مولانا وحید الدین خان
9 فروری، 2015
'جہاد' عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا بھی معنیٰ وہی ہے جو 'پر امن جدوجہد' کا معنیٰ ہے۔ بنیادی طور پر اس 'پر امن جدوجہد' سے مراد لوگوں کو راہ خدا کی طرف مدعو کرنے کے لئے جدوجہد کرنا ہے۔ جیسا کہ قرآن کا فرمان ہے ‘‘پس آپ کافروں کا کہنا نہ مانیں اور قرآن کے ذریعے ان سے پوری طاقت سے بڑا جہاد کریں’’ (25:52)۔
دعوت، یا لوگوں کو خدا کی دعوت دینا دراصل ایک نظریاتی جدوجہد ہے۔ یہ ایک کار عظیم ہے۔ اس قسم کے کام میں مختلف مطالبات ہیں۔ جب ان تمام مطالبات کو ذہن میں رکھ کر لوگوں کو خدا کی دعوت دینے کی کوششیں کی جاتی ہیں تو یہ ایک عظیم جدوجہد بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو خدا کی دعوت دینے کو جہاد کہا جاتا ہے۔
یہ جہاد کا حقیقی معنی یہی ہے۔ چند مواقع پر یہ کہا گیا ہے کہ لفظ "جہاد" کو اس کے وسیع ترین معنوں میں قتال یا جسمانی جنگ مراد لینے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم، یہ اس لفظ کا محض ایک ضمنی معنی ہے۔ جہاں تک احکام اور جہاد اور قتال کے متعلق قوانین کا تعلق ہے تو وہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ دعوتی جہاد کا اصل مقصد فریق مدعو کی سوچ و فکر میں تبدیلی پیداکرنا ہے جبکہ قتال کا مقصد اس کے برعکس فریق مخالف کو قتل کرنا ہے۔
جہاد اور قتال میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ جہاد دعوت کے معنوں میں ایک عمومی حکم ہے۔ لوگوں کو خدا کی دعوت دینے کا جہاد ہمیشہ اور ہر حالت میں جاری رہنا چاہیے۔ لوگوں کو خدا کی طرف مدعو کرنے کے جہاد کا مقصد اس کے بندوں تک خدا کا پیغام پہنچا دینا ہے۔ دعوت انسانیت کے لئے خیر خواہی پر مبنی ایک تعمیری اور مثبت سرگرمی ہے، اور یہ ہر دور میں اور ہر نسل میں جاری رہتی ہے۔ اس کے برعکس، قتال کے معنوں میں جہاد ایک عارضی سرگرمی ہے اور اس پر صرف اسی وقت انحصار کیا جا سکتا ہے جب کوئی دوسرا ملک کسی مسلم ملک پر مسلح حملے کا آغاز کر دے۔ لیکن اس حملہ کا جواب دینا افراد کی نہیں بلکہ ایک حکومت کی ذمہ داری ہے اور حکومت کو اس کے لئے ضروری انتظامات بھی کرنے چاہئے۔
URL for English article: https://newageislam.com/islam-spiritualism/jihad-qital/d/101430
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/jihad-qital-/d/101476