مولانا وحیدالدین خان
23ستمبر، 2013
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ سماجی مسائل کو صرف' سماجی سرگرمیوں ' خاص طور پر ریاست، ' حکمران طبقہ ' ، ذات پات پر مبنی جبر و تشدد ، استعماریت اور فلاں فلاں کمیونٹی یا نظریات کے خلاف مظاہرہ کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے ۔
اس قسم کی سرگرمی ' احتجاجی سرگرمی ' کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اورتجربات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ' احتجاجی سرگرمیاں ' نتائج کے اعتبار سے مکمل طور پر بے سود ہیں ۔ اسلام نتیجہ خیز سرگرمیوں پر یقین رکھتا ہے۔ جب ہم ' احتجاجی سرگرمیوں ' کا اس سے حاصل ہونے والے نتائج کے حوالے سے جائزہ لیتے ہیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں ہے کہ ہمیشہ اس سے مال، وقت، قوت اور زندگی کے نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
ایسی سماجی تحریکیں جن کی بنیاد اس قسم کے احتجاج پر مبنی ' سرگرمیوں ' پر ہو ہو سکتا ہے کہ ان کے رہنماؤں کے لئے بہتر ہوں لیکن بڑے پیمانے پر معاشرے کے لئے اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے ۔ تجربات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایسی نام نہاد سماجی تحریکیں صرف منفی سوچ کو ہی جنم دیتی ہیں ۔ اور سچ تو یہ ہے کہ منفی سوچ ایک تباہ کن سوچ ہے کسی بھی تباہ کن سوچ کا انجام مثبت نہیں ہو سکتا ہے۔ اصلاح انتہائی پر خلوص مثبت کوششوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ منفی تنقید کا ایک بھی لفظ اصلاح نہیں پیدا کر سکتا ۔
احتجاج پسند ' کارکنان ' ہمیشہ صرف اپنے ارد گرد کے مسائل پر ہی توجہ دیتے ہیں ۔ وہ اس کے یا اس کے خلاف مظاہرہ کرنے میں اپنی ساری زندگی گزار دیتے ہیں۔ مسائل کو جنم دینے والی یہ سوچ ایک ' غیر فطری ' سوچ ہے۔ اس سے میرا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ یہ طرز فکر اپنا رہے ہیں اور ایسے اقدامات کر رہے ہیں وہ قانون فطرت کے خلاف ایک طرز فکر اپنا رہے ہیں اور اقدامات کر رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں مسائل زندگی کا ایک ناگزیر حصہ ہیں۔ ہر نظام اور ہر معاشرے میں مختلف قسم کے مسائل ہیں اور ہمیشہ رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر طرح کی صورت حال میں مواقع بھی موجود ہوتے ہیں ۔ فطرت کے قانون کے مطابق کوئی بھی پریشانی مکمل طور پر مواقع کو ختم نہیں کر سکتی ہے، مواقع بھی اسی وقت موجود ہوتے ہیں یہاں تک کہ انتہائی مشکل حالات بھی مواقع کو ختم نہیں کر سکتے ۔ لہٰذا ، مسائل کو نظر انداز کرنا اور دستیاب مواقع کو بروئے کا ر لانا ہی سب سے بہترین عملی نسخہ ہے ۔
جو منفی سوچ اپناتے ہیں اور دوسروں کے خلاف احتجاج اور مظاہرہ کرنے میں مشغول ہوتے ہیں ان کی فطرت ہی منفی بن جاتی ہے ۔ ایسے لوگ خود کے بارے میں جو تصور کرتے ہیں اس کے برعکس اپنے معاشرے کو جواب دہ ہیں ، معاشرے کا اثاثہ نہیں ۔ جو لوگ مسلسل دوسروں کی خامہ تلاشی کرتے ہیں اور مختلف مسائل اور سماجی برائیوں کے لئے دوسروں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں وہ در اصل کوئی نفع بخش کام نہیں کر رہے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں صرف تباہ کن ہیں۔
قدرت کے قانون کے مطابق مسائل خود مسائل نہیں ہیں بلکہ چیلنجز ہیں ۔ مسائل صرف چیلنجز کے ناخوشگوار نام ہیں۔ مسائل مقابلہ کو جنم دیتے ہیں اور مقابلہ لوگوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھاتا ہے۔ اور نتیجتاً یہ عمل ترقی اور کامیابی کی طرف لے جاتا ہے ۔ قانون فطرت کے مطابق زندگی چیلنجوں سے بھری ہوئی ہے ۔ چیلنجوں کے بغیر ترقی کا کوئی تصورنہیں ہے۔ میں اس نقطہ پر آرنلڈٹونبی سے مکمل طور پر اتفاق کرتا ہوں۔ انہوں نے چیلنج کے جواب کا اصول تیار کیا ہے۔ اس اصول کے مطابق، تمام مسائل چیلنج ہیں اور تمام چیلنج ترقی کی طرف بڑھنے والی سیڑھیاں ہیں۔
میں اس تناظر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو لوگ ہر وقت ' سماجی سرگرمیوں ' اور ‘ اصلاح معاشرہ ’ کے نام پر دوسروں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں ان کا یہ اقدام قانون فطرت کے خلاف ہے ۔ اور فطرت کے خلاف جانے والے دو گنی برائی کا ارتکاب کرتے ہیں: اس لئے کہ خود ان کے لئے یہ راستہ نفسیاتی خود کشی کے مشابہ ہے، اور دوسروں کے لئے یہ اس سے بھی زیادہ مسائل پیدا کردیتا ہے ۔
ایسے افراد خود معاشرے میں مسائل کے جڑ ہیں ۔ ان کی کوششوں کو جانچنے کا بہترین طریقہ احتجاج پر مبنی ' سرگرمی ' کے نتائج کے لحاظ سے ان کے اقدامات کا فیصلہ کرنا ہے۔ اگر آپ اس ترکیب کو بروئے کار لائیں گے تو آپ یہ پائیں گے کہ ایسے لوگ مسائل کا تصفیہ کرنے کے بجائے مسائل پیدا کرنے والے ہیں ۔ ان کا نظریہ " ہم " اور وہ" کے تصور پر مبنی ہے۔ اس طرح کے نظریات لوگوں کے درمیان صرف منفی سوچ پیدا کرتے ہیں اور موجودہ تنازعات میں شدت پیدا کرتے ہیں ۔
سماجی مسائل حقیقت میں انفرادی مسائل ہیں ۔ افراد کو تعلیم دیں اور سماجی مسائل خود ان کے ذریعہ ہی حل کر لئے جائیں گے ۔ ' تعلیم ' سے میرا مطلب رسمی اور غیر رسمی دونوں تعلیم ہے۔ تعلیم کا میرا تصور انفرادی تربیت کو بھی شامل ہے جو کہ لوگوں کو مثبت ذہن کا حامل اور انہیں حقیقت پسندانہ بنانا ہے ۔ حقیقی اصلاحات کا آغاز افراد کی تعلیم کے ساتھ ہوتا ہے حکام پر تنقید کر کے نہیں ۔ سماجی مسائل کو حل کرنا اسلامی نظریہ ہے۔ میرے علم کے مطابق اسلام میں کسی سماجی سرگرمی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اسلام صرف انفرادی سرگرمی میں یقین رکھتا ہے اور سماجی یا سیاسی سرگرمی میں نہیں ۔
قانون فطرت کے مطابق اگر افراد کی اصلاح کر دی جائے تو معاشرے کی خود بخود اصلاح ہو جائے گی۔ خود اپنی اصلاح پر اور دیگر افراد کی اصلاح پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ لیکن جو لوگ انفرادی اصلاح(جس کا مطلب خود کی اصلاح کے ساتھ شروعات کرنا ہے ) کو نظر انداز کرکے ' سماجی ' تبدیلی کی بات کرتے ہیں وہ پورے معاملے کو درہم برہم کر دیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ، مارکسزم یا سوشلزم کا فلسفہ معاشرے پر مرکوز تھا، اور اس میں افراد اور انفرادی اصلاح کی بات یکسر مفقود تھی ۔ مارکسزم کی بری طرح ناکامی کی یہی ایک وجہ ہے ۔
کیا یہ ممکن ہے ، یا اس کی توقع کی جاتی ہے کہ کوئی سماجی اصلاحات اور انفرادی اصلاح کے درمیان ایک مناسب توازن پیدا کرنے کی بات کرے ؟ میں ان دونوں کے درمیان ایک توازن پیدا کرنے کے فارمولے میں یقین نہیں کرتا ۔ ہر طرح کی اچھائی اور برائی دونوں کی جڑ افراد ہیں ۔ اگر آپ برائی سے پاک ایک معاشرہ بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو افراد کی اصلاحات پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی ۔ ' سماجی سرگرمی ' یا ' سماجی اصلاحات ' کا تصور ایک غلط تشخیص پر مبنی ہے۔ تمام قسم کے مسائل کی جڑ افراد ہیں۔ اور اسی لئے افراد کی اصلاحات کے بجائے ' سماجی اصلاحات ' کے بارے میں تمام باتیں بیکار ہیں ۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر تشخیص غلط ہوتو نسخے بیکار ہو جاتاے ہیں ۔
آپ سوال کر سکتے ہیں کہ کیا افراد کی اصلاح سماجی اصلاحات کا موجب ہو سکتی ہے ؟ کیا افراد کی اصلاحات بے پایاں سماجی مسائل کو حل کرنے کے لئے کافی ہیں؟ ان سوالات کے جواب کے لئے، آپ کو یہ سمجھنےکی ضرورت ہے کہ واقعی ' سماج ' ہے کیا ۔
سوسائٹی صرف افراد کا ایک مجموعہ ہے ۔ لہذا اگر افراد کی اصلاح ہو جائے گہ تو نتیجتاً پورے معاشرے کی بھی اصلاح ہو جائے گی۔ لیکن اگر آپ خود کے بجائے معاشرے کی اصلاح کرنے کی کوشش پر توجہ صر ف کرتے ہیں تو آپ کی تمام کوششیں ضائع ہو جائیں گی ۔ اگر کوئی صحیح معنوں میں معاشرے میں اصلاحات پیدا کرنا چاہتا ہے تو اسے افراد کو تعلیم یافتہ بنانے کے لئے خود کو وقف کرنا ہوگا۔اصل چیز پر آپ اسی وقت توجہ مرکوز کرتے ہیں جب آپ افراد کی اصلاح پر دھیان دیتے ہیں۔ اس کے بجائے اگر آپ مجموعی طور پر سماج کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو آپ کی توجہ ماند پڑ جائے گی اس لئے کہ معاشرہ ایک ایسا اجتماعی تصور ہے جو افراد کے ایک مجموعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ اس لئے کہ اس میں رہنے والوں کو چھوڑ کر خود معاشرے کا کوئی وجود نہیں ہے ، افراد کی اصلاح کے بغیر ہی پورے معاشرے کی اصلاح کرنے کی تمام کوششیں بیکار ہیں۔
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)
مولانا وحیدالدین خان نئی دہلی میں سینٹر فار پیس اینڈ اسپریچویلٹی کے سربراہ ہیں ۔
URL for English article:
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/‘individual-reform,-‘protest-activism-‘‘/d/13712