مولانا وحیدالدین خان
31جنوری، 2013
(انگریزی سے ترجمہ ، نیو ایج اسلام)
ان سرگرمیوں کے خلاف ہمیشہ ایک شور بپا رہتا ہے جنہیں مسلمان اسلام کی توہین محسوس کرتے ہیں۔ ایک حالیہ مثال جنوبی ہندوستانی فلم وشوروپم ہے۔ اس طرح کے رویے اسلام کے نام پر اسلام کی منفی تصویر کشی کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں اس لئے کہ اس کا اسلامی صحیفوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
نام نہاد توہین آمیز سرگرمی کوئی حالیہ رجحان نہیں ہے۔ یہ نبوی دور میں اور مابعد دور نبوت بہت عام تھا جسے اسلام کا سنہرا دورسمجھا جاتا ہے ۔ اس رجحان پر قرآن یا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا رد عمل کیا تھا ؟
قرآن و سنت یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کا رد عمل انتہائی مثبت تھا ۔ ایسی چیزوں کی مذمت کے بجائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اپنے ساتھ پیش آنے والے ماجرے سے ایک موقع کے طور پر فائدہ اٹھایا ہے۔ قرآنی کی ایک آیت اس کی آگہی دیتی ہے: ‘‘ (اے پیغمبر) لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤ۔ (16:125) ’’
اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو تنازعہ سے ممکنہ حد تک بہترین انداز میں نمٹنا ضروری ہے ۔ اور وہ منفی طریقہ کے بجائے ایک مثبت رد عمل کا اظہار کرنا ہے ۔ ایک اور آیت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اگر مسلمان اس راستے کی پیروی کریں تو وہ یہ دیکھیں گے کہ جو چیز بظاہر ان کے لئے نقصان دہ تھی فائدہ مند ہوگئی "اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی۔ تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے"(41:34) ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تنازعہ کو دشمنی کے ایک اظہار کے طور پر اختیار نہ کریں، بلکہ اسے ایک غلط فہمی کے طور پر لیں اور اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کریں، اور متعلقہ شخص اپنی رائے کی اصلاح کرے گا ۔ اس طرح، ایک تنازعہ ایک مثبت بحث میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔
اس طرح کی ثقافت کو صرف اسی وقت برقرار رکھا جا سکتا ہے جب اظہار رائے کی آزادی حاصل ہو ۔ اسلام معقول مباحثے میں یقین رکھتا ہے اس لئے کہ یہ وضاحت اور اتفاق رائے کی طرف لے جاتا ہے ۔ قرآن مسلمانوں کو اسلام کے خلاف بولنے سے دوسروں کو روکنے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اس کی بجائے، مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ایسا کوئی بیان نہ دیں جو دوسروں کو تکلیف کا باعث ہو : "اور جن لوگوں کو یہ مشرک خدا کے سوا پکارتے ہیں ان کو برا نہ کہنا کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بے سمجھے برا (نہ) کہہ بیٹھیں۔"(6:108)۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ خود مسلمانوں کو اپنے اور دوسروں کے درمیان حالات کو معمول برقرار رکھنے کی ذمہ داری لینی چاہئے ۔ اور اگر کوئی بھی تنازعہ پیدا ہوتا ہے تو مسلمانوں کو اس سے عقلمندی کے ساتھ نمٹنا ضروری ہے، اور وہ یہ ہے کہ انہیں باتوں کو بھڑکانے کے بجائے اسے ختم کرنا چاہئے ۔
اظہار رائے کی آزادی کوئی بری شئی نہیں ہے، یہ انسانی ترقی کے لیے مفید ہے۔ قرآن کے مطابق، خود خدا نے ایک مثال قائم کی ہے۔ خدا نے آدم کی تخلیق کے وقت فرشتوں کو ان کے اختلاف رائے کا اظہار کرنے کی اجازت دی (2:30) ۔
اظہار رائے کی آزادی کے لئے قرآنی اصطلاح ‘شوری’ (42:38) ہے۔ شوری کا لفظی مطلب مشاورت ہے دوسرے الفاظ میں یہ بحث و مباحثے کی ثقافت ہے ۔ اور یہ تنازعہ کو ایک بحث کے عنوان کے طور پر لینا ہے ۔ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم )کی عام عادت تھی۔ وہ ہمیشہ کسی بھی قسم کے تنازعہ کو ایک موضوع بحث کے طور پر لیتے تھے اور اسے معقول طریقے سے دفع کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔
اظہار رائے کی آزادی کی اجازت پوری اسلامی تاریخ میں دی گئی ہے۔ اسے کبھی بھی ممنوع نہیں سمجھا گیا ۔ اظہار رائے کی آزادی کی ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جو دانشورانہ ترقی کے لئے راہیں ہموار کرتی ہیں ۔ قاضی ابو یوسف نے اپنی کتاب ‘ کتاب الخراج ’ میں کئی ایسے مسائل کا حوالہ پیش کیا ہے جو مسلمانوں اور ان کے خلیفہ کے درمیان متنازعہ فیہ تھے ۔ خلیفہ نے بحث و مباحثے کی مذمت نہیں کی۔ خلیفہ نے ہمیشہ لوگوں کو اپنے اختلافات کا بر ملا اظہار کرنے کے لئے مدعو کیا ، اور بعض اوقات تو مباحثے اس وقت تک چلتے رہے جب تک کہ معاملہ حل نہیں کر لیا گیا ۔
اظہار رائے کی آزادی دونوں اطراف کے لئے مفید ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کو منسوخ کر نا دانشورانہ ترقی کو منسوخ کرنے کے مترادف ہے۔ یہ نہ صرف دوسروں کی بلکہ خود مسلمانوں کی دانشورانہ ترقی کی راہیں مسدود کر دیگا ۔
ماخذ:
http://timesofindia.speakingtree.in/spiritual-articles/science-of-spirituality/vishwaroopam-and-freedom-of-expression
URL for English article:
https://newageislam.com/current-affairs/kamal-hassan’s-vishwaroopam-freedom-expression/d/10218
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/kamal-hassan’s-vishwaroopam-freedom-expression/d/12845