مولانا وحید الدین خان
9ستمبر 2016
11ستمبر 2001 کا واقعہ عصر حاضر کے انتہائی المناک واقعات میں سے ایک تھا۔ اس دن مسلم دہشت گردوں نے دو ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کیا اورنیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے 110 منزلہ ٹاورز سے ٹکرا کر اسے تباہ و برباد کر دیا۔دو گھنٹے کے اندر وہ دونوں عمارتیں منہدم ہو گئیں اور 3،000 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس سال عید قربان کا تہوار اسی تاریخ کے ارد گرد واقع ہو رہا ہے جو کہ13/9 ہے۔اگر چہ سال 2001 میں11/9کو دنیا نے موت کا تماشہ دیکھا تھا لیکن سالانہ عید قرباں کا موقع زندگی کا پیغام دیتا ہے۔ عید قربان کے تہوار کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اللہ کی بارگاہ میں اپنے بیٹے اسمٰعیل کی جان کی عظیم قربانی کے لیے منایا جاتا ہے۔ عراق کے قدیم شہر اُر میں 19ویں صدی قبل مسیح میں پیدا ہونے والے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے 175 سال کی حیات پائی۔آپ کا زمانہ بڑے پیمانےپر قبائلی تشدد اور ظلم کا زمانہ تھا۔
صحرائی ماحول
امن کےاقدار سے بے خبر قبائلی دور کےلوگ اکثر جبر و تشدد کا مظاہرہ کرتے تھے۔جبر و تشدد کے واقعات سے لوگوں کے اندر انتقام کی پیاس بڑھ جاتی تھی جس کے نتیجےکبھی نہ ختم ہونے والا ایک مسلسل جنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔اس زمانے کے انتہائی سخت تشدد کے حالات میں کوئی بھی تعمیری سرگرمیانجام نہیں دی جا سکتی تھی۔
جنگ اور تشدد کی اس ثقافت کی وجہ سے جو کہ کئی ہزار سالوں تک جاری رہا ، لوگ اس صورتحال کے عادی بن چکے تھے۔اسی لیے وہ حضرت ابراہیم کے پرامن مشن کو قبول نہ کر سکے۔انتہائی منفی نتائج کا مشاہدہ کرنے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے الہی رہنمائی کے زیر سایہ ایک نیا منصوبہ تیار کیا۔وہ عراق چھوڑ کرایک ویران علاقہ یعنی عرب کے لیے ہجرت کر گئےجہاں آج مکہ واقع ہے۔وہیں انہوں نے اپنی بیوی ہاجرہ اور بیٹے اسماعیل پر مشتمل اپنے خاندان کو آباد کیا۔یہ کہانی اختصار کے ساتھ قرآن (14:37) میں اور حدیث کی مختلف کتابوں میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے، صحیح بخاری (حدیث نمبر 3184) اور تفسیر الطبری میں (جلد۔2، ص 554)۔اس صحرا میں اپنے خاندان کو آباد کرنے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقصدایک صحرائی ماحول میں ان کی تربیت کرنا تھا۔اس تربیت کا مقصد ایک فطری ماحول میں ایک نئی قوم کی تعمیر کرنا تھاجس کی بنیاد تشدد پر نہیں بلکہ امن و آ شتی پر ہو۔
یہ وہی قوم تھی جس میں 2،000 سال بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم570 عیسوی میں پیداہوئے۔ایک طویل ارتقائی عمل کے بعد صحرائے عرب میں پروان چڑھنے والی اس قوم کے لوگوں کو اسمٰعیلی کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اس نسل کا تربیتی مرکز کعبہ تھا جس کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خود اپنے ہاتھوں سے کی تھی۔کعبہ اور اس کے ارد گرد کے علاقوں کو بلاد احرام کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہاںکسی بھی قسم کا تشدداور یہاں تک کہ جانوروں کو بھی مارنا حرام ہے۔ اس نظام کے ساتھ کعبہ کے سالانہ حج و زیارت کو مشروع کیا گیا تھا۔اور اس حج کے دوران جن اصولوں پر عمل کرنا ہے انہیں قرآن مجید میں یوں بیان کر دیا گیا ہے کہ:تو جو شخص ان (مہینوں) میں نیت کر کے (اپنے اوپر) حج لازم کرلے تو حج کے دنوں میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے اور نہ کوئی (اور) گناہ اور نہ ہی کسی سے جھگڑا کرے، اور تم جو بھلائی بھی کرو اﷲ اسے خوب جانتا ہے، اور (آخرت کے) سفر کا سامان کرلو، بیشک سب سے بہترزادِ راہ تقویٰ ہے، اور اے عقل والو! میرا تقویٰ اختیار کرو۔' (2:197)۔
اس طرح عرب میں تیار ہونے والی اس نسل کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح کیا گیا ہے: 'اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر(پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا،یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ'(3:103)۔اس سےواضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت عرب کے لوگ ظلم و تشدد میں ملوث تھے، لیکن اصلاح اور نئی تربیت کے حضرت ابراہیم کے اس منصوبےکے نتیجے میں ان لوگوں نے پھر سے تشدد کو ترک کر دیا اور امن کے راستے پر چلنا شروع کر دیا۔
زندہ قربانی
عراق کے اندر اپنے آخری ایام کے دوران حضرت ابراہیم نے ایک خواب دیکھا جس میں وہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی قربانی اللہ کی بارگاہ میں پیش کر رہے تھے۔ خواب میں بیٹے کی قربانی خالصتا ایک علامتی قربانی تھی۔اور اس سے مراد یہ تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے مشن کی کامیابی کے لئے از سر نو منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے، اور وہ منصوبہ اپنے بیٹے اسمٰعیل کو صحرائے عرب میں لے جا کر آباد کرنا تھا۔اس صحرائی تربیت میں انہیں ایک بہت بڑی قربانی پیش کرنی پڑی جسے قرآن میں ذبح عظیم کہا گیا ہے (37:107)۔ یہ ایک 'زندہ قربانی'تھی جس میں ایک مثبت مقصد کے لئے انتہائی درجے کا خلوص شامل تھا۔
حج آخری قمری مہینے میں مکہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان ہر سال عید قربان کے نام سے اس دن کو مناتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عیدالاضحیٰ حضرت ابراہیم کی قربانی کی یاد میں منایا جاتا ہے۔اللہ نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ بعد کے ادوار میں بھی تمام مسلمان اپنے اپنےحالات کے مطابق حضرت ابراہیم کی اس پرامن منصوبہ بندی کو علامتی طور پر جاری رکھیں گے تا کہ یہ سنت ابراہمی ہر عہد اور ہر زمانے میں زندہ رہ سکے۔اس جدید دور میں بھی تشدد اور خودکش بم دھماکوں کی صورت میں قدیم قبائلی تاریخ کو پھر سےدہرایا جارہا ہے۔اس زمانے میں عید قربان کا موقع ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ہمیں حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی اس تاریخی مثال کو دوبارہ زندہ کرنا چاہئے۔
اصلاح اور از سر نو تربیت کی ضرورت
آج غلط حالات کی بناء پر لوگ پر تشدد سرگرمیوں میں ملوث ہو چکے ہیں۔اور اس کا حل آج اصلاح اور از سر نو تربیت کےذریعے ایک نئے، مثبت اور امن پسندنسل تیار کرنے میں مضمر ہے۔ آج ہمیں حضرت ابراہیم کی صحرائی تربیتی اصولوں کے مطابق منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ جدید دور میں ایسی منصوبہ بندی رسمی اور غیررسمی دونوں قسم کی تعلیم کی بنیاد پر کی جائے گی۔آج کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہےکہ قدیم صحرائی تربیتی نظام کو تعلیمی نظام کے خطوط پر زندہ کیا جائے۔ تعلیم کے ذریعے کامیاب اصلاح اور تربیت کے ساتھ ہم زیادہ سے زیادہ پر امن لوگ، برادریاںاور اقوام پیدا کر سکتے ہیں۔اس سےدور جدیدمیں ایک بار پھر تشدد کا خاتمہ ہوگا اور امن کی ثقافت ایک بار پھر بحال ہوگی۔
ماخذ:
speakingtree.in/article/story-of-life-death
URL for this article: https://newageislam.com/spiritual-meditations/story-life-death/d/108549
URL for this article: