ودود ساجد
18مئی، 2025
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی کہی ہوئی باتوں اور ان کے کئے ہوئے کاموں کی بنیادپر کوئی مستحکم تجزیہ کرنابہت مشکل ہے۔وہ جب کچھ کہتے ہیں تو دوسرے ہی لمحے کچھ اور کہہ ڈالتے ہیں۔دوروز قبل ہی انہوں نے نے مشرق وسطیٰ کے تین امیر ملکوں کا چہل پہل سے بھرپور چار روزہ دورہ مکمل کیاہے۔ ان کے اس دورہ سے مشرق وسطیٰ کو کیا ملاتجزیہ نگار ابھی اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔لیکن مشرق وسطیٰ کے امور کے بہت سے ماہرین کھلے طور پر کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ جو لینے آئے تھے وہ لے کر چلے گئے۔اس کاواضح مطلب یہی ہے کہ مشرق وسطیٰ کو ان کے دورے سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ مشرق وسطیٰ کے امور کے ممتاز تجزیہ نگا ر مروان بشارہ کا خیال ہے کہ ٹرمپ کا یہ دورہ اقتصادی زیادہ تھا سیاسی کم۔ لہٰذا وہ تین عرب ملکوں سے تین ہزار دوسوبلین ڈالر لے کر چلے گئے لیکن اس خطہ کے جو سیاسی مسائل تھے وہ جوں کے توں رہ گئے۔ وہ اسرائیل بھی اسی لئے نہیں گئے کہ وہاں سے انہیں کچھ ملنا نہیں تھا۔
اس وقت مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا اور خوفناک مسئلہ فلسطین کا ہے۔ اسرائیل کے جابر وغاصب وزیر اعظم نتن یاہو نے غزہ کومکمل طورپر تباہ کردیا ہے۔ایک لاکھ سے زیادہ شہریوں کو قتل کردیا ہے اور لاکھوں زندہ لاشوں کو ادھر سے ادھر ہانک رہاہے۔اب یہ بات بہت چھوٹی او ربے معنی ہوگئی ہے کہ پچاس سے زائد مسلم ممالک کچھ نہیں کرپارہے ہیں او راہل فلسطین کو ذبح ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔عربوں نے اور خاص طور پر امریکہ کے مسلمانوں نے ٹرمپ سے اس مسئلہ کے حل کی جو امید باندھی تھی وہ بھی اب ٹوٹ گئی ہے۔امریکی مسلمانوں نے ان کی انتخابی تشہیر کے دوران یہ کہتے ہوئے ان کی حمایت کی تھی کہ وہی مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرسکتے ہیں۔لیکن جیتنے کے بعد انہوں نے اسرائیل کو مزید خطرناک ہتھیار فراہم کردئے۔ یہاں تک کہ وہ ہتھیار بھی جاری کردیئے جن کی سپلائی پچھلے صدر بائیڈن نے رو ک دی تھی۔ وہ نتن یاہو کومظلوموں کے قتل سے بازنہیں رکھ سکے۔ اگر اس سب کے باوجود اہل عرب ٹرمپ سے انتی مہنگی رسم وراہ بڑھارہے ہیں اورانہیں غاصب اسرائیل کی عسکری مدد سے نہیں روک رہے ہیں یا کم سے کم مظلوم اہل غزہ پر بمباری نہیں رکوارہے ہیں تواس کا یہی مطلب ہے کہ انہیں اہل فلسطین کے قضیہ سے اب کوئی دلچسپی نہیں رہی۔
حماس کے پا س کتنی طاقت ہے نہیں معلوم۔لیکن اس کی طاقت ٹرمپ او رنتن یاہو کے مقابلہ میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔مگر اس کے باوجود کم وبیش 600 دنوں کی جنگ کے بعد بھی اسرائیل او رامریکہ کے وہ دو مقاصد پورے نہیں ہوسکے ہیں جن کی بنیاد پرجنگ شروع ہوئی تھی۔ نہ وہ یرغمالوں کو بزور طاقت رہا کراسکے ہیں او رنہ ہی ابھی حماس کا خاتمہ کرسکے ہیں۔ٹرمپ نے عہدہ صدارت کا حلف لینے سے پہلے ہی دھمکی دی تھی کہ اگر حماس نے ان کے وہائٹ ہاؤس میں داخل ہونے سے پہلے ایک ہی جھٹکے میں تمام یرغمالوں کو بلاشرط رہا نہ کیا تو اس پر جہنم کے دورازے کھول دوں گالیکن حماس نے اپنے ہی منصوبے او راپنی ہی شرائط کے تحت لوگوں کو رہا کیا۔ یہاں تک کہ اس امریکی اسرائیلی یرغمال کو بھی اپنی ہی مرضی سے چھوڑاجس کی رہائی پر ٹرمپ پھولے نہیں سمائے۔ حماس نے کہا کہ ٹرمپ کے دورہ سے پہلے جذبہ خیر سگالی کے تحت ہم ایڈان الیگزینڈ کو چھوڑ رہے ہیں۔بظاہر اب حماس کو عسکری مدد کے تمام راستے بند ہیں۔ اس کے باوجود اگر وہ خود کو باقی رکھے ہوئے ہے تو یہ امریکہ او راسرائیل او رٹرمپ اورنتن یاہو چاروں کی شکست ہے۔
ٹرمپ نے دیکھ لیا کہ ان کی دھمکیوں کاکوئی اثر قبول نہیں کیا جارہا ہے۔لہٰذا اب انہوں نے حکمت عملی تبدیل کرلی ہے۔ انہوں نے ایران کے ساتھ نیوکلیائی امور پر مذاکرات شروع کردئے جو بہر حال ایک تاریخی پیش رفت ہے۔ ٹرمپ نے حوثیوں کے ساتھ بھی معاہدہ کا دعویٰ کیا اور کہا کہ وہ اب امریکی مفادات پر حملے نہیں کریں گے۔ٹرمپ نے حوثی قیادت کے ستائش تک کرڈالی۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے بھی امریکہ اور حوثیوں کے درمیان مبینہ معاہدہ کی ستائش کی۔ حالانکہ حوثیوں کی سب سے بنیادی دشمنی سعودی عرب کے ہی ساتھ ہے۔ لیکن حوثیوں نے اسرائیل کے خلا ف مسلسل حملے جاری رکھنے کا اعلان کیا او روہ اس پرعمل کررہے ہیں۔وہ ہر روز اسرائیل میں بین الاقوامی ہوائی اڈے ’بن غوریون‘ کے احاطہ پر میزائل داغ ہے ہیں۔حماس کے ساتھ بھی امریکہ کے مذاکرات کی خبریں گشت کررہی ہیں۔ لیکن کوئی ٹھوس تفصیل سامنے نہیں آئی ہے۔ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے تین ملکوں سعودی عرب، قطر او رمتحدہ عرب امارات کا دورہ کیا مگر پہلی بارایسا ہواکہ اس دورہ میں اسرائیل کو شامل نہیں کیا۔ اس دوران اسرائیل میں ان کے خلاف خوب لکھا گیا کہ انہوں نے اسرائیل کو اور خاص طور پر نتن یاہو کو تنہا چھوڑ دیا۔ وہائٹ ہاؤس کے ذرائع کاکہناہے کہ امریکہ او رٹرمپ نے مذکورہ تمام پیش رفتوں پر نتن یاہو سے کوئی گفتگو نہیں کی اور نہ ہی انہیں پیشگی کچھ بتایا۔
اس دورہ میں سعودی عرب نے امریکہ کے ساتھ 600 بلین ڈالر کا معاہدہ کیا جن میں 142 ارب ڈالر کاہتھیار وں کی خرید کا معاہدہ بھی شامل ہے۔ محمد بن سلمان کی درخواست پر ٹرمپ نے نہ صرف شام کے نئے صدر احمد الشرع سے ملاقات کی بلکہ شام پر عاید پرانی پابندیاں ہٹانے کا بھی اعلان کردیا۔ یہ کوئی چھوٹا اعلان نہیں ہے۔ ماضی میں احمد الشرع کو آئی ایس آئی ایس کے سرگرم رکن ہونے کے سبب امریکہ نے دہشت گرد قراردے رکھا تھا۔ٹرمپ ایران پر بھی تین دہائیوں سے عاید پابندیاں مشروط طو ر پر ہٹانے کے اشارے دیتے رہے ہیں۔ ایران بھی امریکہ سے مسلسل مذاکرات کررہاہے۔ سعودی عرب نے بھی ان مذاکرات کی ستائش کی ہے۔قطر نے بھی امریکہ کے ساتھ بڑے پیمانے پر خیر سگالی کامظاہرہ کرتے ہوئے ٹرمپ کو 40 کروڑ ڈالر کا ایک شاندار ہوائی جہاز ’ایر فورس ون‘ کے طور پر استعمال کرنے کے لئے ہدیہ کیاہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کے ساتھ قطرنے 1200 بلین ڈالر کامعاہدہ بھی کیا ہے۔ادھر اپنے دورہ کے آخری پڑاؤ کے آتے آتے ٹرمپ نے اپنے سربدلنے شروع کردئے۔ اسرائیل کے انتہائی جگری دوست ملک متحدہ عرب امارات پہنچ کر انہوں نے کہا کہ اس دورہ کے دوران میں نے اسرائیل کو نظرانداز نہیں کیاہے بلکہ وہ دورہ اسرائیل کی بہتری کے لئے ہی کیا ہے۔ واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات نے امریکہ کے ساتھ سب سے بڑا 1400بلین ڈالر کا معاہدہ کیاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یاتو ٹرمپ سعودی عرب او رقطر کو بے وقوف بناگئے یا پھر یہ دونوں ہی عمداً بے وقوف بن گئے۔
ٹرمپ نے اس دورہ میں اسرائیل کو شامل نہ کرنے کے باوجود سعودی عرب میں اپنے دل کی بات کہہ ڈالی۔انہوں نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ معاہدہ ابراہیمی کے تحت مراسم استوار کرے تاہم یہ بھی کہا کہ ایسا سعو دی عرب اپنی مرضی کے وقت پر کرے گا۔ انہوں نے شام کے صدر احمد الشرع سے بھی کہا کہ وہ ’معاہدہ ابراہیمی‘ کا حصہ بن جائیں۔متحدہ عرب امارات تو پہلے ہی اس معاہدہ کے تحت اسرائیل کے سامنے خود سپردگی کرچکا ہے۔ایسے میں یہ سوال منہ پھاڑ ے کھڑا ہے کہ اہل عرب نے 32 لاکھ ملین ڈالر کا معاہدہ کرکے ٹرمپ سے لٹے پٹے غزہ کیلئے کیا لیا؟ کیا اس پورے دورے میں غزہ کا کوئی واضح ذکر آیا؟ بلاشبہ واضح ذکر تو بالکل نہیں آیا۔ سعودی عرب نے ضرور کہاکہ غزہ کے لئے امداد غیر مشروط ہونی چاہئے۔سعو دی عرب کے وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان غزہ میں جنگ ختم کرانے اور تمام یرغمالوں کو رہا کرانے پر اتفاق ہوگیا ہے لیکن یہ کام کب او رکیسے ہوگا اس کے خدوخال سامنے نہیں آئے۔امریکہ نے بھی ایسا کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ٹرمپ نے اسرائیل کے دوست ملک متحدہ عرب امارات پہنچ کر کہا کہ میرے پاس آزاد غزہ کا ایک بہترین منصوبہ ہے۔یہاں ٹرمپ نے حماس کے خاتمہ کی ضرورت پر بھی زور دیا۔لیکن اس دورہ میں کہیں بھی کسی نے بھی آزاد فلسطین کی ضرورت کاکوئی ذکر نہیں کیا۔ نتن یاہو تو پہلے ہی دوریاستی حل یعنی آزاد فلسطین کے تصور کو مسترد کرچکا ہے۔
اسرائیل کے تجزیہ نگار دومختلف آراء کااظہار کررہے ہیں۔کچھ کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ نے اسرائیل کو نظر انداز کردیا کچھ کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ نے نتن یاہو کو نظرانداز کردیا۔ میرا خیال ہے کہ اسرائیل کے تئیں امریکہ کی پالیسی کبھی تبدیل نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا ممکن ہے کہ ٹرمپ نتن یاہو کے طریہ کار سے ناراض ہوں لیکن اسرائیل سے ان کا لگاؤ ختم نہیں ہوسکتا۔ اس کا انہوں نے تینوں ملکوں میں برملا اظہار بھی کیا۔لیکن پھر سوال وہی ہے کہ فلسطین او راہل فلسطین کاکیاہوا؟ کیا فلسطین کو اور خاص طور پر اہل غزہ کو ان تمام ممالک نے جن میں سعودی عرب‘ قطر متحدہ عرب امارات اور شام بھی شامل ہے‘ تنہا چھوڑ دیا ہے؟ بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے۔لہٰذا وہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ جو میں نے اس جنگ کے شروع میں 8اکتوبر 2023 کوکہی تھی کہ یہ جنگ اہل غزہ او رحماس کو خود ہی تنہا لڑنی ہے۔حزب اللہ کی طاقت کو چاروں طرف سے توڑ دیا گیا ہے یا اسے گھیر لیا گیا ہے۔ حوثی کب تک مقابلہ کریں گے‘ یمن اسرائیل سے دوہزار کلو میٹر دور ہے آخر وہ کب تک اسرائیل پر حملے کرنے کے متحمل ہوں گے۔ ایران اپنی مشکل میں پھنسا ہوا ہے۔
اسرائیل سخت نقصانات کی زدمیں ہے لیکن حماس سے زیادہ طاقتور ہے اس نے غزہ پر انتہائی تباہ کن حملوں کا مرحلہ شروع کردیا ہے۔ہرروز سوسے زیادہ مظلوموں کو شہید کررہاہے۔ نتن یاہو نے اب صاف کہہ دیاہے کہ اس کا اصل اور سب سے بڑا مقصد یرغمالوں کی واپسی نہیں بلکہ غزہ کی جنگ جیتنا ہے۔ اب اس نے زمین دوز بموں کا استعمال بھی شروع کردیاہے۔ وہ اپنے باقی ماندہ یرغمالوں کی پرواکئے بغیر حماس کے جانبازوں کے خاتمہ کے مقصد سے بلا امتیاز بمباری شروع کرسکتا ہے۔دیکھنا ہے کہ حماس کے جانباز کب تک مقابلہ کرتے رہیں گے۔ کب تک زیر زمین زندگی گزاریں گے۔ کوئی نہیں جانتا کہ ان کے پاس کب تک زندگی گزاریں گے۔ کوئی نہیں جانتا کہ ان کے پاس کب تک زندگی گزارنے کے لوازمات باقی ہیں۔ لیکن وہ جب تک بھی زندہ ہیں یہ تو واضح ہے کہ وہ اسرائیل کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔
--------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/middle-east-trump-behind-bleeding-gaza/d/135580
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism