New Age Islam
Tue Jan 21 2025, 09:01 PM

Urdu Section ( 13 Sept 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Violence Is Not an Option تشدد کوئی راستہ نہیں ہے

 

 

مولانا وحیدالدین خان

10 ستمبر 2013

ایک روایت میں حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہ ) نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ کے عام طرز عمل کے بارے میں اس طرح ذکر کیا ہے  : " جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دو راستو ں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کی ضرورت پیش آئی انہوں نے  ہمیشہ سخت کے بجائے  آسان راستہ  منتخب کیا ۔" (بخاری ) اب یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی کہ  امن کا راستہ سب سے آسان راستہ ہے اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  ہمیشہ امن کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی ۔ انہوں نے کبھی بھی جنگ منتخب نہیں کیا ۔

 جب میں نبی صلی اللہ علیہ کی زندگی پر غور کرتا ہوں تو میں یہ پاتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جارحانہ جنگ کا کوئی سوال ہی نہیں تھا ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں اپنے وسیع مطالعہ میں، میں نے کوئی بھی واقعہ ایسا نہیں پایا جب نبی صلی اللہ علیہ نے جارحانہ جنگ کا انتخاب کیا  ہو ۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق جائز تشدد جیسی کسی چیز کا وجود نہیں ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجبوری کے علاوہ کبھی  بھی  خود کو جنگ میں مصروف نہیں کیا ۔ اس کے علاوہ اس طرح کی جنگوں میں ان کی شمولیت بہت محدود تھی ۔ میری سمجھ  کے مطابق، دفاعی جنگ اور لازمی جنگ کے درمیان ایک فرق ہے۔ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے  دفاع جنگ میں مشغول ہونے کے لئے کوئی  عذر نہیں تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ تشدد سے بچنے کی کوشش کی ہے ۔ میں نے اپنی  کتاب(The Prophet of Peace) ‘پیغمبر امن و آتشی ’ میں ان مواقع کی مثالیں پیش کی  ہیں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  جنگ سے بچنے کی کوشش کی ہے ۔ چند ایسے مواقع ہیں جب انہوں نے مجبوراً ایک محدود جنگ کا انتخاب کرنا ۔ ایسی ہی ایک مثال غزوہ حنین  ہے۔

جن جنگوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم شامل رہے ان کی مدت  صرف ایک دن ہے  ۔ یہ حقیقت  ہے کہ غزوہ خیبر پچیس دن تک جاری رہا ۔ لیکن وہ ایک غزوہ (جنگ) نہیں تھا بلکہ ایک محاصرہ تھا۔ یہ سچ ہے کہ نظاہر قرآن کی کچھ آیات نے دفاعی جنگ کو قانونی جواز فراہم کیا  ہے ۔ لیکن وہ  مکمل طور پر لفظ کے عارضی معنوں میں ہیں ۔ ایک ایسے  وقت میں جب قبائلی ثقافت عرب میں پھیلی ہوئی  تھی ۔ خدا تعالی نے  قبائلی ثقافت کا خاتمہ کرنا چاہا۔ لہذا، ایک عارضی مدت کے لئے قرآن نے کچھ محدود قسم کی دفاعی جنگ کی اجازت دی۔ حقیقی معنوں میں وہ دفاعی نہیں بلکہ لازمی جنگیں تھی ۔ اس کے بعد خدا نے ایک انقلاب پیدا کرنے  کی کوشش کی جو کہ قبائلی دور  اور دیگر ایسی تمام  ثقافتوں کا خاتمہ کردے جو  تشدد کی اجازت دیتی ہیں ۔ آج ہم امن کے ایک ایسے دور  میں رہ رہے ہیں جس کا تصور قرآن نے پیش کیا ہے ۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کو کسی بھی جنگ میں حصہ لینے یا تشدد میں مشغول ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ مکمل آزادی اور تمام مواقع سے  لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔ ان کے انسانی حقوق محفوظ ہیں، اور جہاں تک سیاست کا تعلق ہے وہ جمہوریت کے دور  میں رہ رہے ہیں ۔ ان تمام عوامل نے جنگ اور تشدد کو فرسودہ بنا دیا ہے۔ آج ہم مسلم ممالک میں جو نام نہاد جہاد دیکھ رہے ہیں وہ جہاد نہیں ہے، بلکہ اسے  جہاد مخالف کہا جا سکتا ہے ۔ ان متشدد سرگرمیوں کے لئے کوئی حقیقی جواز نہیں ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دفاع لازمی تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی جنگ میں مصروف ہوئے  لیکن وہ ان کے  ذریعہ اختیار کردہ نہیں تھے ۔ ایسے تمام مواقع پر ان کی اولین ترجیح  مذاکرات یا کسی اور حکمت عملی کے ذریعہ جنگ سے بچنا تھی ۔ اس کے بعد انہوں نے جنگ کو محدود کرنے کی کوشش کی۔ اس پالیسی کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ کے دور حیات میں کوئی  مکمل جنگ نہیں ہوئی۔ اس وقت تمام جنگیں جھڑپ تھیں  اور لفظ کے حقیقی معنوں میں وہ جنگیں  نہیں تھیں ۔ اب، موجودہ دور میں ہمارے پاس  امن کا ایک قابل اعتماد راستہ ہے اور وہ  تنازعات کو  اقوام متحدہ کے  حوالے  کرنا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اقوام متحدہ کی طرح  ایسی کوئی تنظیم نہیں تھی  لہٰذا  کسی کے پاس بھی اپنے طور پر فیصلے لینے  کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔

قرآن مجید کی  ایک آیت میں ہے‘‘ الصلح خیر’’ ( 4:128 )۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امن سب سے بہترین راستہ ہے  ۔ اس آیت کے مطابق، خود کا دفاع کوئی راستہ نہیں ہے۔ جنگ میں صرف لازمی شراکت ہی جائز ہے وہ بھی اس شرط کے ساتھ  کہ تمام کوششیں امن قائم کرنے اور ناکام مصالحت کو کامیاب بنانے کے لئے ہو ں گی ۔

میرے تجربے کے مطابق  یکطرفہ حملے جیسی  کوئی چیز نہیں ہے ۔ تمام حملے کچھ اشتعال انگیزی کے بعد وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اگر  آپ  دوسروں کو برانگیختہ  کرنے  سے اپنے آپ کو محفوظ کر لیں تو پھر کوئی حملہ واقع ہی  نہیں ہوگا ۔ لیکن بہت  شاذ ونادر  صورتوں  میں غیر مشتعل  حملے ہوتے ہیں ، اگر کبھی ایسا ہو تو آپ کے پاس دو راستے ہوتے ہیں پہلا راستہ  بہت  برا  ہے اور دوسرا کم برا ۔ مجھے لگتا ہے  کہ دفاع کا انتخاب کرنا بدتریں راستے کا انتخاب کرنا  ہے  اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا کم برے راستے کا  انتخاب کرنا ہے ۔ ایسے حالات میں، سوال یہ نہیں پیدا ہوتا کہ آپ کو  دفاع کا انتخاب کیوں نہیں کرنا چاہئے۔ بلکہ مسئلہ یہ  ہے کہ دفاع کے نام پر آپ ایک عظیم تر برائی کا انتخاب کر رہے ہیں ۔ اور جب بدترین اور برے راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی نوبت آپہنچے تو ایسے راستے کا انتخاب کرنا بہتر ہے جو کم برا ہو ۔

حملے کے وقت میں عام طور پر لوگوں کو ایک ہی راستہ نظر آتا ہے اور وہ دفاع کا راستہ ہے ۔ لیکن در حقیقت ایسی  صورت حال میں ایک اور راستہ ہوتا ہے اور وہ معاہدے اور مفاہمت کا راستہ ہے ۔ اس طرح کے حالات میں مفاہمت کر نے  کا مطلب وقت حاصل کرنے کی پالیسی کو اختیا کرنا ہے ۔ معاہدہ کرلینے کے بعد آپ کو اپنی حکمت عملی کی منصوبہ بندی کرنے کا  دوبارہ موقع حاصل ہوتا ہے۔ پیغمبر اسلام کا یہ طرز عمل  ہم پر  یہ ظاہر کرتا ہےکہ اس طرح کی پالیسیاں ہمیشہ نئی  کامیابیوں  کی راہیں کھولتی ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی  ظاہری  حیات میں صلح حدیبیہ اسی حکمت پر مبنی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  دوسرے فریق  کے تمام شرائط کو قبول کرتے  ہوئے مفاہمت اور معاہدے کا  انتخاب کیا ۔ ظاہری طور پر یہ گھٹنے ٹیک دینے  کا معاملہ تھا، لیکن در اصل یہ وقت  حاصل کرنے کی پالیسی کا  انتخاب کرنا تھا ۔ اور اس طرح اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کے بعد، نبی صلی اللہ علیہ نے اپنی توانائیوں کو پہچاننے اور پرامن دعوت کی دوبارہ منصوبہ بندی کرنے کا موقع حاصل کیا جس کا نتیجہ بہت بڑی کامیابی کی شکل میں ظاہر ہوا ۔

جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ قرآن مجید میں الصلح  خیر ( 4:128 ) کے الفاظ میں ایک رہنما اصول ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نتیجہ کے لحاظ سے امن سب سے بہتر ہے ۔ میرے مطالعہ کے مطابق، اسلامی حکمت عملی ہمیشہ سے نتیجہ خیز رہی ہے ۔ اگر تجربات سے یہ ظاہر  ہوتا ہو کہ  دفاعی جنگ بھی فائدے سے زیادہ نقصان کا باعث ہوگی، تو انتہائی مجبور کن حالات کو چھوڑ کر،  دفاعی جنگ کے بجائے  مفاہمت کا راستہ اخیار کرنا بہتر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی  ظاہری حیات میں جنگ حنین اس کی ایک مثال تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)کے صحابہ کے لئے ایک آخری  راستہ یہی تھا۔ اگر ایسی کوئی مجبوری نہ ہو  تو دفاع اختیار کرنے کے بجائے انسان کو  مفاہمت اور مصالحت کا انتخاب کرنا چاہئے۔

صحیح بخاری میں ایک حدیث اس طرح ہے " دشمن کے ساتھ محاذ آرائی کی  خواہش مت رکھو ۔ ہمیشہ خدا سے امن کی دعا کرو۔ " جس  کا مطلب یہ ہے کہ تشدد اور جنگ کوئی  راستہ  نہیں ہے ۔ آپ کو کسی بھی قیمت پر امن قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ صرف ایک عارضی مدت تک جنگ کے لئے  مجبور ہونا  ہی ایک استثنیٰ ہے۔

(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)

URL for English article: https://newageislam.com/islam-spiritualism/violence-option/d/13434

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/violence-option-/d/13473

 

Loading..

Loading..