مولانا وحیدالدین خان
(انگریزی سے ترجمہ ، نیو ایج اسلام)
امن کی طاقت تشدد کی طاقت سے عظیم تر ہے۔ پرامن طریقۂ کار، پر تشدد طریقۂ کار سے کہیں زیادہ مؤثر ہے۔ تعمیری مقاصد، صرف پرامن طریقے کے ذریعے حاصل کئے جا سکتے ہیں، جبکہ، متشدد طریقے تباہی اور بربادی کی طرف لے جاتے ہیں ۔
میں ماضی قریب کی ہندوستانی تاریخ سے ایک مثال دینا چاہوں گا۔ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد 1857 میں شروع ہوئی اور اس دور کے رہنماؤں نے پر تشدد طریقوں سے آزادی حاصل کرنی چاہی ۔ یہ رجحان 1919 ء تک جاری رہا، لیکن ہدف حاصل نہیں ہوا ۔
اس کے بعد گاندھی جی نے 1919 میں آزادی کی جدوجہد میں قدم رکھا ۔ صورت حال کا مطالعہ کرنے کے بعد انہوں نے جد و جہد کے طریقہ کار کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا وہ اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھیں گے ، لیکن ان کاطریقۂ کار بالکل پرامن ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ رہنماؤں نے برطانوی حکومت کے خلاف احتجاج میں تشدد کے "بم" کا استعمال کیا تھا، لیکن وہ اب اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے امن کے "بم" کا استعمال کریں گے ۔
مہاتما گاندھی کے اس اعلان نے پورے منظر نامے کو تبدیل کر دیا، اس نے پوری برطانوی سلطنت کی مشینری کو مفلوج کر دیا ۔ اس اعلان سے حیرت زدہ ہو کر ، ایک برطانوی کلکٹر نے مندرجہ ذیل الفاظ میں اپنی سیکریٹریٹ کو پیغام بھیجا: " ہدایات ارسال کریں کہ عدم تشدد کے حامی ایک شیر کو کس طرح مارا جائے ۔"
پرتشدد طریقۂ کار اپنے مخالفین کو پرتشدد جوابی کارروائی کے لئے جواز فراہم کرتا ہے، لیکن اگر آپ پرامن طریقۂ کار کو اپناتے ہیں ، تو دوسرے فریق کےپاس آپ کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے کے لئے کوئی بنیاد نہیں ہوگی ۔ یہ گاندھی کےپر امن طریقۂ کار کی منطق تھی، اور بہت جلد ہندوستان آزاد ہو گیا۔
امن کے اس فارمولے کی ایک عام نوعیت یہ ہے کہ، یہ انفرادی اور قومی دونوں سطح پر قابل عمل ہے۔ پرامن عمل کا طریقہ اپنائیں ، اور آپ کی کامیابی یقینی ہو جائے گی ۔
پرتشدد طریقۂ کار ایک انتہائی خطرناک معاملہ ہے۔ اس سے نقصان تقریبا یقینی ہے، جبکہ اس کے فوائد یقینا مشکوک ہیں ۔ لیکن پرامن طریقۂ کار کی صورت میں، کوئی خطرہ نہیں ہوتا، اور اس میں کامیابی کی ضمانت ہے ۔
پرامن طریقۂ کار اتنا مؤثر کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ پرامن طریقہ انسان کے ضمیر کو چوٹ پہنچاتا ہے۔ اور جب ضمیر کو ضرب لگایا جاتا ہے، تو متعلقہ شخص کے پاس، آپ کے سامنے، ہتھیار ڈالنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔
پرتشدد طریقۂ کار دوسرے فریق کی انا کو متحرک کر دیتا ہے ۔ اور جب کسی معاملے میں کسی شخص کی انا ملوث ہو جاتی ہے،تو نتیجہ شکست میں ہوتا ہے۔ تشدد لامحالہ تشدد کو ہی جنم دیتا ہے ۔ لہذا، تشدد صرف مسئلہ کو سنگین کرتا ہے ۔ یہ نہ تو کسی فرد کے مسئلہ کو حل کر سکتا ہے، اور نہ ہی کسی کمیونٹی، ملک اور دنیا کے کسی مسئلہ کو ۔
پرامن طریقۂ کار فطری ہے۔ یہ ایک ناقابل تغیر قانون ہے۔ فطرت کا دائمی شکریہ جو امن کے راستے پر چلاتا ہے، ہم فطرت میں ہر جگہ کمال دیکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ فطرت مختلف قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہو، لیکن یہ کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرتا ۔ اور، بلاشبہ، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے عمل کی حد میں ثابت قدمی کے ساتھ پرامن ہے ۔
ایک پرامن طریقۂ کار آپ کے وقت اور توانائی کو برباد ہونے سے بچاتا ہے۔ پرامن رہنے سے ، صورت حال کو معمول پر لانے میں مدد ملتی ہے، اور اسی طرح یہ تعمیری ہے۔ اس کے علاوہ تشدد، صرف نفرت اور تعصب کو جنم دیتا ہے، جبکہ، امن، محبت اور ہمدردی کو پروان چڑھاتا ہے ۔ امن، سب سے بڑی سماجی اچھائی ہے، اس لئے کہ یہ لوگوں کے درمیان مثبت رویہ کی تعلیم دیتا ہے ۔ جہاں امن ہے وہاں ترقیاتی سرگرمیاں ہو سکتی ہیں ۔ لیکن ایک پرامن ماحول کے بغیر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکتی۔
ستارے، سیارے، اور فطرت کی دیگر تمام صورتیں دن و رات فعال ہیں، لیکن وہ امن کی راہ سے کبھی نہیں ہٹتے۔ امن فطرت کی ثقافت ہے، امن کائنات کا قانون ہے۔ ندیاں امن کے پیغام کے ساتھ بہتی ہیں ، اور جو ہوائیں دن اور رات بہتی ہیں ، وہ یہی پیغام دیتی ہیں۔
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-ideology/the-power-peace-greater-than/d/3810
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-power-peace-greater-than/d/12151