New Age Islam
Tue Dec 03 2024, 02:00 AM

Urdu Section ( 11 Oct 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Strength of Peace امن کی طاقت

 

مولانا وحید الدین خان

03 اکتوبر 2013

صحیح مسلم میں ایک حدیث مروی ہے کہ  خدا نرمی اور  مہربانی کے بدلے میں ہمیں وہ نعمت  عطا کرتا ہے جو سختی اور ترش روئی کے  بدلے میں نہیں عطا کرتا ۔ یہ حدیث اس بات کی طرف  اشارہ کرتی ہے کہ پرامن طریقہ  اختیار کرنا  پر تشدد راستہ منتخب کرنے سے  افضل ہے ۔

اس حدیث کا پیغام پراسرار نہیں ہے۔ بلکہ یہ مبین و مبرہن  ہے اور  زندگی کی ایک مشہور و  معروف حقیقت ہے ۔ تشدد اور جنگ صرف مخالفین کے درمیان نفرت میں شدت ہی پیدا کرتےہیں ۔ یہ بہت سارے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے علاوہ  بڑے پیمانے  پر وسائل کی تباہی کا سبب بنتے ہیں  ۔ اس سے پورہ معاشرہ منفی سوچ کا شکار ہو جاتا ہے ۔ ظاہر ہے ایسے ماحول میں مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کا کوئی امکان باقی نہیں رہ جاتا۔ تشدد اور جنگ سے کوئی مثبت نتیجہ حاصل  نہیں ہو سکتا۔

دوسری طرف امن کے ماحول میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کر سکتے ہیں ۔ دوستی اور محبت فروغ پا سکتی  ہے۔ مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کو فروغ دیا جا سکتا ہے، اور وسائل کا ترقی کو فروغ دینے کے لئے صحیح طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ ایسا ماحول مثبت سوچ کے لئے موزوں ہے۔

تشدد اور جنگ سے ہونے والا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ دستیاب مواقع کو ختم کر سکتے ہیں ۔ دوسری طرف، امن کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ انتہائی  ممکنہ حد تک مواقع کے دروازے  کھولتا ہے ۔ جنگ ہمیشہ اضافی تباہی پیدا کرتی ہے جبکہ امن لامحالہ تمام لوگوں  کے لئے اضافی فوائد کا سبب  بنتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اسلام کو  مناسب طریقے سے سمجھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام  انتہائی ممکنہ حد تک تصادم اور جنگ سے گریز کرنے کی تعلیم دیتا  ہے ، اور ہر قیمت پر امن کو قائم کرنے اور برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے  ۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ

قرآن مجید میں ایسی  کچھ آیات ہیں جن کے بارے میں کافی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ۔ مثال کے طور پر وہ آیت  جس کا حکم  یہ ہے کہ  ‘ انہیں  جہاں کہیں بھی پاؤ  قتل کرو ’ (2:191) ۔ اس طرح کی آیتوں  کی بنیاد پر کچھ لوگوں نے اسلام کے بارے میں یہ تاثر پیدا کر دیا ہے کہ  اسلام جنگ کا مذہب ہے ۔ تاہم یہ ایک بے بنیاد بات ہے۔ اس طرح کی آیات کے انطباقات  محدود ہیں  اور ان کا تعلق صرف ان لوگوں سے ہے  جو مسلمانوں پر  یک طرفہ حملہ کر تے ہیں ۔ یہ ان عام اسلامی احکام میں سے نہیں ہے  کہ جن کا انطباق تمام غیر مسلموں پر کیا جائے ۔

اگر  اس حقیقت کو ہم ذہن میں رکھیں  کہ قرآن مجید ایک کتاب کی شکل میں یکلخت ایک ساتھ نازل نہیں کیا گیا تھا، تو یہ نکتہ بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے ۔ قرآن مجید 23 سال کے عرصے میں قسط وار طریقے سے  نازل کیا گیا ہے ۔ 23 سال کی اس مدت کو اس وقت کے  حالات کے مطابق تقسیم کیا جائے  تو ان میں سے تقریباً 20 سال امن کے سال تھے اور جنگ کا زمانہ صرف  3  سال کی مدت میں پھیلا ہوا ہے  ۔ جنگ کے بارے میں قرآنی آیات صرف 3 سال کی مدت میں نازل کی گئی تھیں۔ ان آیات کے علاوہ، 20 سال کے عرصے میں جو دیگر آیات نازل کی گئیں ان سب کا تعلق  پرامن تعلیمات مثلاً  خدا کے ذکر، عبادت ، اخلاق اور انصاف وغیرہ سے ہے  ۔

قرآنی احکام کی اس طرح زمرہ بندی کرنا  ایک فطری عمل  ہے۔ اس طرح کی زمرہ بندی دوسرے مذاہب کے صحیفوں کے حوالے سے بھی  کی جا سکتی ہے ۔ مثال کے طور پر ہندو مذہب کی مقدس کتاب ، بھگود گیتا کو ہی دیکھ لیں ۔ گیتا میں بہت سی تعلیمات ایسی ہیں جن کا تعلق حکمت اور اخلاقیات سے ہے۔ اس کے علاوہ گیتا میں جنگ کے بارے میں بھی  بات کی گئی ہے ۔ گیتا میں کرشن نے ارجن کو کہا کہ آگے بڑھو اور جنگ میں حصہ لو ۔یقیناً اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو لوگ گیتا پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ  ہر وقت جنگ لڑتے رہیں گے! دراصل مہاتما گاندھی نے عدم تشدد کا اپنا فلسفہ گیتا سے سے ہی اخذ کیا تھا  ۔ یہ ممکن تھا اس لئے کہ  گیتا میں جنگ کا ذکر صرف ایک استثنائی صورت حال میں ہے، یہ ایک ایسی چیزہے جس کا سہارا صرف غیر معمولی حالات میں لیا جانا چاہئے  ۔ دوسری طرف، گیتا عام حالات میں  امن کے ماحول کا تصور پیش کرتا ہے  اور مہاتما گاندھی نے عدم تشدد کے اپنے  فلسفہ کو فروغ دینے کےلئے اسی سے  تحریک  حاصل کی ہے ۔

بالکل اسی طرح، نئے عہد نامہ (متھو 10:34 ) میں ، حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا کہ  ' یہ مت سوچھو کہ میں زمین پر امن بھیجنے کے لئے آ یا ہوں: میں امن کے بھیجنے کے لئے نہیں بلکہ تلوار کے  لئے آیا ہوں ۔ ان الفاظ سے یہ سمجھنا بالکل غلط ہو گا کہ عیسیٰ مسیح کا مذہب جنگ اور قتل و غارت گری کا مذہب ہے ۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیمات میں اس طرح کے الفاظ صرف ایک استثناء ہیں اور کسی خاص صورت حال سے منسلک ہیں ۔ جہاں تک عام زندگی کا تعلق ہےتو عیسیٰ مسیح نے ہمیشہ محبت اور امن پر زور دیا ہے ۔

بلکل یہی معاملہ  قرآن کے ساتھ ہے  ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو مشرکین نے ان کے خلاف ایک جارحانہ مہم شروع کر دی۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ نے بارہا  ان حملوں کو  مستحکم  صبر کے ذریعہ ٹالنے اور  جنگ و جدال  سے بچنے کی کوشش کی۔ تاہم، بعض صورتوں میں ان حملوں کا جواب دینے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے مواقع پر نبی صلی اللہ علیہ نے دفاعی جنگ کی شکل میں جواب دیا۔ جنگ کے تعلق سے انہیں  حالات کے بارے میں  قرآنی آیات کا نزول ہوا تھا ۔ وہ یقینی طور پر صرف غیر معمولی حالات کے لئے تھے اور نوعیت کے اعتبار سے عارضی تھے۔ یقینی طور پر انہیں ایسے احکامات میں شمار نہیں کیا جانا چاہئے جن کا  انطباق ہر زمانے میں ہو سکتا ہے ۔اسی لئے قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت للعالمین ‘تمام جہانوں کے لئے رحمت’ کا  مرتبہ دیا گیا ہے  ( ( 21:107 ۔

(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)

مولانا وحیدالدین خان نئی دہلی میں سینٹر فار پیس اینڈ اسپریچویلٹی  کے سربراہ ہیں

URL for English article: https://newageislam.com/spiritual-meditations/the-strength-peace/d/13805

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/the-strength-peace-/d/13937

Loading..

Loading..