مائیک غوث
24مارچ 2013
( انگریزی سے ترجمہ۔ نیو ایج اسلام)
حقائق سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ صدر بش کی قیادت اور ان کے فرماں بردار پیروکاروں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ وہ WMD کے بارے میں اسی بات کا یقین کرتے ہیں جو وہ یقین کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں، اس کے برعکس معلومات کے باوجود ۔
مسلمانوں کی قیادت اس سےمختلف نہیں ہے، اس میں سے ہر ایک فرقہ ایک مخصوص عقائد پر قائم ہوتا ہے، اور ان میں سے کسی کو حقائق سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ بلا شبہ اگروہ حقائق کوقبول کر لیں تو ان کے نیچے سے زمین کھسک جائے گی۔ اگر سنی، شیعہ مسلمانوں کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کرتے ہیں اور / یا شیعہ سنی مسلمانوں کو ایک سچ کے طور پر دیکھتے ہیں، تو ان کی تمام دینیات پاش پاش ہو جائے گی، ان میں سے ہر ایک کا وجود ختم ہو جائے گا، اور اس وجہ سے کوئی بھی ایک دوسرے کے ‘‘حقائق’’ کی تصدیق نہیں کرے گا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری خطبہ سے ہی دو گروہوں کے درمیان ایک شگاف پیدا ہو گیا تھا۔
سنی مسلمانوں کا یہ ایمان ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نےفرمایا ہے کہ، میں اپنے بعد کتاب (قرآن) کو، پیروکاروں کے لئے مذہب سیکھنے ، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ہر ایک اپنے عمل کے لئے انفرادی طور پر جوابدہ ہے، جبکہ شیعہ مسلمانوں کا یہ ایمان ہے کہ نبی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ رہنمائی کے لئے اپنی اولاد کو اپنے بعد چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
دونوں صورتیں مومنوں کے لئے مستند ہیں، اور یہی مسئلہ ہے۔ اگر شیعہ اسلام کو سنیوں کے ذریعہ قبول کیا جاتا ہے، تو انہیں ان روحانی قیادتوں کو بھی قبول کرنا پڑے گا جوکہ، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے ذریعے کی گئی، اور شیعہ اماموں کو ان کے روحانی پیشواء کے طور پر بھی قبول کرنا ہوگا۔ دوسری طرف، اگر شیعہ سنی اسلام کو قبول کر لیں، تو وہ خود کو بے راہ پائیں گے، اس لئے کہ سنی اسلام میں کوئی رسمی روحانی رہنما نہیں ہے۔ اگرچہ خلافت نے 1924 تک کمیونٹیز کی قیادت کی، وہ خاص روحانی پیشواء نہیں تھے، سماجی اور سیاسی رہنما تھے۔
یہاں تک کہ اگر ہم محمد الرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی حقیقی آواز اور تقریر کی بازیافت کریں، تو دونوں گروپ میں سے کوئی بھی اس میں یقین نہیں کرے گا، یہ ان کے موجودہ عقائد کو ختم کرنے کے مترادف ہے، اور ایسا نہیں ہو گا۔
سب سے اچھا ہے کہ قرآن پاک کی ہدایت پر عمل کریں، اور آپ اس پر یقین رکھیں جو آپ کو اچھا لگتا ہے، اور میں اس پر یقین کروں جو مجھے اچھا لگتا ہے، جب تک ہم ایک دوسرے کے کی جگہ، رزق اور دیکھ بھال میں فساد پیدا نہیں کرتے۔ دونوں (جنت) میں جائیں گے ، اگر ہم خدا کی تخلیق کا خیا ل رکھیں۔
جیسا کہ کہاوت ہے، خوبصورتی دیکھنے والے کی آنکھوں میں ہوتی ہے۔ میں اس میں یہ شامل کروں گا کہ ایمان، مومن کے دل میں ہے۔ شیعہ عقائد شیعوں کے لئے کام کےہیں، بالکل اسی طرح سنی، وہابی، احمدیہ، بوہرا، اسماعیلی، سلفی، صوفی، دین محمد، بریلوی، دیوبندی اور دیگر عقائد، ان میں سے ہر ایک کے لئے صدیوں سے ان کے لئے کام کے ہیں۔ کیا ہمیں ایک بھی تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے؟
مذہب ایک فٹ بال کا کھیل نہیں ہے، جہاں touchdown کا فیصلہ کیا جائے گا، اگر کھلاڑی کے پاؤں یا ان کے پاؤں کا کوئی بھی حصہ اینڈ زون میں، گیند پکڑے ہوئے تھا۔ مذہب اس کےعین مطابق نہیں ہے۔ ایک گنہگار عورت ایک پیاسے جانور کو پانی پلا کر خدا کی رحمت حاصل کر سکتی ہے، اور ایک شرابی، جس نے کبھی نماز ادا نہیں کی ہے، اپنے پڑوسی کو کھانا کھلا سکتا ہے، اور اس نمازی پر (جو باقاعدگی کے ساتھ ہر وقت نماز ادا کرتا ہے) ترجیح حاصل کر سکتا ہے۔ اسلام ایک عظیم عالمی مذہب ہے، اور چھوٹی چھوٹی حدود میں محدود نہیں ہے۔ تمام لوگ جنت میں جائیں گے، قرآن اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ خواہ آپ یہودی، عیسائی یا کوئی اور ہو ں، آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے،آپ کو ہر اس اچھے کام کا بدلہ ملے گا جو آپ کرتے ہیں۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ، اگر آپ انسانوں، جانوروں اور ماحول کا خیال رکھتے ہیں - یقینا خدا کی تخلیق کے تحفظ اور اس کی خدمت کا مطلب خدا کی خدمت ہے۔
ہمارے درمیان تنازعات حقیقی نہیں ہیں ، بلکہ حقیقی وہ ہیں جو ہماری جگہ، رزق اور دیکھ بھال کو متاثر نہیں کرتے ۔ خدا نے عمداً ہمیں مختلف ہونے کے لئے پیدا کیا ہے، اس نے ہمیں ایک جوڑے سے کئی قبائل، کمیونٹیز اور اقوام میں پیدا کیا ہے، اور وہ ہم سے مختلف ہونے کی امید رکھتا ہے، لیکن وہ ہم سے یہ بھی توقع رکھتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو جانیں، اور اس بات کا حل نکالیں کس طرح اس کی مخلوق کو تحفظ فراہم کی جائے اور اس میں تباہی نہ مچائیں۔ اس کا فرمان یہ ہے کہ تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے، جو نیک ہے، جو بغیر کسی استثناء کے خدا کی تخلیق کی دیکھ بھال کرتا ہے۔
ہمیں اپنے اختلافات کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے، جو انسانی تجسس ہیں، تاہم ہمیں اپنے جہاد کو انجام دینے کی ضرورت ہے، کسی بھی انداز میں، دوسروں کو بدنام کرنے کی تحریص کے خلاف، ہماری اندرونی جدوجہد۔ یہاں پھر خدا ہم سے محبت کرتا ہے، اور ہمیں اس بات کی ہدایت دیتا ہے، کہ کس طرح ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھائے بغیر ہم کلام ہو سکتے ہیں ۔
سنی نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)کی تمام ازواج مطہرات کو ان کے خاندان میں شامل کرتے ہیں، جبکہ شیعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ، اور ان کے شوہر حضرت علی اور ان کی اولاد تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ ایک حاشیہ کی تحریر، کچھ ایسے بھی سنی ہیں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی براہ راست اولاد ہونے کا دعوی کرتے ہیں، گو کہ وہ خصوصی مراعات کا دعوی کرتے ہیں ۔ اسلام مساوات اور عاجزی کا مذہب ہے ، اور اس میں کسی کو استحقاق حاصل نہیں ہے۔ اسلام میں کوئی بھی خاص نہیں ہے، جب تک کہ وہ اس کے اعمال تقوی اور افعال و کردار میں نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے، فاطمہ کو بھی یہ کہا، کہ مفت میں جنت کا کوئی ٹکٹ نہیں ہے، صرف اس بناء پر کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ہیں، تو کس چیز نے لوگوں کو اس بات کا خیال دلایا کہ انہیں استحقاق حاصل ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پسند مراعات کا مکمل طور پر خاتمہ کیا ہے، کیونکہ اس طرح کی حیثیت کا دعوی کرنا تکبر ہے، اور خدا اسے پسند نہیں کرتا کیونکہ تکبر اس کی پرامن مخلوق میں فساد پیدا کرتا ہے، جبکہ عاجزی ایک پرامن معاشرے کی تخلیق میں تعاون فراہم کرتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ایک آزاد کردہ افریقی غلام ،حضرت بلال کو اذان پکارنے کے سب سے اونچے مقام پر فائز کیا ۔ اس کا مقصد مغرور کی زبان بند کرنا تھا، اس لئے کہ وہ ایک غلام تھے ۔ انہوں نے خود پسندوں کو تکبر چھوڑنے، اور نماز میں ایک ہی صف میں کھڑے ہونے کے لئے، ایک متحدمعاشرے کی خوبصورتی کو واضح کیا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کے بغل میں کون ہے۔ انہوں نے خواتین کو آزاد کرایا (جنہیں ، مردوں کا اثاثہ اور ان کی ذاتی ملکیت سمجھا جاتا تھا ، یہاں تک کہ ایک یا دو صدی پہلے امریکہ میں بھی)، اور اعلان کیا کہ ،عورتیں مرد کی طرح آزاد افراد ہیں، جو شادی اور طلاق کرنے، جائیداد اور کاروبار کا مالک ہونے کے لئے آزاد ہیں ۔ یقیناً، مرد، مرد ہوتے ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ کس نسل، مذہب، یا قومیت سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر اسے حق سمجھتے ہیں، اور کچھ نہیں سمجھتے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن کو جاری رکھا، اور کہا کہ تمام لوگ عاجزی کا احساس کرنے کے لئے روزے رکھیں گے۔ اور یاد کریں کہ انہوں نے (دسواں حصہ) زکوة ضروری کیا ہے، تاکہ تمام لوگ اجتماعی اچھے سرمایہ میں شرکت کر سکیں۔ کیا انہوں نے حج (زندگی میں ایک بار حج کرنا) کو سب کے لئے یہ ضروری قرار دیا ہے؟ نہیں، اور صرف یہی ایک ایسی چیز ہے جو ضروری نہیں ہے، استطاعتی عوامل کی وجہ سے ۔ اسلام پیسہ کمانے اورمالدار بننے کے خلاف کبھی نہیں ہے، آپ ایسے وسائل میں جتنا زیادہ عادل اور منصف ہوں جو آپ کو مالدار بناتے ہیں۔
ایک سنی کی حیثیت سے، میں اپنے مسلمان ساتھیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ایک دوسرے کی روایات اور عقائد کا احترام کرنا سیکھیں ۔ ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کا کوئی نکتہ نہیں ہے۔ میں شیعہ، سنی، اور احمدیہ مسلمانوں سے ، ایک دوسرے کو درست کرنے کی طمع کے بغیر، دوسروں کے اختلاف کو قبول کرنے کی درخواست کرتا ہوں ۔ صرف اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل کریں – انسانوں کے لئے نیک بنیں۔
میں آپ میں سے ہر ایک کے لئے یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ، آپ خود سے، ایک دوسرے کی عبادت گاہوں میں جانا شروع کریں، اور ان میں سے ہر ایک جماعت کی عقیدت کو دیکھیں جو ان کےنماز پڑھنے کے طریقوں میں ہے۔ میں کسی سے ایسا کرنے کے لئے نہیں کہوں گا، اگر میں نے خود ایسا نہیں کیا ۔ مجھے کعبہ، مسجد النبوی، مسجد اقصی اور بیت المقدس سمیت ہر مسجد میں جانے کی سعادت حاصل ہے۔ میں نے اسماعیلی کے علاوہ، باقاعدگی کے ساتھ بوہرا، وی ڈی محمد، احمدیہ، شیعہ، سنی اور صوفی تمام کی مسجدوں میں نماز ادا کی ہے اور افطار بھی۔ انشاء اللہ، خدا اس خواہش کو، اور شیعوں کی امام علی مسجد میں نماز ادا کرنے کی میری خواہش کو پوری کرے۔
مسلمان ساتھیوں کے تئیں تعصب کی شکست پرامن ہے۔ اس کی کوشش کریں۔ آپ اسے فروغ دے سکتے ہیں ۔ الحمدللہ، اب میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
انشاء اللہ، ہم مزید بین المذاہب مکالمہ کریں گے، اور ایک دوسرے کے عقائد کا احترام سیکھیں گے، اور ایک دوسرے کے ایمان کو ثابت کرنے اور اس سے انکار پرنہیں اڑیں گے۔ میں عام بھلائی کے لئے، اتحاد پیدا کرنے کے لئے اپنے کام کا، ذاتی طور پر تعاون پیش کروں گا۔ اس کے لئے جو ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ ہم یہ موقف اختیار کریں ، اور ایک بہتر دنیا بنانے کے لئے، اس طرح کے اجلاس منعقد کریں (قرآن 49:13)
مائیک غوث کثیر ثقافتی اقدار سیاست، امن، اسلام، بھارت، اسرائیل اور بین المذاہب کے موضوع پر مقرر ، مصنف اور مفکر ہیں، اور کام کی جگہ سے لگاؤہے، اور دوسروں کے لئےایک کارکن کی طرح کھڑے ہوتے ہیں۔ اور انہوں نے ایک متحد امریکہ کے لئے خود کو وقف کر رکھا ہے، اور روز مرہ کے مسائل کا حل www.TheGhousediary.com پر پیش کرتے ہیں۔
ماخذ: http://www.worldmuslimcongress.blogspot.com/2013/03/sunni-muslims-at-shia-and-ahmadiyya.html
URL for English article:
https://newageislam.com/the-war-within-islam/will-shiite-sunni-islam-reconcile/d/10900
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/will-shiite-sunni-islam-reconcile/d/11642