مائک غوث کی تحریر نیو ایج اسلام کے لئے
6 دسمبر 2013
ہر بچہ ، نوخیز اور نوجوان اپنی زندگی میں کسی نہ کسی کی عزت اور قدردانی کرتا ہے ، ان کی طرح بننا چاہتا ہے اور آخر کار ایک دن ان کی طرح بن ہی جاتا ہے ۔بلا شبہ مثالی شخصیات کا ایک سول سوسائٹی کی کامیابی میں بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔
میں پچھلے بیس سالوں سے مذہبی تکثیریت اور سول سوسائٹیز کا مطالعہ کر رہا ہوں اور مسلمانوں کے درمیان مثالی شخصیات کے قحط الرجال سے میں بڑی مایوسی کا شکار ہوا ہوں۔ وہ خود کو تسلیم کرنے سے کہیں زیادہ خود کا یہودیوں کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں ۔ کم از کم ایک سال میں دو مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ اتنی بڑی مسلم کمیونٹی میں برائے نام تعداد کے مقابلے میں چھوٹی سی یہودی برادری کے بے شمار نوبل انعام یافتگان کو ای میل کے ذریعہ پیش کیا جاتا ہے ۔تقریبا ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ وپ کسی کی قیادت کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے ۔
مایوسی کا شکار نہ بنیں ، اب بھی امید کی کرنیں زندہ ہیں ، اس لئے کہ ہمارے پاس اب بھی ایسی کچھ عظیم مسلم شخصیتوں (مردوں اور عورتوں) کی وراثت ہے جو کہ ہمارے لئے بے مثال رول ماڈل ہیں ۔گزشتہ 100 سالوں میں ہماری تاریخ کے دامن میں سید احمد خان ،علامہ اقبال ، مولانا ابوالکلام آزاد وغیرہ جیسی تاریخ ساز شخصیات کی جلوہ باریاں ہیں جنہوں نے تعلیمی اداروں کا قیام کیا اور ناقدانہ سوچ و فکر کی ایک روایت قائم کی۔ وہ صرف مسلمانوں کے لئے ہی ہیرو نہیں تھے بلکہ دوسروں کے لئے بھی ان کی زندگیاں نشان راہ تھیں ۔
ان شخصیات نے خود کے اور دوسرے مذہب و ثقافت کو اپنانے والوں کے درمیان کوئی روکاوٹ بنے بغیر ہی امین ، صادق ، قابل اعتبار اور انصاف پرست ہونے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیادی سنت پر عمل کیا ہے۔ انہوں نے انسانیت کی عام فلاح و بہبود کے کاموں میں اپنا تعاون پیش کیا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عام شہری جن میں یہودی ، عیسائی اور کفار عرب بھی شامل ہیں صادق اور امین کہہ کر پکارتے تھے۔اگر ہم اپنے معاشرے میں صادق و امین بننا چاہتے ہیں اور اس کی تعمیر و ترقی میں تعاون کرنا چاہتے ہیں تو ان شخصیات کو ہمیں اپنا رول ماڈل بنانا ہوگا۔
گزشتہ پچاس سالوں میں ہم نے عظیم ترین شخصیات(مرد و عورت ) کو دیکھا ہے لیکن انہیں جو مقام ہمیں دینا چاہئے ہم نے نہیں دیا ۔ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہم پوری انسانیت کے لئے ایک بہتر ین معاشرے کی تعمیر میں ان کے تعاون اور ورثہ کے لئے انہیں پہچانے اور انہیں تسلیم کریں ۔
مذہب، نزنس، آرٹس، کھیل، موسیقی، تفریح اور تعلیمی شعبوں میں مثالی شخصیات(مرد و عورت) بکثرت موجود ہیں لیکن سول سوسائٹیز میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے ۔
مندرجہ ذیل شخصیات نے آنے والی نسلوں کے لئے دیر پا اقدار قائم کی ہیں ، یہ ان کا ورثہ ہے ۔ میں اس بات کو لیکر بڑی الجھنوں کا شکار ہوں کہ میں تقریبا 56 مسلم ممالک میں سے اور مزید مثالی شخصیات کو نہیں پیش کر سکا ۔لیکن میں ان سب کا استقبال کرتا ہوں ۔
عبدالرحمٰن وحید (انہوں نے مدینہ کی طرح ایک معاشرے کا نظریہ پیش کیا)
جاوید احمد غامدی (اسلام میں تنقیدی سوچ کی وکالت کی)
ملالہ یوسف زئی (عورتوں کے لئے ایک نشان راہ)
آغا خان (عالمگیر انسانی ترقی کے لئے رول ماڈل)
بے نظیر بھٹو (جمہوریت کی ایک نمایاں علامت)
محمد یونس (پسماندہ لوگوں کو ترقی دینے کے لئے ایک اقتصادی روماڈل)
عامر خان (ثقافتی تکثیرت اور ان کی ستیہ میو جیتے کی سیریز کے لئے مشہور)
عبدالسلام (ماہر طبعیات اور نوبل انعام یافتہ)
عبدالستار ایدھی (خیرات و عطیات کے لئے)
الوحید بن طلال (تعلیم میں تحقیق کے لئے )
ابوصالح شریف (اقلیتوں کی اصلاح اور تعمیر و ترقی کی خاطر حل پیش کرنے کے لئے)
ابو صالح شریف دوسروں کی بہ نسبت کم مشہور و معروف ہیں لیکن ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے ان کا سب سے پہلا ریسرچ ورک معاشروں کی منصوبہ بندی کے لئے اقتصادی، تعلیمی، سماجی اور شماریاتی ماڈل کے لئے اور مذکورہ معاشروں میں اقلیتی اور اکثریتی کے تنازعات کو کم کرنے کے لئے تکثیریت پر مبنی حل تلاش کرنےمیں بنیادیں فراہم کرتا ہے ۔
جمال عبدالناصر کو بھی ایک مثالی شخصیت مانا جا سکتا ہے، اس لئے کہ وہ عربوں کے اتحاد کے لئے اقدار قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن وہ ایسا نہ کر سکے ۔ مہاتیر محمد بھی ایک اقتصادی ہیرو ہو سکتے تھے لیکن ان کا کام وقت کی بندشوں سے گھرا ہوا تھا ، اور انہوں نے ولولہ انگیزی کے علاوہ کچھ اور بھی با اثر نہیں چھوڑا ۔ یاسر عرفات نے اپنے پیچھے کیا چھوڑا ؟ میں محمد علی جناح کے کارناموں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا (کیوں کہ) ان کی تصویر کو دیوار پر آویزاں کرنے کے علاوہ کیا کوئی ان کے نظریات پر عمل کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ۔جنر ل پرویز مشرف کے اندر تکثیریت پر مبنی ایک سیکولر اسلامی مملکت قائم کرنے کے جناح کے خوابوں کو پورا کرنے کی تمام تر صلاحیتیں موجود تھیں لیکن انہوں نے اسے چکنا چور کر دیا ۔
یہاں تک کہ جارڈن اور سعودی عرب کے کنگ عبداللہ ، محمد علی ، دلپ کمار یا شاہ رخ خان بھی ایسے کچھ بڑے نام ہیں ، انہوں نے انسانیت کی عام فلاح و بہبود میں اپنا تعاون پیش نہیں کیا ہے ایک مرتبہ اگر وہ چلے گئے تو پھر چلے ہی گئے ۔کیا وہ مسلمانوں کی تاریخ کا قیمتی اساسہ ہیں ؟ کیا یہ وسیع پیمانے پر معاشرے کے امین ہیں ؟ ہمیں اس پر گفتگو چھیڑنی چاہئے ۔
مجھے شادمانی ہے کہ ملالہ اور آغا خان کو عالمی پیمانے پر جانا اور مانا گیا اور ان کے خدمات صرف ایک برادری تک ہی محدود نہیں ہیں ، بلکہ پوری دنیا میں لوگ بڑے پیمانے پر ان کی خدمات کے لئے انہیں عقیدت و احترام سے نوازتے رہیں گے ۔
ایسی شخصیات کو احترام سے نوازنا اور ان سے محبت کرنا ہمارا فریضہ ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی مختلف برادریوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کی فضاء قائم کرنے میں صرف کر دی ہے۔ مختلف برادریوں کو آپس میں جاننے اور ایک دوسرے کے تئیں احترام اور روادری کے مواقع فراہم کرنے میں ان کے ابتدائی اور بنیادی اقدام کو ضرور سراہا جانا چاہئے ۔
میں اپنے مسلم بھائیوں سے التماس کرتا ہوں کہ وہ ان عظیم ہستیوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ لکھیں ، اور اس بارے میں بھی لکھیں کہ کس طرح ان کے خدمات کا دائرہ آنے والی صدیوں تک وسیع کیا جا سکتا ہے ۔ کیا ہم ان کی خدمات کے کارناموں کو اپنے اسکولوں کی کتابوں اور مساجد اور نجی اسکولوں میں اسلامی سوشل ایجوکیشن میں شامل کر سکتے ہیں ؟ کیا وہ ہمارے رول ماڈل نہیں ہیں ؟
مسلم ہونے کا مطلب امن کوش ہونا ہے ، مسلم ہونے کا مطلب ایسا انسان بننا ہے جو اختلافات اور تنازعات کو رفع کرتا ہے اور پوری انسانیت کی خیر سگالی اور پرامن بقائے باہم کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتا ہے۔ خدا ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم اس کی مخلوق ؛ زندگی اور معاملات کے ساتھ امن و سکون کے گہوارے میں زندگی گزاریں۔
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ نیو ایج اسلام)
مائک غوث پیشے کے اعتبار سے تکثیریت ،سیاست ، امن ، اسلام ، اسرئیل ، ہندوستان ، بین المذاہب اور ہم آہنگی پر خطیب مفکر اور مصنف ہیں ۔ اور دوسرے معاملات اور مسائل میں بھی ایک سر گرم کارکن کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔ اور ایک ہم آہنگ امریکہ کی تعمیر میں سر گرم عمل ہیں اور www.TheGhousediary.com پر روز مرہ کے مسائل میں کثرت پسندانہ حل پیش کرتے ہیں۔مائک غوث قومی اور مقامی ٹی وی ، ریڈیو اور پرنٹ میڈیا میں پروگرام پیش کرتے ہیں ۔ وہ فاکس ٹی وی پر Sean Hannity پروگرام میں مستقل مہمان ہیں ۔اور قومی ریڈیو نیٹ ورک پر تبصرہ نگار ہیں ۔اور وہ Dallas Morning News میں ٹکساس فیتھ کالم میں ہفتہ وار کالم نگار ہیں ۔ اور Huffington post میں پندرہ روزہ کالم نگار ہیں ، اور پوری دنیا میں ہنگامی کالم نگار ہیں ۔ اور آپ ان کے بارے میں جو بھی جاننا چاہتے ہو ں وہ ان کے ذاتی سائٹ www.MikeGhouse.net پر موجود ہے۔
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-society/muslim-heroes-role-models/d/34729
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/muslim-heroes-role-models-/d/56112