مولانا یحییٰ نعمانی
20 اگست، 2016
مسلمانوں کی ذلت و مظلومیت کے تڑپادینے کی حد تک تکلیف دہ تاریخ کے پس منظر سے جہادی تنظیمیں بر آمد ہوئیں ہیں ۔ ایک بڑی حد تک یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آزاد تنظیموں کے ذریعے (ان کے نزدیک)جہاد کا یہ سلسلہ گزشتہ صدی میں افغانستان میں روسی فوجوں کے خلاف مزاحمت سے شروع ہوا اور اب اس کا نقطہ ٔ عروج داعش وغیرہ کی شکل میں موجود ہے۔
ان لوگوں کے جذبات او رنیتوں کے بارے میں سوائے ان کے علیم و قدیر رب کے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ لیکن اس دور ان بے شمار ایسے کام انجام دیے گئے جن کو امت مسلمہ کے قائدین او ربڑے نامور مقبول علماء کی طرف سے شدید تنقید کی جاتی رہی ہے ۔ مگر پھر بھی یہ تنظیمیں اپنی خاص فکر و مزاج او راپنی تحریک کی طرف نوجوانوں کی ایک تعداد کو مائل کرنے میں کامیاب ہورہی ہیں ۔ انٹر نیٹ کے ابلاغی وسیلہ سے ان کی دعوت اور تبلیغ تیز رفتار سے جاری ہے۔
اس تحریر کے خاص مخاطب:
ہماری اس تحریر کے خاص مخاطب وہی لوگ ہیں جو ، اپنی حمیت اور دین کی محبت ہی کی وجہ سے حالات سے تنگ آکر یہ سوچتے ہیں کہ موجودہ دور میں جو جہادی دعوت، القاعدہ تحریک طالبان پاکستان اور داعش جیسی تنظیموں کی ہے، شاید یہ مسلمانوں کے لیے حالات کی تبدیلی کا راستہ ہے ایسے لوگوں سے ہم کہتے ہیں کہ ضروری ہے کہ مسئلے پر سنجیدگی سے پر غور کیا جائے ۔ اس لیے کہ جتنا یہ ‘‘جہاد’’ بڑھتا جاتا ہے اتنا ہی مسلمانوں کی تباہی بڑھتی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جہاد عزت اسلام کا ذریعہ ہوتاہے یا مسلمانوں کی بربادی؟ اسلام کی خوشنامی کا یا بدنامی کا؟ دین کی ترقی یا تنزل کا؟ پھر کون سی وہ غلطی ہے جس نے ان لوگوں کے جہا د کو (Counter Productive) الٹے نتائج پیدا کرنے والا بنا دیا ہے؟ موجودہ زمانے کے جہادی منظر نامے پر غور کرنے کے لیے یہ بنیادی سوال ہے۔
بنیادی غلطی:
ہاں یہ بات صحیح او رہر ایک کے لیے واضح ہے کہ اس دور میں ‘‘جہادی’’ کوششوں سے مسلمانوں کے مسائل حل ہونے کے بجائے نہایت پیچیدہ او ر مشکل ہوگئے ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جہاد کے جواز کے لیے حالات کی سازگاری اور اچھے نتائج کی توقع شرط ہے۔ قرآن و سنت کا علم ہی نہیں ذرہ برابر عقل سے بھی سوچا جائے تو اس کے علاوہ او رکچھ نہیں کہا جاسکتا کہ مسلح مقابلہ یا جنگ اسی وقت جائز ہو سکتے ہیں ، جب ان کی طاقت ہو اور ان سے اچھے نتائج کی توقع ہو۔ کوئی عقل سلیم رکھنے والا اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ ابھی تک تو ان جہادی کوششوں سےاسلام او رمسلمانوں کے مسائل ہی میں اضافہ ہوا ہے؟ مسلم ممالک کی زمین لالہ زار اور آسمان اشک بار ہے۔ کہیں امن نہیں بچا، خون کی بلا مبالغہ ندیاں بہہ گئیں۔ اس سے بھی بڑی مصیبت کہ اہل دین اپنے لیے دینی کاموں کو مشکل سے مشکل تر پار ہے ہیں۔ خطبات پر،دینی اجتماعات پر،تحریر وں پر پابندیاں لگ رہی ہیں ۔ اہل دین کی نقل و حرکت پر رکاوٹیں ہیں ۔ ظالم حکومتوں کا شکنجہ سخت ہوتا جارہا ہے ، خفیہ ایجنسیوں کا عمل دخل بڑھتا جارہا ہے۔
اس سب کا راستہ آسان کیا ان سرفروشانہ تحریکوں نے جنہوں نے بے موقع ‘‘جہاد’’ چھیڑ دیا۔ یہ اقدامات بے موقع اس لیے تھے کہ قرآن وسنت کی تعلیم یہ تھی او رہے کہ جہادی اقدام سب سے زیادہ موقع و محل اور حالات و ‘‘استطاعت’’ کا پابند ہے ۔ قرآن نے صاف کہا تھا کہ جب تک اچھے نتائج کی قابل لحاظ امید نہ ہو اس وقت تک مظالم پر صبر کرکے ہاتھ روکے رکھنا اور اقامت صلاۃ ہی وقت کا ‘‘جہاد’’ ہے، کفوا ایدیکم و اقیموا الصلاۃ۔ مگر ہم نادان اپنے وقت کے جہاد کےبجائے دوسرے وقت کے عمل کو جہاد سمجھ بیٹھے ۔ یہی وہ غلطی ہے جس نے ان لوگوں کے جہاد کو (Counter Productive)الٹے نتائج پیدا کرنے والا بنا دیا ہے۔
کوئی یہ کہہ کر آنکھیں نہ مودے کہ اوپر کی آیت میں مذکور یہ حکم تو مکی عہد کا ہے۔ اس لیے کہ مکی عہد بھی کمزوری او رمغلوبیت کی دور کی ‘‘محکم’’ شریعت ہے۔ بعض لوگوں نے اپنے اندھے جوش کو حمیت سمجھ رکھا ہے۔ قرآن نے حکم دیا تھا کہ جنگی پوزیشن کا خیال کیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پہلے جب سابقین اولین کا لشکر تھا تو کہا گیا کہ ایک کے مقابلے دس کا بھی حساب ہو تو تم ہی فاتح ہوگے، شرط یہ ہے کہ تم ‘‘صابرون’’ یعنی جمنے والے ہو، اسی کو آج کی اصطلاحی زبا ن میں ( High Morale) کہتے ہیں ۔ پھر جب سابقین اولین (یعنی اول درجے کے صحابہ رضی اللہ عنہ) کے ساتھ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہ بھی آگئے ، تو اس فرق میں واضح کمی کی گئی او رکہا گیا کہ اب تمہارا ایمانی حال پہلے جیسا نہیں رہا، اس لئے اللہ تم کو آسانی دیتا ہے۔ اب اگر تمہارے مقابلے دشمن کی پوزیشن دگنی ہوگی تو تم فاتح ہوجاؤگے۔( الانفال 66۔65)
ظاہر ہے کہ پہلے اگر مادی طاقت صرف تعداد سے گھٹتی اور بڑھتی تھی، تو اب اس میں بہت سی دیگر ایسی چیزیں زمانے کے ساتھ ٹکنالوجی کی شکل میں پیدا ہوگئی ہیں جو طاقت کے توازن میں زبردست فرق پیدا کرتی ہیں، بلکہ وہ ایسا فرق پیدا کرتی ہیں جو تعداد کا بڑے سے بڑا فرق پیدا نہیں کرسکتا ۔ اور ایمانی حالت جو اللہ کی مدد کا سبب ہوتی ہے اس میں بھی اس زمانے میں عہد صحابہ سے اچھے حال کی توقع تو کی نہیں جاسکتی ۔ تو جب صحابہ رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک اور دو سے زیادہ کے فرق کو بڑا فرق بتایا گیا تو آج کے فسق و فجور او رنفاق و بےایمانی کے دور میں اس سے زیادہ کی امید کیسے کی جاسکتی ہے؟
اس زمانے میں مسلمانوں کا او رجن کے خلاف یہ مجاہدین جنگ کررہے ہیں ، فرق بلا مقابلہ ایک اور سیکڑوں کا ہے۔ اس کو نظر انداز کرنا قرآنی ہدایت کی خلاف ورزی ہے جو چاہے اچھے جذبے سے ہی ہو اس کا نتیجہ خراب ہی ہوگا۔ اور اس وقت یہی پہلو ہر درد مند مسلمان کو اس ‘‘جہاد’’ پر نظر ثانی پر مجبور کررہا ہے۔
اس سلسلے میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ (طرز عمل) موجودہ دور کے جہادی نظریات کے عین خلاف ہے۔ اس طرز عمل کا ایک موقع عزوۂ خندق کا ہے۔ یہ پورا واقعہ قرآن کی سورۂ احزاب میں بیان ہوا ہے۔ یہ پورا واقعہ قرآن کی سورۂ احزاب میں بیان ہوا ہے۔ مزید تفصیل حدیث کی کتابوں صحیح بخاری وغیرہ میں آئی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خبر آتی ہے کہ مدینے پر مشرکین کاحملہ ہونے والا ہے، اس کے لشکر کی تعداد دس ہزار ہے، ادھر جاں نثار مخلص صحابہ رضی اللہ عنہ کی تعداد تین ہزار سےمتجاوز ہے۔طاقت کے اس فرق کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ سے پہلو تہی فرمائی او رمقابلہ کے بجائے خندق کھود کر محصور ہوکر بیٹھ رہنے کو ترجیح دی۔ ہمیں غور کرنا چاہئے کہ دشمن کے حملہ کرنے کے بعد بھی جنگ نہ کرنا کیا پیغام رکھتا ہے؟ کیوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ نہیں کی؟ ہمارے لیے اس میں کیا شرعی حکم ہے؟ اس سے بھی آگے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اس پر بھی تیار تھے کہ اس خطرے کو ٹالنے کے لیے مشرکین کے بعض گروہوں کو مدینے کی آدھی پیداوار ہر سال دینے کا معاہدہ کرلیا جائے (بخاری، بات عزوۃ الخندق) ۔ کیا معاذاللہ یہ بزدلی تھی؟ کیا رسول اللہ علیہ وسلم سے غلبہ اور فتح کے یقینی وعدے نہیں تھے؟ او رکیا اس سے زیادہ یقینی وعدہ آج کے لوگوں سے اللہ نے کیے ہیں؟ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے ایسا کیوں کرایا؟ سوائے اس کے اور کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ قیامت تک کےمسلمانوں کے لیے ایک واضح ہدایت سامنے آجائے کہ اگر طاقت کا توازن ایسا خراب ہو اور مقابلہ آرائی مزید تباہی کا ذریعہ بنے تو یہی راہ ہے کہ مقابلہ نہ کیا جائے اور اسی طرح کوئی عارضی تدبیر بچنے کی سوچی جائے، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کھود کے اختیار کی تھی۔ یا لیت قومی یعلمون۔
اس وقت دنیا میں جو کچھ جہاد کے نام پر ہو رہا ہے اس کے بارے میں صحیح رائے قائم کرنے کے لیے صرف ایک نقطے پر غو ر کرلینا کافی ہے۔ وہ یہ کہ اگر جہاد کامقصد اسلام اور مسلمانوں کی عزت اور اللہ کے دین کے کام کو آگے بڑھانا ہے تو ان کوششوں کےذریعے کیا یہ کام ہوا؟ کیا اسلام غالب آیا یا اس کی کسمپرسی و غربت اور بڑھی ؟ کیا انہوں نے زمین کے چند کلو میٹر حصے پر بھی امن قائم کیا؟ کہیں مسلمانوں کو چین ملا؟ کہیں پائیدار طور پر ایمان و اخلاق کی اصلاح کا کوئی نمونہ سامنے آیا؟ جو نتائج ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں۔ مسلمانوں کے ملک تباہ و برباد ہوگئے۔ جو باقی رہ گئے ان کی مجبوریاں او ر بڑھیں ۔ خوں ریزی ایسی کہ الامان الحفیظ ، ایک ایک ملک میں لاکھوں لاکھ مسلمانوں کی بےفائدہ و مقصد جان گئی۔ دسیوں لاکھ لوگ بے گھر در در کی ٹھوکریں کھارہےاور کفار سے پناہیں مانگ رہے ہیں۔
(۱) جہاد کامقصد اگر اعلاءکلمۃ اللہ (اللہ کے دین کی عزت و سربلندی) ہے تو ذرا دیکھئے کہ ان کوششوں سےکیا کہیں یہ مقصد حاصل ہوا ہے؟ کیا دنیا میں کفر و ظلم کا زور ٹوٹا ہے یا استبدادی شکنجے او رمضبوط ہوئے ہیں؟ اس قدر خوں ریزی ! اور اس کے بھی کچھ نتائج نہ نکلے ہیں نہ بظاہر حالات مثبت نکلنے کی کوئی امید ہے، پھر بھی اگر اس تجربے پر نظرثانی کی ضرورت محسوس نہ کی جائے تو سوائے حسرت و افسوس کے کیا کیا جاسکتا ہے؟
میری قوم کے لوگو! ہر قسم کے تحفظات سے آزاد ہوکر سوچئے ۔ ان کوششوں سے مسلمان ملکوں کو آزادی ملی یا غلامی ؟ دین کو فروغ ہوا یا اس کے مشکلات میں اضافہ ہوا؟
(2) افغان جہاد کو جب تک امریکہ کی سرپرستی حاصل رہی اس کی بقا رہی۔ اس بیچ میں یقیناً طالبان حکومت کا مبارک دور بھی آیا جس نے پھر سے حقیقی اسلامی حکومت کا منظر نگاہوں کے سامنے کردیا۔ وہی انصاف ، سادہ حکمراں اور شریعت کی بالادستی ۔ مگر ان حضرات سےپوری محبت کے باوجود ، کیایہ حقیقت نہیں کہ امریکہ کی نگاہ ترچھی ہونے کی دیر تھی کہ سارا محل زمین بوس ہوگیا ۔ ہمت کر کےحقیقت کو تسلیم کیجئے کہ افغان جہاد کی زندگی اسی وقت تک رہی جب تک اس نے امریکی مفادات کی خدمت کی ۔ آپ اس حقیقت پر غور کیجئے گا تو مستقبل کے لیے صحیح حکمت عملی بنا سکیں گے ورنہ ۔۔۔۔۔۔
اب کیا حال ہے او رکیا انجام ہے؟ افغانستان تو کیا آزاد ہوتا پاکستان کے بارے میں بھی ڈر ہے کہ کہیں وہ دوسرا افغانستان نہ بن جائے۔افغانستان کی خانہ جنگیوں کی کوئی انتہا بظاہر تو نظر نہیں آتی ۔ مسلمان ہی مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں۔ پھر افسوس یہ کہ اس بے فائدہ جنگ میں جو خون بہہ رہا ہے یہ بہادر ، قربانی کے لیے تیار ، باحمیت نوجوانوں کا نہایت قیمتی خون ہے۔ اس کو صحیح جگہ استعمال کیا جاتا، صحیح تربیت کےساتھ اس سے کام لیا جاتا تو ملت کے تحفظ کے لیے نہ جانے کتنا کام کرتا۔ مگر امت کا یہ قیمتی عنصر بربادیوں کی آگ کا ایندھن بن رہا ہے ۔ کوئی نا سمجھ ہی ہوگا جس کو یہ توقع ہو کہ افغانستان میں اس راستے سےکوئی شرعی حکومت او رامن و استحکام آسکتا ہے؟ خاص طور پر اس ‘‘جہاد’’ نے پاکستان کو بھی نہایت غیر مستحکم او رمغرب کا دست نگر بنادیا ہے۔
(3) اس کے بعد ذراکشمیر کے حالات پر نظر ڈالیے: فوجوں کے مظالم تو اب دور بیٹھے غیر مسلم بھی کھل کر بیان کررہے ہیں، مگر اس ظلم کو دسیوں گنا یقیناً مسلح تحریک کی آگ نے بڑھا یا۔پہلے جو ظلم تھا وہ قطعاً ایسا نہیں تھا ۔ سالوں کی خونریزی کے بعد بھی کشمیر کے بین الاقوامی طاقتوں کے کھیل سے باہر نکلنے کوئی سبیل نظر نہیں آتی ۔
(4)سب سے زیادہ آنکھ کھولنے والا منظر سیریا کا ہے۔ اسد حکومت کا جبر و استبداد ہر شبہے سے بالا تر تھا، مگر ‘‘جہاد’’ کے نام پر جو کچھ کیا گیا اس کے بعد تو پورا ملک کیسا تباہ و برباد ہو رہا ہے کہ اس کے تصور سےبھی رونگٹے کھڑے ہو رہے ہیں ۔ 6 لاکھ آدمی مارے گئے۔ معذوروں اور زخمیوں کی تعداد اللہ کی پناہ ! اور پھر در در بھٹکتے پناہ گزینوں کی الم ناک صورت حال ، حزب اللہ اور بشار کی مجرم فوج کے محاصروں کا یہ حال ہے کہ مختلف شہروں میں لاکھوں انسان بھوکے مررہےہیں ، خبریں آئیں کہ علماء نے مجبوری میں کتے حلال ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔ پھر یہ بھی خبر آئی کہ کتے بلی سب ختم ہوگئے تو گھاس کھانے پر لوگ مجبور ہیں۔ انسانی بربادیوں کی کیسی لرزہ خیز تصویر ہے؟
یہ سب جو ہوا اس کی ذمہ داری کس کے اوپر ہے؟ بعض حکومتوں کی ایجنسیوں نے اپنے مصالح کے تحت ‘‘جہاد’’ کے نام پر تحریک قائم کروائی ۔ کون شبہہ کرسکتا ہے اب جو کچھ ہے اس کے سلسلے وار نتائج ہیں۔ ادھر دو تین ہفتوں سے حلب سے کیاخبریں آرہی ہیں ۔ روس اندھا دھند بمباری کررہا ہے ۔ نیچے بشار کی فوج اور حزب اللہ کے ظالم قتل عام مچارہے ہیں۔
کیا اسی کو جہاد کہتے ہیں؟ جو ایسا ہول ناک فساد اور دہشت ناک بربادی پیدا کرے۔ کسی افسوس ناک نا سمجھی ہوگی اگر کوئی بربادیوں کے ایسے تجربوں کے بعد بھی اس راہ سےکسی خیر کی توقع رکھے ۔ اس تباہی کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ جو لاکھوں لاکھ مسلمان سیریا سے ہجرت کر کے مغربی ملکوں کو جارہے ہیں وہاں ان کے دین و ایمان کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ یہ کون سا جہاد ہے جس سے لاکھوں مسلمانوں کے ایمان کو خطرہ پیدا ہورہا ہے؟
اگر جہاد کا مقصد امن وامان قائم کرنا ہے، اور یقیناً قرآن جہاد کو امن و امان کا ذریعہ قرار دیتا ہے ( البقرہ: 251، الحج:40) تو سوچیے کہ ان کوششوں نے افغانستان سے لےکر چیچنیا، صومالیہ، اور نائیجریا سے لے کر سیریا و عراق تک کہاں امن قائم کیا اور دنیا سے کس فساد کو ختم کیا؟ ۔ اس فساد اور بربادی کی وجہ صرف یہی ہے کہ قرآن و سنت نے جہاد کےلیے جو مادی اعتبار سے قوت کو شرط اقرار دیاتھا اپنے جوش اور نا سمجھی میں اس اصول کو نظر انداز کر کے تباہی مول لی گئی ہے۔
موجودہ جہادی تنظیموں کا ایک پر اسرار پہلو:
(6) ان جہادی تنظیموں کا ایک نہایت قابل غور پہلو یہ ہے کہ ان تنظیموں کی بڑی تعداد کی تشکیل ، تنظیم ، سرمایہ اور اسلحہ کی فراہمی سے لے کر جنگی تربیت تک سب کچھ خطرناک و مفسد بین الاقوامی ایجنسیوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ اس مسئلہ کو نزاکت ہر وہ در د مند اور صاحب عقل سمجھ سکتا ہے جو اس کھلی حقیقت سے بے خبر نہ ہو کہ مسلم او رغیر مسلم ملکوں کی حکومتیں عموماً اور اکثر و بیشتر جس قسم کے عناصر کے ہاتھ میں رہتی ہیں، اور حکومتی ایجنسیاں جس قسم، جس قماش اور دینی و ایمانی اعتبار سے جیسی سیرت و نظریات کےحامل لوگوں کےہاتھ میں رہتی ہیں کیا ان لوگوں کی زیر نگرانی اور تعاون سے قائم تنظیمیں وہ مقاصد حاصل کرسکتی ہیں جو جہاد کے مقاصد ہیں؟
افسوس ہماری نادانی اس حد تک پہنچی ہوئی ہے کہ ہم گرگ سےگلہ بانی کی توقع کرلیتےہیں ۔ سی آئی اے او رایم آئی سکس وغیرہ ہی نہیں کیا پاکستان یا سعودی حکومت کی ایجنسی سے بھی جہاد کی توقع کی جاسکتی ہے؟ ایسا وہی کرے گا جو جہاد سے اور اس کے مقاصد سے بالکل ہی نا واقف ہو۔ کیسا مضحکہ خیز یہ واقعہ ہے کہ ایک طرف تو یہ لوگ مغربی حکومتوں کو اسلام کا سب سے بڑا دشمن کہتے ہیں او ر سعودی عرب سے لےکر پاکستان تک مسلم ممالک کی حکومتوں کو منافق اور اسلام دشمن طاقتوں کی ایجنٹ کہتےہیں دوسری طرف انہی کے تعاون سےجہادی تنظیمیں بناتے ہیں!! حیف ان کی نادانی پر!!
داعش کے نام کی جو تنظیم اس وقت سب سے زیادہ نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے، اور جو ایک آندھی بارش اور طوفان کی طرح آئی ہے، دیکھتے ہی دیکھتے اس نے سیریا اور عراق کے کافی بڑے حصے پر قبضہ کرلیا، کیا اتنی بڑی فوج اور اسلحہ امریکہ، سعودی عرب یا دیگر ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے بغیر بن سکتی ہے؟ کیا کسی ملک کے سرمائے اور اسلحے کے بغیر اتنابڑا خطہ فتح ہوسکتا ہے؟ کیوں یہ کھلی حقیقت سمجھ میں نہیں آرہی کہ یہ سب کسی اورکا کھیل ہے؟
ایک اور تباہ کن پہلو:
اس ‘‘جہاد’’ کا یہ قابل تشویش پہلو ہے کہ چونکہ یہ مغربی ممالک کے مقاصد کی تکمیل کرتاہے اس لیے اس کو فروغ دینے میں ان کی خفیہ ایجنسیوں کابھی کافی عمل دخل رہتا ہے۔ صاف شواہد موجود ہیں کہ وہ جان بوجھ کر ان سےاغماض برتتی ہیں ۔ اس طرح کے واقعات کے ذریعے صرف اسرائیلی لابی اور مغرب کے ان انتہا پسند مسلم دشمن عناصر کی مدد ہورہی ہے جو مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کےبڑھے اثرات ختم کرنا چاہ رہے ہیں۔
ان حملوں کے بارے میں ایک بہت چشم کشا پہلو یہ ہے کہ ان سے دنیا بھر میں دینی دعوت اور دینی کاموں کے لیے نہایت مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔ مساجد بند کیے جانے کےمطالبے ہورہے ہیں۔ امریکہ میں صدارتی امیداوار اعلیٰ الاعلان کہہ رہا ہے کہ امریکہ میں مسلمانوں کا داخلہ بند کیا جائے۔ پہلے ایسا ممکن نہیں تھا ۔ یہ سب ان حملوں نے ہی ممکن بنایا ہے۔ جی اسی لیے مغربی خفیہ ایجنسیاں ان کارروائیوں کو ہونے دینا چاہتی ہیں ۔ پہلے یہ پہلو اگر واضح نہیں تھا تو اب کچھ خاص چھپا بھی نہیں ہے۔
ابھی فرانس کے ایک پادری کا جن دو نوجوانوں نے قتل کیا ان کےبارے میں خود فرانسیسی پولیس کا اعتراف ہے کہ ہم جانتے تھے کہ یہ دونوں داعش کے رابطے میں تھے، سیریا جانے کی کوشش کرچکے تھے ۔ ترکی نے ان کو ڈپورٹ کیا تھا، او ریہی نہیں ان کے ہاتھ میں وہ الکٹرانک ٹیگ باندھ دیا گیا تھا جس سے ان کی نقل و حرکت ریکارڈ ہوتی رہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر انہوں نے ان کو یہ سب کیوں کرنے دیا؟؟
یعنی ان نوجوانوں کو ایسا کام جان بوجھ کر کرنے دیا گیا۔ اس ‘‘جہاد’’ کا یہ قابل تشویش پہلو ہے کہ چونکہ یہ مغربی ممالک کے مقاصد کی تکمیل کرتا ہے اس لیے اس کو فروغ دینے میں ان کی خفیہ ایجنسیوں کا بھی کافی عمل دخل رہتا ہے۔
اور سنیے: امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کےمطابق برسلز ،بلجیم میں گزشتہ 22 مارچ کو ایر پورٹ او رمیٹرو ٹرین پرجو حملے ہوئے جس میں 32 افراد مارے گئے او ربہت سے زخمی ہوئے ، فوراً ہی داعش نے ذمےداری لے لی تھی، ان حملوں کےاگلے ہی دن ترک صدر رجب اردوغان نےکہا کہ حملہ آور کو ہم نےسیرن بارڈر پر ( غازی عین تاب) کے پاس سے گرفتار کیا تھا اور اس انتباہ کے ساتھ نیدر لینڈ کےحوالہ کیا تھا کہ یہ ایک غیر ملکی لڑاکو (Foreign Fighter) اور داعش کا آدمی ہے ۔ مگر نیدر لینڈ نےاس کو چھوڑ دیا۔ پھر ترکی نے بلجیم کو بھی خبر کردیا تھا ۔ اب بتائے اس کو صرف سیکوریٹی کی کمزوری ( Security Laps) کہا جائے گا جان بوجھ کر حملہ ہونے دینا، تاکہ ان کی آڑ میں مغرب سےاسلام کو دیش نکالا دینا آسان ہو۔
یہ واقعہ ہے کےعلماء او رمسلمانوں کے مخلص قائدین اگر چہ اس دور کی ان جہادی تحریکوں کو مضر سمجھ رہےہیں مگر اس کے نقصانات سےآگاہ کرنے کے لیے جیسی پر زور کوششیں ہونی چاہییں وہ نہیں ہو رہیں ۔ اس کا ایک سبب یقیناً یہ ہے کہ مسلمانوں کے یہ علماء و قائدین حیران ہیں کہ مشتعل جذبات کوکیسے سنبھالا جائے جب مسلمانوں کے سامنے دنیابھر میں امن و عافیت کے تمام راستے مسدود کیے جارہے ہیں ۔ مگر اس جہادی تجربے نے حالات کو جس طرح ابتر اور پیچیدہ کیا ہے، اور ظلم و استبداد کی طاقتوں کو جتنا کھیل کھیلنے کا موقع دیا ہے اس کے پیش نظر ضروری ہے کہ اپنے لوگوں کو اس تباہی سے روکنے کی تاحد ممکن کوشش کی جائے ۔ان جہادی تنظیموں او ران کے اعمال کے بارے میں تذبذب او رگومگو کی کیفیت نے ہی اس کاموقع فراہم کیا ہے کہ نوجوان گمراہ ہوں ۔ یہ عاجز ایک عرصے سے (اپنی کتاب ‘‘جہاد کیا ہے؟’’ کی تصنیف کےبعد سے) علماء کو اس مسئلے کی اور خطرناکی کی طرف متوجہ اور نوجوانوں کو غلط راہ سے روکنے کی اپیل کرتا آیا ہے۔ آج پھر عرض کرتاہے کہ اب جذبات کی رعایت کرنا دین و ملت کےلیے تباہ کن ہوگا۔ تلخ حقائق کو تسلیم کرنے کی دعوت دیجئے اور اگراس راہ میں اللہ کی خاطر اپنی مقبولیت کی بھی قربانی دینی پر ے تو اللہ کی رضا اور اجر آخرت کی خاطر ایسا بھی کیجئے ۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر حالات کی تبدیلی کےلیے یہ راستہ نہیں ہے تو پھر کیا ہے؟ اس کے لیے اگلی مجلس کا انتظار کیجئے ، اللہ کی توفیق سے یہ بندہ اس سلسلے میں بھی کچھ عرض کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
20 اگست، 2016 بشکریہ: روز نامہ جدید خبر ، نئی دہلی
URL: