مولانا وحید الدین خان
2 فروری، 2015
مروی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس دنیا میں لوگوں کے صرف چند حقوق ہیں-رہنے کے لیے ایک
گھر، جسم ڈھکنے کے لیے کپڑے کا ایک ٹکڑا، روٹی کا ایک ٹکڑا اور پانی۔ (ترمذی)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ
وسلم کی اس حدیث سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ ضروریات
زندگی کا تعین کرنے کی کسوٹی در اصل ہے کیا، اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مناسب
طور پر زندگی گزارنے کے لئے ہمیں کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر آپ
اس معیار کی پاسداری نہیں کرتے اور اس کے بجائے آپ کو یہ لگتا ہے کہ زندگی گزارنے
کے لئے آپ کو ایک محل کی ضرورت تو آپ ایک چھوٹا سے گھر بلکہ ایک متناسب گھر سے بھی
کبھی مطمئن نہیں ہوں گے۔ آپ ایک محل حاصل کرنے کے لیے پاگل ہو جائیں گے، کیوں کہ آپ
کے اندر یہ سوچ گھر کر چکی ہے کہ جب تک آپ
ایک محل نہیں حاصل کر لیتےا ٓپ بے گھر ہیں۔
افراد کی طرح، یہی حال پوری
امت مسلمہ کا ہے۔ اگر کوئی کمیونٹی خود سے یہ سوچنا شروع کر دے کہ اس کی اجتماعی زندگی
کے لئے سیاسی طاقت حاصل کرنا بالکل ضروری ہے تو یہ اس وقت تک مطمئن نہیں ہو گی جب تک
اسے سیاسی غلبے حاصل نہ ہو جائے۔ یہاں تک کہ جو کمیونٹی سیاسی غلبے کے بغیر بھی کئی
سہولیات تک رسائی حاصل کر سکتی ہے اور ان کا لطف اٹھا سکتئ ہے اس کمیونٹی کے ارکان
وہ سیاسی غلبہ نہ حاصل کر پانے کی وجہ وسے کبیدہ خاطر محسوس کرتے ہیں۔ وہ اپنی اس خود
ساختہ کسوٹی کے حصول کے لیے تشدد کا بھی راستہ اختیار کر سکتے ہیں، اگر چہ اس کا نتیجہ خود ان کی مزید تباہی کے سوا کچھ نہیں
ہو گا۔
آج مسلمان عمومی طور پر اسی
محرومی کے باطل احساس کا شکار ہیں۔ اور ایسا اس حقیقت کے باوجود ہے کہ وہ آسانی سے
کئی سہولیات اور مواقع تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور ان سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں
جس کے لیے انہیں خدا کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ مسلمان آج جس حالت میں خود کو پاتے ہیں اس کا واحد سبب خود انہیں کا بنایا
ہوا اسلام کا باطل پیمانہ ہے۔ اس خود ساختہ پیمانے کے مطابق انہیں یہ لگتا ہے کہ اسلام
تبھی زندہ رہے گا جب مسلمانوں کو سیاسی غلبہ حاصل ہو جائے ورنہ نہیں۔ اپنی اس غلط فہمی
میں وہ آج اس حد تک چلے گئے ہیں کہ 50 سے زائد ایسے ممالک ہیں جہاں مسلمانوں کو سیاسی
غلبے حاصل ہے لیکن پھر بھی وہ اس واضح حقیقت سے بے خبر ہیں۔
URL
for English article:
URL
for this article: