللہ کے ہی دست قدرت میں ہے۔ اللہ کا یہ بھی فرمان ہے کہ میں اپنے نظام حیات (مذہب اسلام) کی حفاظت خود کروں گا، کیا ہمیں اللہ کے اس وعدہ پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے؟ قدامت پسند خواہ ان کا تعلق عیسائیت سے ہو، اسلام سے ہو، یہودیت سے ہو، ہندومت سے ہو یا کسی اور دھرم سے ہو حقیقت یہ ہے کہ ان کا خدا کی ذات اور اس کے کا م پر ان کا اعتماد ہی نہیں ہوتا اور وہ اللہ کے تعلق سے حفظ ماتقدم کا رجحان جارحانہ انداز میں کرتے ہیں۔جس طر ح امریکی اس قانون کے علاوہ کسی اور قانون کا اندازہ نہیں کر سکتے جن کا ہمیں علم ہےاسی طرح ان ممالک میں بھی کسی اور قانون کا تصور نہیں کیا جا سکتا جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ نہ تو ہمارا قانون کامل ہے اور نہ ہی ان کا قانون کامل و اکمل ہے۔ ہم نے اپنے قوانین کو متعدد مرتبہ ترمیم و تبدیلی کے مرحلہ سے گزارا ہے اور اس میں ابھی شادی میں مساوات کی ترمیم اور دوسری بہت ساری چیزوں کو شامل کرنا باقی ہے۔ اور ایک عرصہ گزر گیا ہے کہ مسلمانوں نے شرعی قوانین میں کوئی ترمیم نہیں کی ہے۔ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہم وقت اور زمانہ کے لحاظ سے اس میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کریں اور انہیں ایک ایسی شکل دیں جس سے امت مسلمہ کے اندر بر سے انصاف قائم کیا جا سکے۔
ایسے مسلم ممالک کی ایک اکثریت موجود ہے جنہیں اسلامی قوانین کے علاوہ اور کسی قانون کا کوئی شعور بھی نہیں ہے۔شرعی قوانین میں نئی شقوں کے اضافہ پر وہ اسی طرح مخالفتوں کے پہاڑ کھڑے کریں گے جس طرح ہم اپنے قوانین میں نئی شقوں کے اضافہ پر کرتے۔ کیا آپ کو ابامہ کی دیکھ بھال کی جد و جہد کا ماجرا یاد ہے؟ ہمیں انہیں سمجھنے اور ترمیمات کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ شرعی قوانین کی خواہش کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے؛ بلکہ اس میں پائے جانے والے مفاسد اور خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے ایک مرتبہ اگر شریعت کو ان مراحل سے گزار دیا گیا شرعی قوانین بھی اتنے ہی شاندار نفع بخش ہو جائیں گے جس طرح دوسرے قوانین حقوق انسانی کے منشور کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں۔
اب ہم عصمت دری، کفر و ارتداد، توہین اورعصمت دری کے شکار لوگوں کے ساتھ معاملات کے تعلق سے چند شرعی مسائل کا جائزہ لیتے ہیں۔
عصمت دری کا مسئلہ
پاکستان میں کونسل آف اسلامیک آئیڈیولوجی (CII) نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ عصمت دری کے معاملے میں ڈی این اے DNA کی شہادت کافی نہیں ہے بلکہ اسے ضمنی مانا جا سکتا ہے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں پر مقدمہ چلانے کے لیے اس کے علاوہ چار مزید مرد گواہوں کی ضرورت ہے۔ سائنس (علم) کی ان قدامت پسندوں کی نظر وں میں کوئی وقعت نہیں ہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو عیسائیت سے ہو یا اسلام سے۔
پاکستان کے حقوق انسانی کی ایک سرگرم کارکن اسما جہانگیر کا کہنا ہے کہ: ‘‘کونسل کے ممبران عصمت دری کے معاملات میں سچائی کی تہہ تک جانے سے انکار کر رہے تھے اور انہوں نے اپنی تجویز کو اہمیت دی گو کہ ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ کو قبول کرنا اسلام کے لیے ایک عظیم خطرہ ہو’’۔
معظم سید نے دی ورلڈ مسلم کانگریس فورم پر یہ لکھا کہ، ‘‘توکیا جس کی عصمت دری کی گئی ہو اب اسے گواہوں کے طور پر چار ایسے متقی مسلمانوں کا پیش کرنا ضروری ہے جنہوں نے اس پورے عمل کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہو؟’’ ہو سکتا ہے کہ چند قدامت پرست مسلم اس بیان کو ناپسند کریں لیکن میں ا ن سے یہ کہنا چاہوں گا کہ ایسا کرنے سے عصمت دری کی شکارکی مصیبتوں پر پردہ پڑ جاتا ہے جو پھر ساری زندگی اس کوفت کو برداشت کرتی ہے۔
یہ نہ تو انصاف ہے اور نہ ہی اسلام ہے۔ قدامت پرست لوگ نہ صرف یہ کہ دفاعی حالت میں ہیں بلکہ وہ ایک خاص قسم کے رویہ کے بھی حامل ہیں، عقل و استدلال کی کسی بھی مشورہ سے انہیں خطرہ محسوس ہوتا ہے اور وہ دم بخود ہو کر یہ چیخنے اور چلانے لگتے ہیں کہ ان کا مذہب خطرے میں ہے۔ میں نے مختلف حالات میں ہندوؤں، مسلمانوں، عیسائیوں، یہودیوں اور دوسرے تمام قدامت پرست لوگوں کو ایسی باتیں کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
پاکستان میں ایک دستاوزی فلم بنائی گئی جس میں یہ دکھایا گیا کہ اسکول سے گھر لوٹے وقت ایک 13سالہ لڑکی کی اجتماعی عصمت دری کر دی جاتی ہے، اور ایک ملعون جج اس بات سے پریشان ہوتا ہے کہ اس لڑکی نے اس مسئلہ کو اس کی عدالت میں لانے کی ہمت کی، اور ایک مرد نے اس پر ہنستے ہوئے پوچھا کہ وہ اپنے گھر پر کیوں نہیں تھی؟ اس پر اس نے کہا کہ شرم کی بات ہے کہ یہ رویہ امریکہ کے مردوں میں بھی پایا جاتا ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ اس گفتگو کا شعور ان کے اندر ہوا، اگر یہ حادثہ سعودی عرب، نائیجیریا اور ایران میں پیش آتا تو اس عورت کو انتہائی سنگدلی کے ساتھ اس وقت تک سنگسار کیا جاتا کہ اس کا جان نکل جاتی۔ میں دوبار اس بات کو دہرانا چاہوں گا کہ یہ عمل اسلام کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ صرف ان ممالک میں مردوں کے ذریعہ قائم کیا گیا ایک رجحان ہے۔
عزت و ناموس کے نام پر قتل کوئی ایسا رجحان نہیں ہے جو صرف مسلمانوں پر ہی چسپاں کیا جائے۔ پنجاب اور ہریانہ سمیت برصغیر کے دوسرے حصوں میں ہندو اور سکھ بھی اپنی لڑکیوں کو اپنے خاندان کی عزت کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مار ڈالتے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر ہم گوگل کریں تو کہیں بھی ایسے واقعات کو پاکر حیرت زدہ ہو سکتے ہیں۔
علم و حکمت کا حصول
اسلام میں نازل کیا جانے والا پہلا لفظ ‘‘اقراء’’ ہے جس کا معنی ہے پڑھو اور سمجھو۔ یہی وہ پہلا لفظ ہے جو جبرئیل امین اللہ کی طرف سے لیکر سب سے پہلی بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں نازل ہوئے تھے۔ یہ لفظ ‘‘اقراء’’ زندگی میں پیش آنے والے تمام علوم و فنون کا دروازہ کھولتا ہے۔ ایک اور موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر آپ کو کوئی نیا علم و فن حاصل کرنے کے لیے جہاں بھی جانا ہو تو اس میں کوئی پریشانی محسوس نہ کریں اگرچہ اس کے لیے آپ کو چین جیسے دور دراز مقام پر جانا پڑے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ‘‘آپ کا دماغ مفلوج ہو جائے گا، آپ کو اب مزید سوچنے کی ضرورت نہیں ہے، جو بھی قرآن اور حدیث میں بیان کیا گیا ہے صرف انہیں پر عمل کریں۔ اس کے بجائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃالوداع کے موقع پر اپنے آخری خطبہ میں فرمایا کہ میں تمہارے درمیان اپنی کتاب چھوڑ کر جا رہا ہوں تاکہ تم سب اسے پڑھو، سمجھو اور اس پر عمل کرو۔
کیا سیکھنے کا مطلب پڑھنا، غور کرنا، سمجھنااور موجودہ حالات کے تحت نئی نئی معلومات حاصل کرنا نہیں ہوتا، تاکہ ایک بہترین زندگی اور بہترین معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکے؟
تمام نہیں بلکہ چند ایسے مسلمان جو خود کے بارے میں مذہب کے محافظ ہونے کا گمان رکھتے ہیں وہ اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کے احکامات کی نافرمانیاں کرتے ہیں۔ اور وہ غرور و تکبر کے ساتھ اسلام میں ‘اقرء’ کے تصور کو اور علم حاصل کرنے کے لیے دور دراز کے مقامات کا سفر کرنے کے تصور کو مسترد کرتے ہیں۔انہوں نے علم و حکمت حاصل کرنے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دینے سے اپنا پہلو تہی کر لیا ہے۔ کیا ہمارے اعمال وہی ذمہ دار ہیں؟
طلاق کا مسئلہ
اس قسم کے لوگوں نے پورے ذوق و شوق کے ساتھ ٹیکسٹ میسیج (text-message) اور یہاں ای میل (e-mail) کے ذریعہ بھی طلاق کو جائز بنا رکھا ہے اور اس پر عمل پیرا بھی ہیں اور اس معاملے میں انہوں نے اپنی سہولتوں کا دھیان رکھا ہےان عورتوں کا نہیں جنہیں خبطی مردوں کی ایماء پر بسوں کے نیچے ڈل دیا جاتا ہے۔ یہ نہ انصاف ہے اور نہ ہی اسلام میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔
کچھ قدامت پسند لوگ عورتوں کے مساوات کو نہیں مانتے اور اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی بھی اطاعت نہیں کرتے۔ جبکہ وہ اپنے انہیں منھ سے یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ‘‘نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے تھے’’ کیا وہ اس کے معنیٰ سے اچھی طرح واقف بھی ہیں؟ چودہ سو سالوں پہلے ہی یہ فرما دیا تھا کہ عورتیں اپنی جائداد، اپنی تجارت اور نکاح و طلاق میں آزاد ہیں اور اسلام کی صحیح تعلیم یہ ہے کہ اگر شوہر ان کی مرضی کے خلاف کسی کام پر انہیں مجبور کریں تو وہ اس معاملے میں شوہر کی نافرمانی کر سکتی ہیں۔
مسلمانوں کی اکثریت کا یہی مانناہے؛ کچھ لوگ اسے نہیں مانتے بلکہ میڈیا کی توجہ حاصل کرتے ہیں۔ کیا ہم ایک اچھے خاوند کے بارے میں بات کر رہے ہیں ؟ ہماری گفتگو ان کے بارے میں جو برے ہیں خواہ وہ امریکی ہوں، چینی ہوں، ہسپانوی ہوں، ہندوستانی ہوں یا روسی ہوں۔
1200 سالوں کے بعد مغربی ممالک نے حقوق نسواں کو تسلیم کیا ہے، خاص طور پر امریکہ میں آج سے صرف ایک سو سال پہلے ہی عورتوں کے حق رائے دہی کو تسلیم کیا گیا ہے، جبکہ کچھ قدامت پرست مسلم معاشرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پہلے کے تاریک دور میں چلے گئے۔
کفر و ارتداد کا مسئلہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی مرتد کو سزا نہیں دیا، مرتد اسے کہا جاتا ہے جس نے اسلام کو چھوڑ دیا ہے اور صورت حال یہ ہے کہ ایران میں پادری یوسف ندرخانی کو ہراساں کیا جا رہا ہے؛ افغانستان میں عبدالرحمٰن کو اور ملیشیاء میں لیناجوئےکو عالمی دباؤ سے نجات دلایا گیا تھا۔
اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان بڑا واضح ہے کہ مذہب (اسلام) میں جبر و اکراہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اور جو اسلام قبول نہیں کرنا چاہتا اسے اس پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا نے اسلام نہیں قبول کیا تو کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی سزا دی؟ یہ ایک ایسی مثال ہے جو اللہ نے بالقصد پیس کیا ہے تا کہ لوگ یہ جان سکیں کہ دین کے معاملے میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہےلوگوں کو انہیں مذاہب پر چھوڑ دیا جائے جن میں انہیں سہولت محسوس ہوتی ہے۔ متوسط مسلمانوں کے درمیان بدگمانی پائی جاتی ہے، اور مسلمانوں کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ ان باتوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھیں۔ وہ وقت آچکا ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر اس عالمی فیصلے پر عمل کریں کہ ارتداد کے لیے کوئی سزا نہیں ہے۔
توہین رسالت کا مسئلہ
توہین کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کو سزا نہیں دی۔ اس کے بجائے انہوں نے ایسے لوگوں کے دعا فرما کر ایک اچھا کام کیا ہے۔ شرعی قوانین کے خود ساختہ محافظین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی بڑی حکایتیں تو سنا سکتے ہیں لیکن ان کا عمل ان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
توہین رسالت کا قانون اللہ کی عطا کردہ آزادی کے خلاف ہے اور اس سے بدمعاشوں کو اس کا غلط استعمال کرنے کا موقع ملتا ہے۔ پاکستان میں ایک ملعون بدمعاش نے قرآن کی بے ادبی اور بے حرمتی کرنے کے لیے ایک لڑکی کو تیار کیا۔ سچائی کو تلاش کرنے سے پہلے ایک پورے عیسائی شہر کو انہوں نے تباہ کر دیا؛ کم از کم یہ ایک اچھی خوبی ہے۔
مسلمانوں کا یہ مانناہے کہ ہم قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں جوابدہ ہیں۔ ہم جتنا زیادہ اپنی آواز بلند کریں گے انسانوں کو انصاف فراہم کرنے کے مواقع میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے، اگر ہم آواز بلند نہ کریں تو برآئی کے قدم جمے ہی رہیں گے۔ کم از کم مسلمان اتنا کر سکتا ہے کہ وہ آواز بلند کرے۔
شریعت اسلامیہ قرآن اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں لوگوں کو انصاف دینے کی ایک انسانی کوشش تھی۔ تاہم انسان خطاکار ہیں اور وہ عورتوں، مرتدوں، توہین کا ارتکاب کرنے والوں،عصمت دری کرنے والوں اور عصمت دری کا شکار لوگوں کے ساتھ انصاف نہیں کر رہے ہیں۔ چند اسلامی ممالک میں جو شریعت نافذ کی گئی ہے اس میں حکمت الٰہیہ کی کوئی جھلک نہیں ملتی اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات سے اس کا کوئی ربط نظر آتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم عورتوں کے ساتھ ناانصافی کے گناہوں میں ڈوب جائیں ہمیں شریعت میں موجودہ خامیوں کو دور کرنا ضروری ہے۔
ایک مسلم ہونے کا مطلب ایک مصلح اور امن کوش ہونا ہے ایک اچھا مسلم وہ ہے جو اختلافات کو کم کرتا ہے اور تمام انسانوں کے درمیان پرامن بقائے باہم کو قائم کرنے کے لیے عام خیر خواہی کو فروغ دیتا ہے۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
مائک غوث پیشے کے اعتبار سے تکثیریت ،سیاست ، امن ، اسلام ، اسرئیل ، ہندوستان ، بین المذاہب اور ہم آہنگی پر خطیب مفکر اور مصنف ہیں ۔ اور دوسرے معاملات اور مسائل میں بھی ایک سر گرم کارکن کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔ اور ایک ہم آہنگ امریکہ کی تعمیر میں سر گرم عمل ہیں اور www.TheGhousediary.com پر روز مرہ کے مسائل میں کثرت پسندانہ حل پیش کرتے ہیں۔مائک غوث قومی اور مقامی ٹی وی ، ریڈیو اور پرنٹ میڈیا میں پروگرام پیش کرتے ہیں ۔ وہ فاکس ٹی وی پر Sean Hannity پروگرام میں مستقل مہمان ہیں ۔اور قومی ریڈیو نیٹ ورک پر تبصرہ نگار ہیں ۔اور وہ Dallas Morning News میں ٹکساس فیتھ کالم میں ہفتہ وار کالم نگار ہیں ۔ اور Huffington post میں پندرہ روزہ کالم نگار ہیں ، اور پوری دنیا میں ہنگامی کالم نگار ہیں ۔ اور آپ ان کے بارے میں جو بھی جاننا چاہتے ہو ں وہ ان کے ذاتی سائٹ www.MikeGhouse.net پر موجود ہے۔
http://www.opednews.com/articles/3/Fixing-Sharia-Laws-by-Mike-Ghouse-Apostasy_Blasphemy_DNA-Rape-Kit_Divorce-140115-276.html
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-sharia-laws/fixing-sharia-laws/d/35300
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/fixing-sharia-laws-/d/35643