مولانا ڈاکٹر یٰسین علی عثمانی
14اگست، 2009
آج کل ٹی وی چینل کی بڑھتی ہوئی تعداد میں ایک اضافہ پیس چینل کے نام ہوا ہے۔ جس کی سرپرستی غالباً ڈاکٹر ذاکر نائک کررہے ہیں ۔ یہ چینل بظاہر تو اسلامی چینل ہے اور اسلام کی ترویج واشاعت کو اپنا مقصد بنایا ہے اور پیغام توحید، دعوت دین اصلاح وتربیت جیسے موضوعات و عنوانات سے اپنی محفلیں سجاتا ہے مگر گہرائی سے اس کا مشاہدہ کرنے اور اس کے پروگراموں میں شریک علماء ودانشوران کی تقاریر ،خطابات ومذاکرات سننے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کی ترویج واشاعت جیسے مقصد سے کہیں زیادہ مسلک خاص کی اشاعت ہی اس چینل کا مقصود ومطلوب ہے۔
مجھے نہایت ہی تکلیف اور افسوس کے ساتھ یہ تحریر کرنا پڑرہا ہے کہ وہ پیس چینل اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور پیغام توحید کو عام کرنے جیسے مقدس مشن کا نام لے کر اپنے ملک اور نظریہ کی اشاعت کررہا ہے۔ اس چینل کے پروگرامس میں بعض لوگ تو عظمت رسالت پر بھی انگشت نمائی کررہے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ فرمائے اپنی تقریر اور گفتگو میں سرکار دوعالم ﷺ کی ذات سے متعلق ایسے ا لفاظ کا استعمال بھی کردیتے ہیں کہ جس سے توہین رسالت کی بوآتی ہے مثال کے طور پر 4اگست کی شام تقریباً پونے پانچ بجے میں نے ٹی وی کھولا تو پیس چینل پر شیخ ثناء اللہ مدنی نام کے مولانا جو شاید پیغام توحید کے عنوان سے خطاب کررہے تھے ۔ اسی عنوان کے تحت گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے قرآن کریم کی ایک آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمام خزانوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور ’’میرے پاس کچھ ہیں وے نہیں ‘‘ بس اس کے سوا کہ مجھے جو وحی کی جاتی ہے وہ میں تم تک پہنچادیتا ہوں‘‘یہ الفاظ نبی کریم علیہ الصلاۃ واتسلیم کی ذات سے منسوب کرتے ہوئے شیخ ثناء اللہ نے بیان کئے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے سورۃ فاتحہ کی آیت ’’ایاک نعبدو ایاک نستعین کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس آیت کا درست اور صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں ‘‘لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو آیت کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں’’ہم تیری بھی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے بھی مدد مانگتے ہیں۔‘‘
مولوی ثناء اللہ کا انداز بیان بالخصوص یہ الفاظ ادا کرتے وقت کہ ’’میرے پاس کچھ ہے وے نہیں‘‘ کسی خوش فکر خو ش عقیدہ مسلمان کیلئے بہت ہی ناگوار خاطر تھا اورایسا محسوس ہورہا تھا کہ ہم نے مخاطب یہ شخص اللہ کے رسول کی عظمت و بلندی سے ناواقف اور محبت وعقیدت سے محروم ہے اور بدنصیب ہے۔
میں مولوی ثناء اللہ سے جاننا چاہتاہوں کہ جو مذکورہ الفاظ انہوں نے اللہ کے محبوب حضرت محمد ﷺ کی ذات سے منسوب کئے ہیں وہ احادیث کی معتبر کتب میں کس کتاب، کسی باب اور کس حدیث کا حصہ ہیں؟ کہ جس میں سرکار نے یہ فرمایا ہے کہ ’’میرے پاس کچھ ہے وے نہیں‘‘ اور اس فرمانے سے کیا مطلب نکلتا ہے ۔ ثناء اللہ مدنی کی رائے میں اس کی تشریح کیا ہوگی ۔ ثناء اللہ نے کچھ نہ ہونے سے کیا سمجھا ہے اور دوسروں کو کیا سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
دوسری بات ہم شیخ ثناء اللہ سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ سورۃ الفاتحہ کی آیتکا آخر الذکرترجمہ ’’کہ ہم تیری بھی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے بھی مدد مانگتے ہیں‘‘ کس مسلک اور کس مکتبہ فکر کے کس عالم کس مترجم نے کس زبان میں کیا ہے ۔آخر میں مولوی ثناء اللہ کو یہ بیان کرتے وقت بتانا چاہئے تھا بہر حال ہم اب جاننا چاہتے ہیں چونکہ ہماری نظر سے ابھی تک آیت مذکورہ کا یہ ترجمہ نہیں گزرا ہے۔ آخر میں مولوی ثناء اللہ ٹی وی پر اس طرح کی بے بنیاد باتیں کر کے جن کو بہتان کہا جاتا ہے ‘ عام مسلمانوں کو کس مسلک اور کس مترجم قرآن کے سلسلہ میں گمراہ کرنا چاہتے ہیں ۔ آخر میں مولوی ثناء اللہ سے ان کے بیان کئے ہوئے ان الفاظ کی بابت کہ جو انہوں نے سرورکائنات علیہ الصلاۃ واسلام کی ذات سے منسوب کئے ہیں کہ ’’میرے پاس کچھ ہے وے نہیں‘‘کہنا چاہوں گا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب اللہ رسول علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس کیا کچھ نہیں تھا اور کیا کچھ نہیں ہے۔
کیا اللہ کے نبی عظیم الشان اور بے مثال کردار کے مالک نہیں ۔پیغمبر آخر الزماں نہیں ہیں۔ کیا اللہ کے سب سے محبوب رسول نہیں ہیں ۔ پیکر اخلاص وایثات نہیں ہیں ۔ رحمۃ اللعالمین نہیں ہیں ۔ کیا ان کی رسالت کے اقرار کے بغیر ان کی نسبت غلامی اور ان کی اتباع کے بغیر کسی مسلمان کا ایمان مکمل ہوسکتا ہے کیا اللہ کے رسول علیہ الصلاۃ والسلام کی جیسی مقدس سیرت اور حسن وجمال واعمال وکردار کی حامل کوئی دوسری ذات اللہ کے رسول سے قبل یا اللہ کے رسول کے بعد دنیا میں پیدا ہوئی ہے یا ہوگی۔ کیا اللہ تعالیٰ کے تمام برگزیدہ بندوں میں ہر لحاظ سے عظیم ترین ذات اللہ کہ نبی ؐ کی نہیں ہے۔ کیا ذات رب العالمین کے بعد اللہ کے بندوں کیلئے سب سے زیادہ لائق تعظیم ذات اللہ کے رسول کی ذات نہیں ہے ۔کیا یہ تمام عزو شرف اللہ کے رسول کی ذات میں جمع نہیں ہیں۔ یقیناًاللہ کے رسول کی مقدس ذات میں جمع ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کے رسول کی ذات سے متعلق اس طرح کا عقیدہ رکھنے والا گروہ ان افراد پر مشتمل ہے کہ جو لفظ بشر اور لفظ عبد کو بنیاد بنا کر اور اپنے گمراہ کن نظریہ کے لحاظ سے اس کو طول دے کر اللہ کے رسول کی مقدس ،محترم اور ارفع واعلیٰ ذات گرامی کو عام انسانوں کے برابر لاکھڑا کرنے کی ناپاک کوشش کرتا ہے جو نہایت ہی نازیبا ،قابل مذمت اور قابل تردید ہے۔ اللہ کے رسول جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و بلندی کا انکارکرنا اللہ کے رسول کی ذات اقدس کو عام انسانوں کی طرح سمجھنا ایمان والوں کے عقیدہ کا حصہ نہیں ہوسکتا ۔ توحید جیسے مقدس پیغام کے ساتھ بلکہ اس کی آڑ میں عظمت رسالت پر سوال کھڑے کرنا مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔
مسلم عوام اس طرح کے وعظین ، مقررین اور علما ء کرام کی تقریروں ، مذاکرات اور گفتگو وغیرہ سننے سے مکمل احتیاط برتیں ۔ میرا احساس ہے کہ اگر خدا نہ کرے اس طرح کے خیالات ونظریات کہ جس سے اللہ کے رسول کی عقیدت و محبت متاثرہوتی ہو یا اللہ کے رسول کی عظمتوں پر انگلی اٹھائی جاتی ہو اگر ٹی وی چینلز پر نشر ہوں گے تو وہ دن دور نہیں کہ مسلمان ان کے خلاف آواز بلند کرنے لگیں گے۔ چونکہ ایک مسلمان کیلئے اللہ کے رسول سے سچی محبت اور اللہ کے رسول کی سچی اطاعت ہی سرمایۂ حیات اور متاع آخر ت ہے اور یہی اللہ کا حکم اور اس کی مرضی ہے ۔
(مضمون نگار یوپی اردو اکیڈمی کے سابق وائس چیئر مین ،آل انڈیا ملی کونسل کے نائب صدر اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے ممبر ہیں.....رابطہ 09412565088)
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/question-greatness-risalat-/d/1643