میشا اوہ، نیو ایج اسلام
18 دسمبر، 2014
آج کل جہاں تک ہو سکتا ہے
میں مذہب کے بارے میں گفتگو کرنے سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مجھے اس بات کا احساس ہے
کہ دین ایک ایسی چیز ہے کہ جس کا مظہر لوگوں
کو اپنی زندگی کو بنانا چاہیے، اس کے بارے
میں بحث یا اس کی تبلیغ نہیں کی جانی چاہئے۔ لیکن دوسرے ہی دن میں اپنے اس اصول توڑ
دیتا ہوں اور اپنے اس دوست کے ساتھ مذہبی بحث
میں مشغول ہو جاتا ہوں جو کچھ وقت سے مذہبی تنوعات کے بارے میں غور و فکر کر رہا ہے۔
وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ خدا نے مذہبی روایات میں اس قدر حیرت انگیز
اور کچھ لوگوں کی نظر میں انتہائی مبہم تنوعات کی گنجائش رکھی ہے؟ کیا اس طرح کا تنوع
دنیا کے لئے خدا کی منصوبہ بندی کا ایک حصہ ہے یا یہ انسانوں کی عہد شکنی کا نتیجہ
ہے؟
اپنی گفتگو کے دوران میں نےمذہبی
تنوع کے بارے میں مذہبی نقطہ نظر سے ممکنہ طور پر مختلف وضاحتیں پیش کی۔ ہم نے ان موضوعات
پر بحث کی لیکن ان میں سے کسی سے بھی ہمیں مکمل تشفی نہیں ملی، لہٰذآخر کار ہم نے بحث
بند کر دی۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں
ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ہم ان کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں
کہہ سکتے، لہٰذا ان کے بارے میں بحث کرنا فضول اور بے معنیٰ ہے۔ ہم یہ تسلیم کرنے پر
مجبور ہیں کہ خدا نے کچھ چیزوں کو ہماری فہم
و فراست اور ادراک سے دور رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، کم از کم جب تک ہم اس زمین پر ہیں
کبھی بھی حقیقی معنوں میں مکمل طور پر ان کو نہیں سمجھ سکتے۔ ہمیں آخر کار یہ تسلیم
کرنا پڑا کہ صرف خدا ہی جانتا ہے کہ اس نے اس دنیامیں مختلف مذہبی روایات کا وجود کیوں
قائم کیا اور پوری دنیا کے لیے صرف کسی ایک ہی مذہب کا انتخاب کیوں نہیں کیا۔ ہم یہ
تسلیم کرنے پر مجبور تھے کہ یہ قیاس آرائی کرنا محض فضول اور بے معنیٰ ہے کہ خدا نے
ایسا کیوں کیاہو گااس لیے کہ ہم یہ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے اس کے جو جوابات
تلاش کیے ہیں وہ درست ہیں۔
کیوں مذہبی تنوع ایک ایسا
سرر الٰہی ہےکہ ہم مکمل طور پر اسے سمجھنے سے قاصر ہیں، مذہبی تنوع کےبارے میں ہم اپنی
حکمت عملی سے یقینی طور پر کیسے کچھ کہہ سکتے ہیں۔ میرے دوست نے اور میں نے اس بات
پر اتفاق کیا کہ ہم مذہب سے قطع نظر خود اپنے لئے اور تمام لوگوں کے لیے لئے ایک بہتر
دنیا کی تشکیل میں مدد کرنے کے لئے ہنر مند طریقے سے مذہبی تنوع کے بارے میں اپنی ذمہ
داری پوری کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو مذہبی تنوعات خود ہمارے اور
ساتھ ہی ساتھ دوسروں کی بھی نشو نما میں ایک نایاب ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں ۔ اگر ان
مسائل کا سامنا اس انداز میں کیا جائے تو اس سے ہمارے روحانی سفر میں جو زندگی کا مقصد
اور ماحصل ہے بہت زیادہ مدد مل سکتی۔
لیکن آپ یہ جاننے کی کوشش
کرسکتے ہیں کہ مذہب کے نام پر خود ساختہ حریف مومنوں کے ان خونریز جھڑپوں کے پیش نظر سے جو کہ اس دنیا کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں
لے رہا ہے ایسا کیوں کر ممکن ہے؟ بے شک آپ یہ کہہ سکتےہیں کہ مذہبی تنوع ایک ان کہی تباہی کا سبب رہی ہے جو کہ
اب بھی جاری ہے، اور یہ دعوی کرنا کہ یہ اجتماعی روحانی ارتقاء میں انسانیت کے لیے
معاون ہو سکتی ہے، بالکل بے سر و پا بات ہے!
میں مکمل طور پر آپ کی دلیل
سے انکار نہیں کروں گا۔ اس میں کچھ سچائی ضرور ہے۔ آپ کی یہ بات میں غلط نہیں ہیں کہ مذاہب کی تاریخ میں اور آج بھی مذہبی تنوعات کا
استعمال مختلف مذہب پر عمل کرنے والوں کے درمیان بڑے پیمانے پر تعصب، نفرت اور تشدد
کو فروغ دینے کے لئے کیا گیا ہے۔ شاید کسی اور چیز سے کہیں زیادہ خود مذہب کے ہی نام
پر خون بہایا جا چکا ہے۔ اس کے بجائے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس سنگین ترین صورت حال
کو کا ذمہ دار مذہبی تنوعات کو ٹھہرایا جانا
ضروری نہیں ہے۔ بلکہ کیا اس کے پیچھے مذہبی تنوعات کے تئیں وہ خاص نقطہ نظر نہیں ہے جو مذہبی حریفوں نے مذہب
کے نام پر ناقابل بیان جرائم کا ارتکاب کرنے کے اپنایا ہے؟
اس بات سے کوئی انکار نہیں
کر سکتا کہ مذہبی تنوع کے تئیں ایک جنگجو، علیحدگی پسند، تفوق پرست اور نفرت پر مبنی نقطہ نظر، جس کی بنیاد اس عقیدے پر
ہے کہ مذہبی تنوع ایک لعنت ہے جسے جبراً ختم کرنا ضروری ہے، ہی پوری تاریخ انسانیت
میں سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ تاہم، یہ یاد رکھنا سب سے اہم ہے کہ صرف یہی ایک ممکنہ نقطہ
نظر نہیں ہے جسے ہمیں اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم خدا یا انسانی فطرت یا اپنے حالات
کی وجہ سے اس بات پر مجبور بھی نہیں ہیں کہ ہم اس ہولناک انداز میں مذہبی تنوعات کا
جواب دیں۔ ایک چھری کا استعمال کسی کو زخمی کرنے کے لیے کیا جا سکتا، لیکن اس چھری
کا استعمال آپریشن تھیٹر میں کسی شخص کی زندگی
بچانے کے لئے بھی کیا جا سکتا۔ اسی طرح مذہبی تنوع کو بعض لوگ ناقابل برداشت لعنت سمجھ
سکتے ہیں جسے وہ جبراً مٹا دینے پر اصرار کرتے ہیں، جبکہ دوسرے لوگ اسے اپنی اور دوسروں کی بھی نشو نماکے لئے ایک بیش
بہا ذریعہ سمجھ کر ایک مختلف انداز میں اس رجحان کا جواب دے سکتے ہیں۔
اگر آپ واقعی اس کے بارے میں
سوچیں گے تو آپ کو اس بات کا علم ہو گا کہ ہم میں سے ہر ایک کے پاس جو کچھ بھی ہے یا
جانتا ہے یا ہے وہ بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ بات چیت یا مکالمے کے نتیجے میں ہے۔
ہم میں سے کوئی بھی اتنا مکمل نہیں کہ اسے کسی دوسرے پر منحصر ہے ہونے اور کسی کے ساتھ
رابطہ قائم کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ خدا نے ہماری تخلیق اس انداز میں کی ہے کہ ہم باہم منحصر ہونے ایک دوسرے سے سیکھنے کے لئے
اور دوسروں کے ساتھ اشتراک کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نہ صرف انفرادی طور
پر بلکہ نسلی اور مذہبی کمیونٹیز کے درمیان بھی، اس طرح کے باہمی مکالمات اور اشتراک
پوری تاریخ انسانیت میں ذاتی اور ساتھ ہی ساتھ
سماجی طور پر بھی ذہنی، جذباتی، مادی اور روحانی ارتقا کے ہم ذرائع رہے ہیں۔ باہمی
مکالمات اور اشتراک ایک ایسی قدر ہے جیسے ہم
میں سے ہر ایک آسانی کے ساتھ اپنی زندگی میں جان لیں گے، اگرچہ یہ کوئی ایسی چیز نہیں
ہے کہ اسے ہم سب آسانی کے ساتھ اپنی زندگی میں تسلیم بھی لیں۔
جب میں اپنی زندگی پر غور
کرتا ہوں تو مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر مجھے
متعدد شاندار مواقع حاصل نہیں ہوتے جن سے میں خود کو جوڑتا اور سیکھتا تھااور اگر مختلف مذہبی اور دیگر نظریاتی پس منظر
کے حامل لوگوں سے دوستی کرنے کا موقع میسر نہیں ہوا ہوتا تو میری ذات علمی اور ذہنی
اعتبار سے کس قدر محدود ہوتی۔ اسکول، کالج اور پھر یونیورسٹی میں مجھے تقریبا تمام
معقول مذہبی روایت سے تعلق رکھنے والے اساتذہ سے استفادہ کرنے کا موقع ملا جن سے میں
نے ایسی بہت ساری باتیں سیکھیں جو بعد کی زندگی میں میرے لیے معاون ثابت ہوئیں۔ اسکول
میں ایک عیسائی استاذ سے میں نے خدا کی محبت اور دوسروں کی خدمت کرنا سیکھا۔ ایک مسلمان
دوست نے مجھے خد کی ا عبادت اور اسے کثرت کے ساتھ یاد کرنے کی اہمیت بتائی۔ ایک بدھ
راہب سے مجھے خاموشی جانوروں، پودوں اور یہاں تک کہ پتھر کے لئے ہمدردی کی اہمیت معلوم ہوئی۔ ایک سکھ سے مجھے تمام حقیقی مذاہب
کے اندر پائی جانے والی وحدانیت کا علم ہوا۔ ایک ہندو درویش نے مجھے روحانیت کی سمجھ
کے ایک ایسے طریقے سے متعارف کروایا جو نام اور شکل و صورت کی تمام حدود اور رکاوٹوں
سے بالاتر ہے۔ اوشو کے ایک پرستار سے میں نے یہ
سیکھا کہ سخت دل اور ترش مزاج ہونا ایک سنگین گناہ ہو سکتا ہے اور کبھی کبھی
ہنسی، مذاق اور تنز و مزاح کرنا ایک عظیم روحانی ذریعہ اور ساتھ ہی ساتھ روحانی ارتقاء
کی ایک اعلی ترین حالت کی عکاسی اور اظہار ہو سکتا ہے۔ ایک یہودی عورت جو بوسنی خانہ
جنگی کے دوران امدادی سامان سے بھری ایک ٹرک پیرس سے لیکر سرائیوو آئی تھی، اس نے مجھے
سیکھایا کہ مذہبی ہونے سے مذہب اور نسل سے قطع نظر ضرورت مند لوگوں کی خدمت کرنے کی ترغیب
اور تحریک ملتی ہے۔ ایک ایسے شخص سے جو (میری
ہی طرح) کسی ایک خاص مذہب کو شناخت نہیں بناتا ہے اور ہر مذہب میں پائی جانے والی اچھائی
کو سراہتا ہے میں نے یہ سیکھا کہ خدا کی معرف اور نجات حاصل کرنے کے لیے کسی ایک مذہب
کے دائرہ میں مقید ہونا ضروری نہیں ہے اور
خدا اور نجات پرکسی خاص برادری کی اجارہ داری نہیں ہے۔
ان سب اور ایسے بہت سارے لوگوں
کے علاوہ جن سے مجھے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور جنہوں نے میری باطنی ترقی میں پیش
قیمتی تعاون کیا، ایسے بے شمار مختلف مذہبی پس منظر اور روحانی روایات کے حامل مصنفین
ہیں کہ خدا، روحانیت اور زندگیکے بارے میں جن کی کتابوں کا مجھ پر بڑا گہرا اثر ہے۔
مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے
ان تمام لوگوں نے میرے ارتقاء میں بڑی مدد کی ہے اور میں ان کا شکر گزار
ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ میں ان تمام باتوں پر عمل کرتا ہوں جو میں نے ان سے سیکھی ہے
لیکن مجھے معلوم ہے کہ اگر خدا انہیں میری زندگی میں نہیں بھیجتا تو میں کتنا مفلوک
الحال ہوتا۔ ان سب کے ساتھ منسلک ہونا صحیح معنوں میں ایک نعمت الہی ہے۔
اگر مذہبی رنگا رنگی نہیں
ہوتی تو میں آج وہ نہیں ہوتا جو ہوں۔ اگر میں نے صرف کسی ایک ہی مذہب پر اکتفا کر لیا
ہوتا تو مجھے وہ تمام مواعق کبھی حاصل نہیں
ہوتے جو خدا نے مجھے عطا کیا ہے!
URL
for English article:
URL for this article:https://newageislam.com/urdu-section/religious-diversity-help-our-spiritual/d/100655