مولانا وحید الدین خان
5 اگست، 2013
(انگریزی سے ترجمہ ، نیو ایج اسلام)
کسی بھی امت یا مذہبی برادری کے بعد کی زندگی کے مراحل میں، لامحالہ ایک رجحان ظاہر ہوتا ہے اور وہ مذہب کا مختلف طبقوں یا فرقوں میں تقسیم ہونا ہے ۔ قرآن میں لوگوں کو مذہب کے ٹکڑے کرنے اور فرقوں میں تقسیم ہونے کے اس رجحان کا ذکر ہے، ‘سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو اُن کے پاس ہے’(30:32) ۔ اس سلسلے میں اس کے علاوہ خدا کا فرمان یہ ہے:
‘‘اور یہ تمہاری جماعت (حقیقت میں) ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں تو مجھ سے ڈرو، تو پھر آپس میں اپنے کام کو متفرق کرکے جدا جدا کردیا۔ جو چیزیں جس فرقے کے پاس ہے وہ اس سے خوش ہو رہا ہے۔ (23:52-53) ’’
ان سطور کو بہترین طریقے سے ایک دوسری قرآنی آیت کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے: ‘انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ اور مسیح ابن مریم کو الله کے سوا خدا بنا لیا۔ (9:31)’
ان قرآنی آیات سے یہ ظاہر ہوتا کہ کسی م مذہب کا ٹکڑوں میں بنٹ جا نے کا رجحان ایک تاریخی عمل ہے جو ہر مذہبی کمیونٹی کی زندگی میں ہوتا ہے۔ یہ مسلمانوں کے معاملے میں بھی ہوا ۔ اس اصول سے کوئی مستثنی نہیں ہے۔
یہ کیسے اور کیوں ہوتا ہے؟ کسی بھی مذہبی کمیونٹی کے بعد کے زمانے میں مختلف مصلح پیدا ہوتے ہیں۔اپنے مذہب کی ان مصلحوں کی تشریح ان کے حالات سے متاثر ہے ۔ وہ لوگوں کو ان کے ذریعہ تشریح کردہ عقیدے کو قبول کرنے کی دعوت شروع کرتے ہیں ۔ اسی کے مطابق پیروکاروں کا ایک گروپ آہستہ آہستہ ان کے ارد گرد وضع ہونا شروع ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ ان کے پیروکار اپنے ایک مخصوص مکتبۂ فکر کی حمایت میں ایک سخت تعصب کو فروغ دینا شروع کرتے ہیں ۔ وہ یہ یقین کرتے ہیں کہ جو کچھ بھی ان کی جماعت کے رہنماؤں یا بانیان نے کہا ہے لفظ آخری اور حتمی حقیقت ہے ۔ یہ تعصبی ذہن سخت ہونا شروع ہوتا ہے جب تک کہ ہر گروپ ایک الگ فرقے میں تبدیل نہ ہو جائے ۔ ہر فرقے کو اس بات کا پختہ یقین ہو جاتا ہے صرف وہی صحیح ہے اور باقی تمام گمراہ ہیں ۔ یہ وہ تاریخی عمل ہے جس کی طرف قرآن مندرجہ بالا آیات میں اشارہ کرتا ہے ۔
اس کی روشنی میں کوئی یہ کہ سکتا ہے کہ مذہب کو ٹکڑوں میں بانٹناجس کا حوالہ قرآن دیتا ہے کہ یہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جو خدا کے دین کے بجائے ان کے رہنماؤں کے من گھڑت دین پر عمل کرتے ہیں ۔ جب ایسا ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی مذہبی کمیونٹی خدا اور ان کے رسول کا نام ترک کر دیتی ہے ۔ ایسی کمیونٹی کے ارکان خدا اور اس کے نبی کی بات کرنا جاری رکھتے ہیں لیکن در حقیقت وہ ان کے رہنماؤں کے ذریعہ بنائے گئے دین پر عمل کرتے ہیں۔ بظاہر وہ خدا اور اس کے پیغمبر کا نام لیتے ہیں، لیکن یہ صرف ان کے دعوے کے لئے حمایت حاصل کرنے کے لئے ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے حوالہ کی مدد سے ان کا مخصوص فرقہ درست ہے ۔
کسی کمیونٹی کا حریف فرقوں میں تقسیم ہو جانا یقیناً ناپسندیدہ ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ ہ خود کو 'مذہبی' یا 'الہی' کہیں، اس طرح کے فرقے خدا کی فرقہ بندی کی نظر میں مجرم ہیں۔ ان معاملات کا حقیقی مذہبی عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ خدا کی نظر میں وہ اپنے بڑوں کے من گھڑت مذہب کے پیروکار ہیں، اور خدا اور خدا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مذہب نہیں ہے ۔
فرقہ واریت کا یہ رجحان نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے پہلے ماضی میں صرف مذہبی کمیونٹیز کے لئے خاص نہیں تھا ۔ دراصل یہ بعد کی مدت میں ہر مذہبی کمیونٹی کے ساتھ اس وقت ہوتا ہے جب وہ زوال پذیر ہوتی ہے ۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے پیشن گوئی کی ہے کہ یقینی طور ایسا امت مسلمہ کے درمیان بھی ہوگا ۔(سنن ترمذی میں مذکور ) ایک حدیث روایت کے مطابق، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ بنی اسرائیل 72 فرقوں میں تقسیم ہو گئی تھی ، اور میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ ایک کو چھوڑ کر ان میں سے سب جہنم میں جائیں گے ۔ صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا وہ کون لوگ ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو میرے اور میرے اصحاب کی راہ پر ہوں گے ۔
اس رویت میں 73 کی تعداد کا ذکر ایک خاص تعداد کی نشاندہی کرنے کے لئے نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے ایک بہت بڑی تعداد کی طرف اشارہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ روایت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان بڑی تعداد میں فرقے ابھر کر سامنے آئیں گے ۔ اس طرح کے فرقوں کی تعداد 73 سے زیادہ یا کم بھی ہو سکتی ہے۔ اس حدیث کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ تمام '73 ' فرقے جہنم میں جائیں گے اور صرف ایک فرقہ محفوظ ہوگا ۔ خدا کے قانون کے مطابق، نجات ہمیشہ صرف افراد کی ہے کمیونٹیز یا جماعت کی نہیں ۔
ایک واحد 'محفوظ فرقے' یا فرقۂ ناجیہ کے تصور کی بالکل ہی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ مندرجہ بالا میں مذکور نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی حدیث کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ آخرت میں نجات کسی کی فرقہ وارانہ وابستگی کی بنیاد پر نہیں ملے گی ۔ بلکہ مختلف فرقوں کے افراد جو اپنی انفرادی صلاحیت میں خدا کے ذریعہ دکھائے گئے سیدھی راہ پر قائم رہتے ہیں انہیں آخرت میں نجات کا مستحق سمجھا جائے گا۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کسی کمیونٹی کی فرقوں میں تقسیم ہمیشہ اس کمیونٹی کے رہنماؤں سے شروع ہوتی ہے۔ ان حالات سے متأثر ہو کر جس سےان کا سابقہ پڑتا ہے ، وہ رہنما ایسا کچھ کہتے ہیں جو بعد کے زمانے میں مبالغہ اور تعصب کی وجہ بن جاتی ہے جس سے مختلف فرقوں کا جنم ہوتا ہے۔ بعد ازاں، وہ فرقے واضح طور پر ایک علیحدہ کمیونٹی بن جاتے ہیں۔
ایسا بنیادی طور پر دو عوامل کی وجہ سے ہوتا ہے۔ سب سے پہلا وہ ہے جسے ‘تاکید کی تبدیلی ’ قرار دیا جا سکتا ہے۔ دوسری وجہ استدلال میں غلطی ہے، یا جسے اردو میں خطا ٔاجتہادی کہا جاتا ہے۔ میں ان دونوں کی مثالیں میں ماضی اور حال دونوں زمانوں سے پیش کروں گا ۔
صوفی مسلمانوں کی تاریخ میں ‘تاکید کی تبدیلی ’ کی ایک مثال فراہم کی جاتی ہے ۔ بہت سے معروف صوفی اس وقت ظاہر ہوئے جب طاقتور مسلم سلطنتیں قائم کی جا چکی تھیں ۔ صوفیوں نے یہ سمجھا کہ لوگوں کے ذہنوں پر سیاست کا سایہ چھا چکا ہے اس کے برعکس اسلام کا روحانی پہلو ان میں بہت کمزور تھا ۔ اس تناظر میں صوفیواں نے اسلامی روحانی تنوعات یا'دل کے معاملات' پر اتنا زیادہ زور دیا گو کہ وہی سب کچھ ہیں اور سارا اسلام اسی میں ہے۔
ان میں سے کچھ کے متنازعہ طریقوں کو ایک طرف رکھ کرجو ان کے ذریعہ استعمال کیا گیا، صوفیوں کا معاملہ نوعیت کےاعتبار سے ایک 'تاکید کی تبدیلی' تھا ۔ یہ رویہ ایک اسلامی اسکالر کے فرضی کیس کے مشابہ تھا جن کا سامنا جب ایسے لوگوں سے ہوا جن کا یہ ماننا تھا کہ مسح علی الخفین (نماز سے پہلے وضو کرتے ہوئے چمڑے کے موزوں پر مسح کرنا ) مناسب عمل نہیں تھا ، تو اس نے ان لوگوں کے درمیان اس عمل کو مقبول کرنا چایا اور اس کی فرضیت کافتویٰ جاری کر دیا ۔
مذہب کے نام پر صوفیوں کے ذریعہ اس ' تاکید کی تبدیلی ' کے نتیجے میں مسلمانوں کے درمیان ایک خاص باطنی مذہبیت پھیل گئی، اور منطقی سوچ اور حقیقت پسندی تنزلی کاشکار ہو گئی ۔
فرقہ واریت کے قیام کی دوسری وجہ جس کا ذکر ہم نے مندرجہ بالا میں کیا وہ استدلال یا اجتہاد میں غلطی ہے۔ اس کی ایک مثال عباسی دور سے فراہم کی گئی ہے۔ اس وقت، نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے صحابہ کے بارے میں حدیث کی رویات اور کہانیاں جمع کردی گئی تھیں اور کتاب کی شکل میں مرتب کر دی گئیں تھی ۔ لوگ اب یہ جان چکے تھے کہ صحابہ کرام کے درمیان عبادت کے طریقہ کار میں بہت سے معمولی اختلافات تھے ۔ اس سلسلے میں ہدایت حدیث میں فراہم کی گئیں تھیں ، اس لئے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لوگ میرے صحابہ میں سے جن کی بھی اقتداء کریں گے ہدایت پا جائیں گے ۔
اس حدیث کی روایت کے مطابق عبادت کے طریقوں میں معمولی اختلافات تنوعات کے رجحان کی وجہ سے تھے ، اور وہ حقیقت بمقابلہ باطل کا سوال نہیں تھے۔ وہ تمام طریقے یکساں طور پر مناسب تھے۔ لیکن عباسی دور میں فقہاء یا قانونی ماہرین اجتہاد میں مصروف ہوئے اور یہ قرار دیا کہ 'حقیقت مختلف نہیں ہو سکتی ' ۔ اس کے بعدانہو ں نے آپس میں بحث و مباحثہ کیا اور عبادت کا ایک یا دوسرے طریقے کو اپنایا اور یہ فیصلہ کر دیا کہ دیگر طریقوں کو ترک کر دیا جانا چاہیئے ۔ مختلف فقہاء نے عبادت کے اپنے مخصوص طریقوں کے حوالے سے ایسا کیا۔ اس طرح فقہ کے مختلف مکاتب وجود میں آ گئے ۔ بعد میں مبالغہ اور تعصب نے ان مکاتب کو آخرکار فقہ کے علیحدہ مذاہب میں تبدیل کر دیا ۔
عصر حاضر سے فرقہ واریت کو جنم دیتے ہوئے 'تاکید کی تبدیلی' کی ایک مثال پر غور کریں۔ اس کا تعلق گروپ سے ہے جسے عام طور پر تبلیغی جمات کے طور پر جانا جاتا ہے۔ تبلیغی جماعت کے بانی ، مولانا محمد الیاس کاندھلوی (متوفی 1944)، کو یہ احساس ہوا کہ لوگ عام طور اپنی نمازوں سے غفلت برتنے لگے ہیں۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں:
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے ۔
اس صورت حال کا سامنا کرنے کے بعد مولانا محمد الیاس کاندھلوی نے نماز کی اہمیت پر بہت زور دیا۔ انہوں نے لوگوں کو نماز کی ادائیگی کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے ایک بھرپور تحریک کا آغاز کیا۔ لیکن بعد میں یہ تحریک مبالغہ اور تعصب کا شکار ہو گئی اس کے پیروکاروں نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ مذہب صرف مساجد میں نماز ادا کرنے اور جگہ جگہ سفر کرنے کا ہی نام ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی دعوت اور اسلامی مشن انسان پر مرکوز ہے، اس طرح مساجد پر نہیں ۔
اجتہادی خطا کی ایک مثال عصر حاصر میں جماعت اسلامی کے ذریعہ فراہم کی جاتی ہےجس کی بنیاد مولانا سید ابوالعلی مودودی (متوفی 1979 ء) کے نظریات پر ہے ۔ مولانا مودودی ایک ایسے وقت میں پیدا ہوئے جب مختلف سیاسی تحریکیں —کمیونسٹ تحریکیں، جمہوری تحریکیں، قومی آزادی کی تحریکیں وغیرہ دنیا کے مختلف حصوں میں طاقتور تھیں ۔ اس وقت، عام طور پر لوگ سیاست کو ہی سب سے اہم چیز سمجھتے تھے ۔ مولانا موددوی ان حالات سے متاثر تھے ۔ لہٰذا انہوں نے اسلام کو اس طرح پیش کیا گو کہ وہ ایک سیاسی نظام ہے اور اس کا مقصد دنیا بھر میں اس کی حکمرانی قائم کرنا ہے ۔ اس تفہیم کے مطابق، انہوں نے قرآن کی ایک سیاسی تشریح مرتب کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یا ان کے معمولات کو سیاسی لحاظ سے پیش کیا۔ یہ واضح طور پر خطأاجتہاد کی ایک مثال تھی اس لئے کہ اسلام ایک الہی تحریک ہے کوئی سیاسی تحریک نہیں ، اس موضوع پر میری ایک کتاب تعبیر کی غلطی شائع ہو چکی ہے اور خطأ فی التفسیر کے نام سے اس کا عربی میں ترجمہ بھی شائع کیا جا چکا ہے۔
مسئلہ کا حل
فرقہ واریت کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے، ہر جماعت کو مسلسل اپنا احتساب کرتے رہنا ضروری ہے۔ انہیں مسلسل اپنے رہمناؤں اور بانیان کے نظریات کی تحقیق کرتے رہنی چاہئے ۔ انہیں ان کے رہنماؤں کے معمولات اور تعلیمات کو خدا کی کتاب قرآن، نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت کی روشنی میں پرکھنا چاہئے۔ انہیں اس طرح کے تجزیہ میں مکمل طور پر ایک کھلے ذہن کے ساتھ مشغول ہونا لازمی ہے۔ اس خود احتسابی سے کسی بھی مذہبی تحریک یا جماعت کو مستثنی نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ سچائی کو واضح کرنے اور ہر جماعت کو ایک بار پھر خدا کے دین کو دریافت کرنے اور اس پر اس کا قیام کرنے کے قابل ہونے میں معاون ہوگا ۔
مخصوص حالات سے متأثر ہو کر ایک مذہبی عالم یا رہنما کی باتوں پر اس کے ابتدائی مراحل میں غور کرنے فرقہ واریت کے مشابہ نہیں سمجھا جا سکتا ۔ بلکہ یہ اس کی سوچ یا اس کے ذاتی اجتہاد کی عکاسی کرتا ہے ۔ لیکن جب اس شخص کے ارد گرد ایک جماعت ابھرتی ہے اور وہ جماعت متعصب ذہنیت سے متأثر ہو کے ایک مخصوص فرقہ کے طور پر عیاںہو جاتی ہو تو فرقوں میں مذہب کی تقسیم کا مسئلہ شروع ہوجا تا ہے۔ یہ مسئلہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہے یہاں تک کہ شدید ہو جاتا ہے اور اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ دانستہ یا نادانستہ طور لوگ یہ سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ صرف یہی ایک حق ہے اور دیگر دوسری تمام جماعتیں غلط یا گمراہ ہیں۔ اسے عربی زبان میں تحزب یا ‘گروپ بندی ’ کہا جاتا ہے ، جس کا قرآن (23:53) حوالہ دیتا ہے ۔جو اس تحزب کی نفسیات کا شکار ہو تے ہیں وہ خود کی کوئی بھی تنقید سننے سے انکار کرتے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس حد تک جائز ہو سکتا ہے ۔
مذہبی فرقہ بندی یقینی طور پر ایک مسئلہ ہے۔ تاہم یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے کبھی حل نہ کیا جا سکے ۔ حالات کے اثر کے تحت، یہ ہر مذہبی کمیونٹی کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن، اس کے ساتھ ہی ساتھ، اس مسئلہ کا حل بھی بلا شک وشبہ موجودہ ہے اور وہ تجزیہ ہے۔ خود کے بارے میں ایک انفرادی تجزیہ ، تجزیہ کی ایک قسم ہے۔ اس کے علاوہ قرآن ہمیں 'اجتماعی احتساب ' بھی سکھاتا ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل قرآنی آیت سے اس بات کی طرف اشارہ ہے:
‘‘ اور مومنو! سب خدا کے آگے توبہ کرو تاکہ فلاح پاؤ۔ (24:31)’’
اس آیت سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ کسی کے حالات کی اصلاح کے معنوں میں کامیابی اجتماعی توبہ سے منسلک ہے ۔ اس سلسلے میں مسلم کمیونٹی کے اداروں کو کھلے عام اور واضح طور پر فرقہ وارانہ دشمنی کی مذمت کرنی چاہیے؛ مسلم دارالقضاۃ کو اس سے متعلقہ فتوے جاری کرنے چاہئے ، اور مسلم ذرائع ابلاغ کو اس مسئلے کے بارے میں مضامین شائع کرنے چاہئے۔ اس طرح اجتماعی کوششوں کے ذریعہ اجتماعی توبہ کی جا سکتی ہے جس کے بارے میں قرآن کا فرمان ہے ۔
یہ طریقہ فرقہ واریت کے رجحان کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
URL for English article
https://newageislam.com/islam-sectarianism/the-sectarian-phenomenon-religion/d/12898
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-sectarian-phenomenon-religion-/d/13066